حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپ کو معلم بنا کر بھیجا گیا ، آپ ﷺ نے دین کی باتیں سمجھانے کے لیے کئی طریقے اپنائے جیسا کہ براہِ راست نصیحت کرنا،سوالات کے جوابات دینا،عملی نمونہ پیش کر کے تربیت فرمانا اور خاموشی یا خاموش رویہ اختیار کر کے سمجھانا وغیرہ انہیں میں سے ایک طریقہ مثال دے کر تربیت فرمانا بھی ہے ، انسانی فطرت ہے کہ وہ آسان بات جلدی سمجھتا ہے خاص طور پر جب کوئی بات مثال دے کر سمجھائی جائے تو وہ دل میں اتر جاتی ہے اور لمبے عرصے تک یاد رہتی ہے، نبی پاک ﷺ نے بہت سے موقعوں پر دین کی اہم باتوں کو آسان اور سادہ مثالوں سے بیان فرمایا۔ ذیل میں انہیں مثالوں پر مشتمل چند احادیث بیان ذکر کی جاتی ہیں:

(1) صاحب قرآن کی مثال اونٹ مالک کی مانند: قرآن پاک پڑھنے ، اسے یاد رکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے صاحب قرآن کو اونٹ کے مالک سے تشبیہ دی کہ جس طرح وہ اونٹ کو باندھ کر رکھے گا تو اس سے قابو میں رہے گا ورنہ وہ بھاگ جائے گا اسی طرح قرآن پاک کو پڑھنا چھوڑ دیں گے تو وہ بھی سینوں سے نکل جائے گا ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّمَا مَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْآنِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ ، إِنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَكَهَا وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ ، قرآن کے حافظ کی مثال اس اونٹ والے کی سی ہے جس نے اونٹ کو مضبوطی سے باندھ رکھا ہو۔ اگر وہ اس (اونٹ) کی نگرانی کرتا رہے تو اسے قابو میں رکھے گا اور اگر اسے چھوڑ دے تو وہ بھاگ جائے گا۔( صحیح بخاری،کتاب فضائل القرآن،باب استذکار القرآن و تعاھدہ،حدیث:5031)

(2) پانچوں نمازوں کی مثال دن میں پانچ بار غسل کرنے سے: الله پاک کے آخری نبی محمد عربی ﷺ نے پانچوں نمازیں پڑھنے والے کو نہر میں پانچ بار غسل کرنے والے سے تشبیہ دی کہ جس طرح اس کے جسم پر میل کا اثر باقی نہیں رہتا اسی طرح پانچوں نمازیں ادا کرنے والا شخص گناہوں کے میل سے پاک و صاف ہو جاتا ہے ، حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا، مَا تَقُولُ: ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ قَالُوا: لَا يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا ، قَالَ: فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهَا الْخَطَايَا

بتاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو، جس میں وہ روزانہ پانچ بار غسل کرے، تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہے گا؟ صحابہ نےعرض کی : نہیں، کچھ بھی میل باقی نہیں رہے گا ، آپ ﷺ نے فرمایا: یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، جن کے ذریعے اللہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب المواقیت،باب الصلوات الخمس،حدیث: 528 )

(3) مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح: مومن کو کجھور کے درخت سے تشبیہ دی کہ جس طرح کھجور کا درخت ہر حالت میں فائدہ مند ہوتا ہے چاہے اس کا پھل ہو یا لکڑی یا پھر اس کی شاخیں اسی طرح ایک مرد مومن بھی اپنے تمام تر افعال سے دوسرے لوگوں کو فائدہ ہی پہنچاتا ہے ،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا، وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، فَاسْتَحْيَيْتُ، ثُمَّ قَالُوا: حَدِّثْنَا مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: هِيَ النَّخْلَةُ

درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں گرتے، اور وہ مسلمان کی مثال ہے، بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ لوگ جنگل کے درختوں میں سوچنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں: میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، مگر میں شرما گیا۔ پھر لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بتایئے وہ کون سا درخت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب العلم، باب الحیاء فی العلم، حدیث: 131)

(4) نیک و بد دوست کی مثال: نیک و بد دوست میں فرق بیان کرتے ہوئے دونوں کی مثال دی کہ نیک دوست عطر فروش کی طرح ہے اس سے ہر وقت خوشبو ہی آئے گی اور برا دوست لوہار کی طرح ہے دور سے گزریں تو بھی آگ پڑنے کا خطرہ رہتا ہے ، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ، كَحَامِلِ الْمِسْكِ وَنَافِخِ الْكِيرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ: إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الْكِيرِ: إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً نیک اور برے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے عطر بیچنے والا اور لوہار کی بھٹی والا۔ عطر والا یا تو تمہیں کچھ دے دے گا، یا تم اس سے کچھ خرید لو گے، یا تمہیں اس کی خوشبو پہنچے گی۔ اور لوہار کی بھٹی والا یا تو تمہارے کپڑے جلا دے گا یا تمہیں اس سے بدبو محسوس ہو گی۔(صحیح بخاری، کتاب الذبائح والصید، باب الجزار، حدیث: 5534)

(5) نفاق سے بچنے کی ترغیب: نفاق سے بچنے کی ترغیب دلاتے ہوئے منافق کی مثال ارشاد فرمائی کہ وہ اس بکری کی طرح ہے جو دو بکروں کے پاس جائے یعنی منافق شخص کسی کا بھی مخلص نہیں ہوتا ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: مَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ الشَّاةِ الْعَائِرَةِ بَيْنَ الْغَنَمَيْنِ، تَعِيرُ إِلَى هَذِهِ مَرَّةً، وَإِلَى هَذِهِ مَرَّةً منافق کی مثال اس بکری کی مانند ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان حیران پھرتی ہے، کبھی ایک طرف جاتی ہے اور کبھی دوسری طرف۔(صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب ذکر المنافقين واحکامهم، حدیث نمبر: 7043)

(6) مسئلہ ختمِ نبوت مع مثال: ختم نبوت کے مسئلہ کو ذہنوں میں پختہ کرنے کے بہت پیاری مثال دے کر سمجھایا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ، كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يُطِيفُونَ بِهِ، وَيَقُولُونَ: مَا رَأَيْنَا بُنْيَانًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا، إِلَّا هَذِهِ اللَّبِنَةَ، فَكُنْتُ أَنَا تِلْكَ اللَّبِنَةَ

میری اور مجھ سے پہلے انبیا کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک خوبصورت عمارت بنائی ہو، مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی ہو۔ لوگ اس عمارت کے گرد گھومتے اور اس کی خوبصورتی پر حیران ہوتے مگر کہتے: کاش یہ اینٹ بھی لگ جاتی۔ تو میں وہ آخری اینٹ ہوں۔(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ خاتم النبیین ﷺ، حدیث:2286)

نبی پاک ﷺ کی تعلیمات آج بھی پوری امت کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں یہ صرف پڑھنے کی حد تک نہیں بلکہ سمجھ کر ان پر عمل کرنا بھی آسان ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں نبی ﷺ کی باتوں کو دل سے ماننے، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ