اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔

مہمان نوازی ایمان کی علامت اور انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے:مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ ( بخآری حدیث 6019 )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف میں سے ایک وصف مہمان نوازی بھی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود مہمانوں کی خدمت کرتے تھے۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لے کر بھی مہمان نوازی کی ہے۔

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک مہمان حاضر ہوا، آپ علیہ السلام نے مجھے ایک یہودی سے ادھار غلّہ لینے کیلئے بھیجا مگر یہودی نے رَہْن کے بغیر آٹا نہ دیا تو آپ نے اپنی زِرہ گروی رکھ کر ادھار غلّہ لیا۔ ( مسند البزار ج 9 حدیث: 3863 )

مہمان نوازی کی فضیلت پر احادیث:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔ ( ابن ماجہ حدیث: 3356 )

(2)نبیّ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ ( کشف الخفاء حدیث:1641 )

(3)فرمان مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ آدمی جب اللہ پاک کی رضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے۔ جو پورے ایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس بندے یعنی مہمان نوازی کرنے والے کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہو جاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہےکہ اس کو جنت کی پاکیزہ غذائیں، ”جنۃ الخلد“ اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔(کنزالعمال ؛ حدیث: 25878)

مہمانوں کے حقوق:

مندرجہ ذیل چیزیں مہمانوں کے حقوق میں شامل ہیں:

مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔

مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار محبت دینا۔

اس کی عزت کرنا اور اس سے احترام کے ساتھ پیش آنا۔

اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا۔

اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا۔

اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا۔

مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔

مہمان نوازی کے فوائد:

مہمان نوازی کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ جیسا کہ مہمان نوازی سے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ کو فروغ ملتا ہے۔ جب ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے تو وہ بھی ہمارے ساتھ عزت و احترام والا سلوک کریں گے۔ مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔

مہمان نوازی سے معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ مل جل کر بیٹھنا، پاکیزہ گفتگو کرنا اور اکٹھے ہو کر محبت بھرے انداز میں کھانا کھانا۔ یہ سب معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔

مہمان نوازی اور ہمارا معاشرہ: افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدریں اور ثقافت دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ گھر میں مہمان کی آمد اور اس کے قیام کو زحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مہمانوں کے لئے گھروں کے دستر خوان سکڑ گئے ہیں۔

ایک وہ دور تھا کہ جب لوگ مہمان کی آمد کو باعث برکت سمجھتے اور مہمان نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے۔ جبکہ آج کے دور میں مہمان کو وبال جان سمجھ کر مہمان نوازی سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اگر کسی کی مہمان نوازی کرتے بھی ہیں تو اس سے دنیوی مفاد اور غرض وابستہ ہوتا ہے۔ حالانکہ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت اور فضیلت کا باعث ہے۔

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


دین اسلام میں مہمان نوازی کو بہت اہمیت دی گئی ہے اچھا یہاں تک کہ اس نیک عمل کو ایمان کہ بنیادی تقاضوں میں شامل کیا گیا ہے حدیث پاک میں ہے ہمارے اقا و مولا مکی مدنی مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

حدیث :

جو اللہ پاک پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے ( بخآری کتاب الادب الخ ص 1500 حدیث نمبر 6018 )

اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے مہمان نوازی کو ایمان کے ساتھ جوڑ کر ذکر فرمایا گویا یہ بتا دیا کہ مہمان کی عزت کرنا مہمان کے اچھے انداز میں خاطرداری کرنا ایمان کا بنیادی تقاضا ہے جو بندہ اللہ پاک پر ایمان رکھتا ہے قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے اخلاق میں یہ بنیادی بات شامل ہونا ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کیا کریے

اسی طرح ایک حدیث پاک میں مہمان نوازی کو ادمی کے کردار کے ساتھ جوڑ کر بیان کیا گیا رسول ذیشان مکی مدنی سلطان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اس بندے میں کوئی بھلائی نہیں ہے جو مہمان نوازی نہیں کرتا ( مکارم الاخلاق للخراءطی باب ما جاء فی اکرام الضیف جلد 2 ص 155 حدیث 329 )

اس حدیث پاک کی شرح میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدمی کی اچھائی اور برائی اس کے شر اور اس کی بھلائی کا معیار مہمان نوازی ہے جو مہمان نواز ہے مہمان کی عزت کرتا ہے مہمان کو راحت و آرام پہنچاتا ہے مہمان گھر ائے تو خوشی سے کھل اٹھتا ہے وہ ادمی بہت اچھا ہے اس کے کردار میں اس کے اخلاق میں اس کے سیرت و ذات میں بھلائی ہے اور مہمان کے تمام حقوق کو ادا کر لیا جو بندہ مہمان کی عزت نہیں کرتا مہمان گھر ا جائے تو اس کا چہرہ مرجھا جاتا ہے دل ہی دل میں پریشان ہو جاتا ہے مہمان کی اچھی میزبانی نہیں کرتا ایسے ادمی کے اخلاقوں کردار اور اس کی ذات میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔

مہمان نوازی پر ایک واقعہ :

ایک مرتبہ پیارے اقا مکی مدنی مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کہیں تشریف لے جا رہے تھے راستے میں ایک امیر شخص کے قریب سے گزر ہوا اس شخص کے پاس کافی سارے اونٹ اور بکریاں تھیں اس کے باوجود اس شخص نے رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی مہمان نوازی نہ کی پھر اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایک ایک صحابیہ کے گھر کے قریب سے گزرے یہ صحابیہ رضی اللہ عنہا زیادہ امیر نہیں تھی ان کے پاس چند اور چھوٹی چھوٹی بکریاں ہی تھیں انہوں نے جب رسول خدا احمد مجتبیٰ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دیکھا تو خوش ہو گئی اپنی قسمت پر ناز کرنے لگی کہ واہ کیا شان ہے معراج کے دولہا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آج اس غریب کے گھر تشریف لائے ہیں چنانچہ ان صحابیہ نے جلدی سے ایک بکری کو ذبح کروایا اور اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خوش دلی سے مہمان نوازی کرنے کی سعادت پائی جب یہ معاملہ ہوا تو اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو ایک طرف وہ شخص ہے اس کے پاس اونٹوں اور بکریوں کے ریوڑ ہیں مگر اس نے ہماری میں مہمان نوازی نہ کی دوسری طرف یہ خاتون ہے اس کے پاس چند چھوٹی چھوٹی بکریاں ہی ہیں مگر اس کا دل بڑا ہے اس نے ہماری اچھی مہمان نوازی کی ہے پھر اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا یہ اچھے اخلاق ہیں جو اللہ پاک کے قبضے میں ہیں اللہ پاک جسے چاہتا ہے اچھے اخلاق سے نواز دیتا ہے اس واقعے سے معلوم ہوا کہ مہمان نوازی ایک بہت اچھا اخلاق ہے ۔

حدیث :ایک اور حدیث میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تمہارے پاس کوئی مہمان ائے تو اس کی تکریم کرو ( مکارم الاخلاق للخراءطی باب ما جاء فی اکرام الضیف الخ جلد 2 ص 156 حدیث 330)

اس حدیث پاک میں ہمیں حکم دیا گیا کہ مہمان کی تقریم کرو اس کی عزت کرو اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ جب گھر مہمان ائے تو جلد از جلد اس کی میزبانی کریں مہمان کو پانی پیش کریں چائے بنوائیں کھانا بنوائیں جیسا موقع ہو جیسا مہمان ہو جیسا موسم چل رہا ہو اس کے مطابق جلد از جلد میزبانی میں لگ جائیں اس سے مہمان کے تمام حقوق ادا ہو جائیں گے

اللہ پاک ہمیں مہمان کی مہمان نوازی اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

پیارے پیارے بھائیو آج ہم مہمان کے حقوق کے بارے میں سنے گے اللہ تعالٰی مجھ اچھی طرح بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے  کوئی بھی اچھی خصلت یا روایت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں تعلیم نہ دی ہو دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں میں جو اچھی عادات ہیں اوررسم رواج ہیں اسلام میں ان کے بارے میں تعلمیات موجود ہیں ۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھاہیو جہاں اسلام  نے دیگر چیزوں  کے حقوق کا خیال رکھا وہی مہمان کے حقوق  کو تفصیل سے بیان فرمایا  :اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ ترجمہ کنزالعرفان:اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔(پ28، س حشر،آیت نمبر 9)

اس آیت مبارکہ میں ایک عظیم شان مہمان نوازی کی طرف اشارہ ہے حضرت طلحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کےاہل وعیال کو خود  کھانے  کی خواہش تھی  مگر  وہی کھانا  مہمان کو پیش کردیا    تو قرآن نے اس فعل کی تعریف بیان کی۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھاہیو ہمیں بھی چاہئے کے ہم  اپنی ذات پر مہمانوں کو ترجیح دے میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں (مہمان  کے آداب و حقوق )

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ترجمہ :جب تمہارے پاس کوئی مہمان آئے اس کی تکریم کرو ۔ (مکارم الا خلاق للخراہطی باب ماجاءفی اکرام الفیف الخ  جلد ہی 2 صفحہ 156 حدیث 330)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں یہاں ہمیں حکم دیا جاتا ہے کہ  مہمان کی تکریم کرو اس کی عزت کرو یہ اس کا حق ہے میٹھے میٹھے اسلامی بھاہیو مہمان گناہ بخشواجاتا ہے حدیث پاک میں ہےسرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تورزق لےکرآتا ہے کہ اور جب اسکے یہاں سے جاتاہے توصاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (مسند الفردوس جلد 2صفحہ 432حدیث 3896)

مہمان نوازی ایمان کا تقاضا ہے:میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں دین اسلام میں مہمان  نوازی کی اہمیت دی گئ ہے یہاں تک کہ اس نیک عمل کو ایمان کے بنیادی تقاضوں میں شامل کیا ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ترجمہ : جو لوگ اللہ پاک پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے ۔ (بخاری کتاب الادب باب من کان یومن بااللہ الخ صفحہ 1500 حدیث 6018)

سبحن اللہ دیکھے کیسی پیاری بات ہے اور کیسا حق بیان کیا ہے مہمان کا اس حدیث پاک میں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مہمان نوازی کو ایمان کے ساتھ جوڑکرذکر فرمایاگویایہ بتایاکہ مہمان کی عزت کرنااچھے انداز میں خاطر داری کرنا ایمان کا تقاضا ہیں ۔

مہمان جب گھر آئے اسکی عزت کرنا۔

مہمان کے ساتھ گفتگو کرنا

مہمان کو کسی قسم کی تکالیف نہ دینا

مہمان جب جانے لگے اس کو گھر کے دروازے تک ساتھ جانا اور الوداع کہنا

یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لی کرنا یہ تمام کام جو ہے اس میں مہمان کا حق ہے کہ ایسا کیا جائے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کےوہ ہماری اور ہماری والدین کی مغفرت فرمائے اور ہم کو مہمان نواز بنائے۔ آمین ثم آمین


کائناتی نظام کو رب تعالی نے اس طرح ترتیب دیا ہے کہ اس میں ایک چیز دوسری کی محتاج ہے دوسری چیز کسی تیسری شے کی محتاج ہے اس طرح یہ سارا نظام ایک لڑی بنائے ہوئے ہے۔ اس کی بدولت ہم ایک دوسرے کے نہ صرف محتاج ہیں بلکہ یہی چیز ہم لوگوں میں تعلق بنائے ہوئے ہے۔ کبھی یہی ضرورتیں خود غرضی پیدا کرتیں ہیں اور کبھی ایسا جذبہ متحرکہ پیدا کرتیں ہیں۔ کہ ایک انسان کو سراپا احساس کرنے والا بنا دیتیں ہیں۔جس کی بدولت ہم باقی مخلوق سے ممتاز ہیں محبت و احساس، حسن اخلاق ، قرب خدا اور جذبہ ایثار سے جو چیز سرشار کرتی ہے اسے مہمان نوازی کہتے ہیں۔ ہر عمل کی طرح اس کے بھی اصول و ضوابط ہیں۔ جو اس عظیم کام کو عظمت کی بلندی تک پہنچا دیتے ہیں۔ ذیل میں ہم مہمان کے حقوق کا جائزہ لیتے ہیں۔

مہمان کی عزت و تکریم کرنا! مہمان کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ اس کی عزت و تکریم ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کی عزت و تکریم کو ایمان کی علامت قرار دیا جیسا کہ ابو شرح العدوی سے مروی ہے۔ میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرما رہے تھے: "جو شخص اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہم سایہ کی تکریم کرے۔ اور جو شخص اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھرے ( یعنی پہلے دن خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم کرے۔ کسی پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جائزہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ایک دن رات ( مہمان کا خصوصی) اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو وہ صدقہ شمار ہوتی ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے ۔ (الادب المفرد، محمد بن اسماعیل البخاری،ص 259 )

مہمان کا استقبال کرنا: مہمان کا سب سے اہم حق ہے کہ اس کا استقبال کیا جائے۔ مہمانوں کا اچھے انداز سےاستقبال کرنے سے دلی سکون حاصل ہوتا ہے اور باہمی پیارو محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مہمانوں کا استقبال کرنا مستحب قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: اس وفد کو خوش آمدید کہا جو شرم اور ندامت کے بغیر آئے۔ (صحیح البخاری، ج 8،ص 41حدیث نمبر6176)

مہمان کو اپنے اور اہل و عیال پر ترجیح دینا: یہ بھی مہمان کے حقوق میں سے ہے کہ ان کو اپنے اہل و عیال پر ترجیح دے۔ یہ مہمان کی حالت کے پیش نظر بھی کیا جا سکتا ہے۔ مہمان کا حق یہ ہے کہ میزبان اپنی برابر کا اور احوط یہ ہے کہ اپنے سے اعلیٰ کھانا دے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کے پاس اس کا کھانا منگوانے کے لئے ایک آدمی کو بھیجا۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے ؟ جو اس مہمان کو اپنے ساتھ لے جائے یا یہ فرمایا کہ کون ہے ؟ جو اس کی میزبانی کرے؟ ایک انصاری نے عرض کیا کہ میں یا رسول اللہ ) پس وہ اسے اپنی زوجہ کے پاس لے گیا اور اس کو کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خوب خاطر کرنا اس نے کہا ہمارے ہاں تو اپنے لیے ہے تو انصاری نے کہا تم کھانا تو تیار کرو اور چراغ روشن کرو بچے اگر کھانا مانگیں تو انہیں سلا دینا اس نے کھانا تیار کر کے چراغ روشن کیا اور بچوں کو سلا دیا پھر وہ گویا چراغ کو ٹھیک کرنے کے لئے کھڑی ہوئی۔ مگر اس نے بجھا دیا اب وہ دونوں میاں بیوی مہمان کو یہ دکھاتے رہے کہ کھانا کھا رہے ہیں حالانکہ ( در حقیقت) انہوں نے بھوکے رہ کر رات گزاری۔ جب وہ انصاری صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی رات تمہارے کام سے بڑا خوش ہوا پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی " ترجمہ! اور وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگر چہ خود حاجت مند ہوں اور جو اپنے نفس کی حرص سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے۔" (صحیح البخاری، ج5، ص 34، حدیث نمبر: 3798)

مہمان کو تکلیف دینے سے گریز کرنا: میزبان پر یہ فرض ہے کہ مہمان کی عزت و آبرو کا لحاظ رکھے۔ اسے قولی عملی یا کسی بھی طریقے سے تکلیف دینے سے گریز کرے حتی کہ اس کے سامنے ایسی بات کو بھی بیان نہ کرے جس سے اسے شرمندگی ہو اور کوشش کرے کہ مہمان خوش ہو کر رخصت ہو۔ عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ رجاء بن حیوا نے مجھ سے کہا کہ میں نے آپ کے باپ سے زیادہ صاحب مروت آدمی نہیں دیکھا۔ میں نے ایک دفعہ ان کے ہاں رات گزاری۔ چراغ جل رہا تھا اور وہ اچانک بجھ گیا۔ انہوں نے کہا اے رجاء چراغ بجھ گیا ہے۔ غلام بھی ہمارے ساتھ سویا ہوا تھا۔ میں نے عرض کی کیا میں غلام کو جگا دوں۔ تاکہ وہ چراغ درست کر دے ۔ آپ نے فرمایا وہ تو اب سویا ہوا ہے۔ میں نے کہا آپ مجھے اجازت نہیں دیتے کہ میں اسے درست کر دوں۔ آپ نے فرمایا نہیں مہمان سے کام لینا مروت کے خلاف ہے۔ پھر آپ خود اٹھے چراغ کی طرف بڑھے اس میں تیل ڈالا اور سلائی جلائی اور وہ چراغ جلتے گیا۔ پھر واپس اپنی جگہ پر لوٹ آئے اور کہا جب میں اٹھا تو عمر بن عبدالعزیز تھا اب بیٹھ گیا ہوں تب بھی عمر بن عبدالعزیز ہوں ۔ (المعارفۃ و التاریخ،ج 1، ص578)

مہمان کو بنفس نفیس رخصت کرنا:جس طرح مہمان کی آمد پر اسکا اچھی طرح استقبال کرنا چاہیے اسی طرح اس کو رخصت کرتے وقت خود ساتھ چل کر دروازے تک الودع کرنا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن من السنة أن تشيع الضيف إلى باب الدار. ترجمہ: سنت میں سے ہے کہ تم مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک چلو۔(الخرائطی ص 122 حدیث نمبر348)

حضرت ابو سعید القاسم امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے ۔ ابو عبید القاسم فرماتے ہیں کہ جب میں واپسی کے لیے کھڑا ہوا تو آپ بھی میرے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ میں نے عرض کیا حضور آپ زحمت نہ فرمائیں تو احمد بن حنبل نے فرمایا: یہ بات مہمان کی تکریم میں سے ہے کہ گھر کے دروازے تک اس کے ساتھ چلے۔ (سنن الترمذی ، ج 4، ص 178,حدیث نمبر 2395)

اس لیے ہمیں چاہیے کہ نہ صرف ہم مہمان کے حقوق کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ بلکہ عملی زندگی میں ان کا نفوذ بھی کریں۔ تاکہ پرسکون زیست کے سے لطف اندوز ہو سکیں۔


اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔اور مہمان نوازی نہ صرف ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کا طریقہ بھی ہے چنانچہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام بہت ہی مہمان نواز تھے۔

فرمان مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم ہے :جس گھر میں مہمان ہو اُس میں خیرو برکت اُونٹ کی کوہان سے گرنے والی چھڑی سے بھی تیز آتی ہے۔ (ابن ماجہ،ج4،ص51، حدیث: 3356)

آئیے مہمان کے 5 حقوق پڑھتے ہیں :

1 :مہمان کی خدمت کرنا: مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کہے اور اس کی خدمت کرے۔ فرمان مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:مہمان نوازی کرنے والے کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔(تمہید الفرش،ص18)

2: تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کرنا: مہمان آئے تو اُس کی خدمت میں تنگ دِلی کا مُظاہَرہ نہ کرے کہ فرمانِ مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے:جب کسی کے یہاں مہمان آتا ہے تو اپنا رِزْق لے کر آتا ہے اور جب اُس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحِبِِ خانہ کے گُناہ بخشے جانے کا سبب ہوتاہے۔(کنزالعمال، جز9، ج5،ص107،حدیث:25831)

3 :مہمان کے ساتھ کھانا : جب مہمان کَم ہوں توميزبان كو چاہئے کہ مہمانوں کے ساتھ مل کر کھانا کھائے۔ حکمت: اِس سے اُن کی دل جوئی ہو گی۔قُوتُ الْقُلوب میں ہے: جو شخص اپنے بھائیوں کے ساتھ کھاتا ہے اُس سے حساب نہ ہو گا۔( قوت القلوب،ج2،ص 306)

4 :مہمان کا احترام کرنا : میزبان کو چاہیے کہ مہمان کے ساتھ عزت واحترام سے پیش آئے ۔چنا نچہ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243 )

5 :مہمان کو الوداع کرنا : جب مہمان رخصت ہو تو اسے اچھے طریقے سے الوداع کہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔ (ابن ماجہ)

اسی طرح جب مہمان جانے کی اجازت مانگے تو میزبان اُسے روکنے کے لئے اِصرار نہ کرے۔ حکمت: ہو سکتا ہے مہمان کوئی ضَروری کام چھوڑ کر آیا ہو، زبردستی روک لینے کی صورت میں اُس کا نقصان ہوسکتا ہے۔حضرتِ سیِّدُنا اِمام محمدبن سِیْرین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتےہیں:اپنے بھائی کا اِحتِرام اِس طرح نہ کرو کہ اُسے بُرا معلوم ہو۔ (بستان العارفین، ص61)


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتی ہے حضور صلی  اللہ علیہ والہ وسلم مہمانوں کو اچھے سے اچھے مکانوں میں ٹھہراتے تھے اور ان مہمانوں کے ساتھ نہآیت ہی خوشی اور خندہ پیشانی کے ساتھ گفتگو فرماتے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مہمانوں کے حقوق بھی بیان فرمائے آئیے میں آپ کے سامنے چند احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں ۔

مہمان کے ساتھ دروازے تک جانا :(1) روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4258 )

مہمان کا احترام کرنا : (2) روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے اور جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے ایک روایت میں پڑوسی کے بجائے یوں ہے کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243)

مہمان کی خاطر تواضع کرنا: (3) حضرت سَیِّدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : “ جواللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے اور جواللہ عَزَّ وَجَلَّ اوریومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جواللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یاخاموش رہے۔ ‘‘( فیضان ریاض الصالحین جلد:3 , حدیث نمبر:308)

مہمان سے نفرت نہ کرنا: (4)مہمان کے لیے تکلف نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اس سے نفرت کرنے لگو گے اور جو مہمان سے نفرت کرتا ہے وہ اللہ سے بغض رکھتا ہے اور جو اللہ سے بغض رکھتا ہے اللہ اسے ناپسند کرتا ہے ۔(احیاء العلوم جلد 2 صفحہ 41)


                                       میری اس تحریر کا موضوع مہمان کے حقوق ہے ہمارے معاشرے میں آج کل اگر کسی کے گھر مہمان آجائے تو لوگوں کے منہ لٹک جاتے ہیں اور خوش نہیں ہوتے تو مہمان کی فضیلت سب سے پہلے ذکر کی جائے گی اس کے بعد میں اس تحریر میں مہمان کے حقوق بیان کرو گا ۔

یہ آج کل جو ہمارے معاشرے میں ایک خرابی چل رہی ہے کہ مہمان کے آنے پر ہم غمی کا اور نا خوشی کا اظہار کرتے ہیں یہ ہمیں نہیں کرنا چاہیے پیارے اسلامی بھائیوں مہمان کی فضیلت اگر آپ کو معلوم ہو جائے تو آپ لوگ ہی پھر کہے گے کہ مہمان ہمارے گھر روز آئے آئے ہم قرآن مجید سے مہمان کی فضیلت پڑتےہیں اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا :

هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَ•اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌۚ-قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ•فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ•فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ: (سورت الزاریات آیت نمبر 27 _24)ترجمہ کنزالایمان: اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کہا سلام ناشناسا لوگ ہیں ۔پھر اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا۔ پھر اُسے ان کے پاس رکھا کہا کیا تم کھاتے نہیں ۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں زدا اس آیت میں غور تو کرے کہ حضرت ابراھیم اجنبی لوگوں کے لیے تازہ موٹا بچھڑا ان کے لیے پیش کیا دیکھے کہ وہ اجنبی ہے حضرت ابراھیم ان لوگوں کو نہیں جانتے لیکن پھر بھی ان کو اچھا کھانا پیش کیا تو آئے تھوڑی سی فضیلت مہمان کے بارے میں حضرت ابراھیم علیہ السلام سے سماعت کی جائے ۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام مہمانوں کے بغیر کچھ بھی تناول نہیں فرماتے تھے آپ مہمانوں کو تلاش کرتے تھے ایک دو مل ہی جاتے تھے پھر اس کے بعد کھانا کھاتے تھے اور ان کے خلوص و برکت سے آج تک ان کے علاقے میں مہمان نوازی کی رسم باقی ہے۔(مقصود الصالحین شرح ریاض الصالحین باب اکرم الضیف صفحہ نمبر41)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں دیکھے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام مہمانوں کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تو ہمیں ان مبارک و عظیم و ہستی کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے اور مہمان کی عزت کرنی چاہیے ۔(اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت ابراھیم علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے آمین)

حدیثِ مبارکہ میں بھی مہمان نوازی کی بہت فضیلت آئی ہے: دو جہاں کے آقا خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہوں تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے (موطا امام محمد صفحہ 360 باب حق الضیافۃ)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں دیکھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کی عزت کرنے کا حکم دیا ہے تم اب ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن مجید اور حضرت ابراھیم کی حکآیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرے اور مہمان کی عزت کرے اور پیارے بھائیوں ہمیں چاہیے کہ جب مہمان آئے تو ہمیں ان سے خوش اخلاقی سے ملنا چاہیے اور ان کی اچھی خاطر توازوں کی جائے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں مہمانوں کی عزت کرنے والا بنائے ( آمین)

مہمان کے حقوق :

1: مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے پاس اتنا ٹھہرا رہے یہاں تک کہ وہ تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہو جائے

2: مہمان کے سامنے جو کچھ پیش کیا جائے اس اچھے طریقے سے کھا لے

3: مہمان کو چاہیے کہ کھانے میں عیب بھی نہ نکالے

4: مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان سے کسی بھی قسم کا گلہ و شکوہ نہ کرے

5: مہمان کو چاہیے کہ میزبان کی اجازت کے بغیر وہاں سے نہ اٹھے

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں مہمانوں کی عزت کرنے والا اور اسلام پر چلنے والا بنائے۔


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں اللّہ پاک کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کیونکہ اللّہ تعالیٰ نے ہم سب کو مسلمان پیدا کیا ہے تاکہ ہم سب اللّہ تعالٰی کی عبادت اور اطاعت کرے اور اللّہ تعالیٰ کا حکم مانے جس طرح اللّہ تعالیٰ نے ہم سب کو نماز "روزے" زکوٰۃ "حج" جہاد "حقوقُ اللّہ" حقوقُ العباد وغیرہ کا حکم دیا ہے اور حقوقُ العباد میں پڑوسیوں کے حقوق "ہمسایوں کے حقوق" مہمانوں کے حقوق "میزبانوں کے حقوق وغیرہ ہیں ان میں سے آج اپنے موضوع کے مطابق مہمانوں کے حقوق کے بارے میں جانے گۓ مہمان نوازی کرنا انبیاء کرام کی سنت ہے

مہمانوں کے حقوق کے بارے میں پیارے پیارے نبی صلی اللّہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات :

1)آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا (آدمی کو تین بستر بنانے چاہیے)

1) ایک اپنے لیے

2) ایک اپنی زوجہ کیلئے

3) اور تیسرا مہمان کیلئے ۔ (مکارم الاخلاق للخراءطی؛ باب مایستحب من اتخاذـ ـ ـ الخ؛ جلد 2؛ صفحہ 99)

2)اللّہ کے پیارے پیارے رسول صل اللّہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا (من کان یؤمن باللہ والیوم الاخر فلیکرم ضیفا)

یعنی جو اللّہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے (بخاری؛ جلد نمبر 4؛ صفحہ نمبر 105؛ حدیث 6019)

3)ایک روایت میں ہے (اذا جاءکم الزاءر فاکرموہ) یعنی جب تمہارے پاس کوئی مہمان آئے تو اسکی تعظیم کرو (مکارم الاخلاق للخراءطی باب ماجاء فی اکرام الضیف ـ ـ ـ الخ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 156 حدیث 330)

4)نبی کریم صل اللّہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اس بنادے میں کوئی بہلائی نہیں جو مہمان نوازی نہیں کرتا (مکارم الاخلاق للخراءطی باب ماجاء فی اکرام الضیف ـ ـ ـ الخ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 155 حدیث 329)

5)حضرت انس رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ تاجرار مدینہ صل اللّہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس کے گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس طرح دوڑ کر آتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان سے چہری (تیزی سے گرتی ہے) بلکہ اس سے بھی تیز (ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب الضیافۃ صفحہ نمبر 545 حدیث 3356)

انبیاء کرام کی مہمان نوازی :1)حضرت ابراہیم علیہ السلام سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے مہمان نوازی کی ـ ان کی مہمان نوازی کے واقعہ کو قرآن پاک میں یوں بیان فرمایا گیا ہے (ھل اتاک حدیث ضیف ابراہیم المکرمین اذ دخلو علیہ فقالوا سلاما قال سلام) یعنی اے محبوب! کیا تمہارے پاس ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی خبر آئی ـ جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کھا ـ سلام نا شنا سا لوگ ہیں (پارہ 26 سورۃ الزاریات آیت نمبر 24)

پھر آیت نمبر پھر آیت نمبر 26 میں فرمایا (فراغ الی اھلہ فجاء بعجل سمیں) ترجمہ تو جلدی سے گھر میں جاکر ایک تازہ بچھڑا لئے ااور مہمانوں کے سامنے پیش کیا ـ

2) حضرت ایوب علیہ السلام بہت مال و دولت کے مالک تھے ـ نھآیت ہی نیک اور پارسا تھےـ مسکینوں پر شفقت فرماتے؛؛ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت فرماتے؛ مہمان نوازی کرتے اور فقیروں کی مدد فرماتے تھے (تفسیر الفزطبی جلد 11 صفحہ نمبر 323)

مہمان نوازی کی فضیلت :

امام نووی رحمہ اللّہ علیہ فرماتے ہیں کہ مہمان نوازی کرنا آداب اسلام اور انبیاء و صالحین کی سنت ہے (شرح النووی علی المسلم جلد 2 صفحہ نمبر 18)

فرمان مصطفےٰ صلی اللّہ علیہ والہ وسلم ہے کہ آدمی جب اللّہ پاک کی رضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللّہ تعالیٰ اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورے ایک سال تک اللّہ تعالیٰ کی تسبیح و تھلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے) کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور سال پورا ہو جاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللّہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اس کو جنت کی پاکیزہ غذائیں "جنۃالخلد" اور نہ فنا ہونے والی بادشاہت میں کہلاۓ (کنزالعلمال جلد 5 ص 110 حدیث 25878)

اللّہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مہمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


مہمان کے اِکرام سے کیا مُراد ہے!حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:مہمان (Guest) کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔ علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو۔

مہمان نوازی کی فضیلت:امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے

مہمان نوازی کی سُنتیں اور آداب:

مہمان نوازی کرناسنت ِمبارکہ ہے ، احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں بلکہ یہاں تک فرمایاکہ مہمان باعث ِخیروبرکت ہے ۔ایک دفعہ سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے یہاں مہمان حاضر ہوا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے قرض لے کر اس کی مہمان نوازی فرمائی۔ چنانچہ تاجدار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے غلام ابو رافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُکہتے ہیں ، سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا۔ فلاں یہودی سے کہو کہ مجھے آٹا قرض دے ۔ میں رجب شریف کے مہینے میں ادا کردوں گا( کیونکہ ایک مہمان میرے پاس آیا ہوا ہے) یہودی نے کہا، جب تک کچھ گروی نہیں رکھو گے، نہ دوں گا۔ حضرت سیدنا ابو رافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُکہتے ہیں کہ میں واپس آیا اور تاجدار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں اس کا جواب عرض کیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا، ’’ و اللہ ! میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوں ۔ اگروہ دے دیتا تو میں ادا کر دیتا۔‘‘( اب میری وہ زرہ لے جا اور گروی رکھ آ۔ میں لے گیا اور زرہ گروی رکھ کر لایا)(المعجم الکبیر، الحدیث ۹۸۹، ج۱، ص۳۳۱)

مہمان باعث خیرو برکت ہے : حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا بیان ہے کہ تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اسی طرح تیزی سے دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان پر چُھری، بلکہ اس سے بھی تیز۔ ‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب الاطعمۃ، باب الضیافۃ ، الحدیث ۳۳۵۶، ج۴، ص۵۱)

پیارے اسلامی بھائیو ! اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے اس لیے اس سے تشبیہ دی گئی۔

مہمان میزبان کے گناہ معاف ہونے کا سبب ہوتا ہے : سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان عالیشان ہے، ’’ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے ۔‘‘ (کشف الخفا، حرف الضاد المعجمۃ، الحدیث ۱۶۴۱، ج۲، ص۳۳)

دس ۱۰ فرشتے سال بھر تک گھر میں رحمت لٹاتے ہیں : سرکارِ مدینہ راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سیدنا براء بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے ارشاد فرمایا : ’’ اے برائ! آدمی جب اپنے بھائی کی، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کیلئے مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزاء اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے گھر میں دس۱۰ فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورے ایک سال تک اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس کیلئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں ۔اورجب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اس کو جنت کی لذیذ غذائیں ’’جَنَّۃُ الْخُلْدِ‘‘ اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے ۔ ‘‘ (کنزالعمال، کتاب الضیافۃ، قسم الافعال، الحدیث ۲۵۹۷۲، ج۹، ص۱۱۹)

سُبْحٰنَ اللہ ، سُبْحٰنَ اللہ ! کسی کے گھر مہمان تو کیا آتا ہے گویا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت کی چھما چھم برسات شروع ہو جاتی ہے اس قدر اجر و ثواب اللہ ! اللہ !

مہمانوں کے حقوق:

مندرجہ ذیل چیزیں مہمانوں کے حقوق میں شامل ہیں:

• مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔

• مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار محبت دینا۔

• اس کی عزت کرنا اور اس سے احترام کے ساتھ پیش آنا۔

• اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا۔

• اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا۔

• اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا۔

• مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔

مہمان نوازی کے فوائد:

مہمان نوازی کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ جیسا کہ

• مہمان نوازی سے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ کو فروغ ملتا ہے۔ جب ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے تو وہ بھی ہمارے ساتھ عزت و احترام والا سلوک کریں گے۔

• مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔

• مہمان نوازی سے معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ مل جل کر بیٹھنا، پاکیزہ گفتگو کرنا اور اکٹھے ہو کر محبت بھرے انداز میں کھانا کھانا۔ یہ سب معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔

مہمان نوازی اور ہمارا معاشرہ افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدریں اور ثقافت دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ گھر میں مہمان کی آمد اور اس کے قیام کو زحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مہمانوں کے لئے گھروں کے دستر خوان سکڑ گئے ہیں۔

ایک وہ دور تھا کہ جب لوگ مہمان کی آمد کو باعث برکت سمجھتے اور مہمان نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے۔ جبکہ آج کے دور میں مہمان کو وبال جان سمجھ کر مہمان نوازی سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اگر کسی کی مہمان نوازی کرتے بھی ہیں تو اس سے دنیوی مفاد اور غرض وابستہ ہوتا ہے۔ حالانکہ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت اور فضیلت کا باعث ہے۔

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


مہمان نوازی انبیاء کرام علیہم السلام کے اوصاف میں سے ایک عظیم وصف ہے حضرت سیدنا ابرھیم علیہ السلام اتنے بڑے مہمان نواز تھے کہ علماء کرام فرماتے ہیں: کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے اور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے۔

دینِ اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور بہترین اخلاق کی حیثیت حاصل ہے دین اسلام میں مہمان نوازی کے فضائل کے ساتھ ساتھ مہمان کے حقوق بھی بیان کیے گئے مہمان کے حقوق سے مراد وہ چیزیں جو میزبان پر مہمان کے لیے کرنا ضروری و مستحب ہیں چنانچہ الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌۚ-قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ(25)فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ (26) فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ؛(الذریت آیت 25,26)۔ ترجمۂ کنز الایمان: جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کہا سلام ناشناسا لوگ ہیں اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا۔ پھر اُسے ان کے پاس رکھا ۔

مذکورہ آیت میں حضرت سیدنا ابراھیم علیه السلام کے پاس مہمانوں کے آنے کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے آیت کے ابتدائی حصے میں چند حقوق بیان فرمائے گئے ہیں مہمانوں کو سلام کرنا،ان کے سلام کا جواب دینا،ان کے لئے اچھے کھانے کا انتظام کرنا وغیرہ حقوق اس آیت میں مذکور ہیں۔ اس کے علاؤہ احادیث طیبات میں مہمان کے کئی حقوق بیان ہوئے ہیں :

مہمان کی عزت و تکریم کرنا:مہمان کے حقوق وفرائض میں سے سب سے بڑھ کر اس کی عزت و تکریم کرنا ہے مہمان کی عزت و تعظیم کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے چنانچہ حضرت سیدنا ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے مروی کہ اللہ کے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے ۔(بخاری کتاب الآداب حدیث 6018)

مہمان کے لیے عمدہ کھانا پیش کرنا:مہمان کے حقوق میں سے اس کے لئے اچھے و عمدہ کھانے کا اہتمام کرنا بھی ہے چنانچہ حضرت سیدنا مقدام ابو بکر کریمہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”اگر کسی کے یہاں رات کو کوئی مہمان آئے تو اس رات اس مہمان کی ضیافت کرنی واجب ہے، اور اگر وہ صبح تک میزبان کے مکان پر رہے تو یہ مہمان نوازی میزبان کے اوپر مہمان کا ایک قرض ہے، اب مہمان کی مرضی ہے چاہے اپنا قرض وصول کرے، چاہے چھوڑ دے۔(سنن ابن ماجہ بَابُ : حَقِّ الضَّيْفِ حدیث 3677)

الله پاک کی رضا حاصل کرنے اور حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر عمل کی نیت سے مہمان کے حقوق و فرائض پورا کرنا مہمان کا اکرام کرنا یقیناً ثواب آخرت کا باعث بنے گا الله پاک ہمیں مہمان نوازی کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین

افسوس آج اس دور میں مہمان نوازی کی کوئی قدر ہی نہیں گھر میں جب مہمان کی آمد اور اس کی قیام کو زخمت سمجھتے ہیں جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتی ہے آئیے مہمانوں کے حقوق کے بارے میں حدیث سنتے ہیں :

سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے جب اس کے یہاں جاتاہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشوا جاتا ہے ۔(مسند الفردوس جلد 2صفحہ432 حدیث 3896)

اس سے پتہ چلا مہمان کی آمد پر خوب خرچ کرنا چاہیے کیونکہ مہمان اپنا رزق اپنے ساتھ لاتا ہے اور مہمان کی آمد پر خوشی ہونی چاہیے کہ مہمان اتنا برکت والا ہے کہ اس کا لوٹنا بھی برکت والا ہے کہ اس کے بدلے گناہ معاف ہونگے۔

پیارے اسلامی بھائیو!دین اسلام نے مہمان نوازی کو بہت اہمیت دی گئ ہے یہاں تک کہ اس نیک عمل کو ایمان کے بنیادی تقاضوں میں شامل کیا گیا ہے ۔ حدیثِ پاک میں ہے "ہمارے آقا مولا مکی مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا

ترجمہ؛یعنی جو اللہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کے مہمان کی عزت کرے۔ (بخاری کتاب الادب ،باب من کان یومن باللہ التح صفحہ 1500احدیث 6018)

سبحن اللہ! دیکھیے کسی پیاری بات ہے رسول ذیشان ،مکی مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مہمان نوازی کو ایمان کے ساتھ جوڑ کر ذکر فرمایا ۔گویا یہ بتایا کہ مہمان کی عزت کرنا مہمان کی اچھے انداز میں خاطر داری کرنا ایمان کا بنیادی تقاضا ہے ،جو مسلمان ہے ،جو بندہ ایمان رکھتا ہے قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے اخلاق میں یہ بنیادی بات ہونا ضروری ہے مہمان کی عزت کرنا ضروری ہے۔

گھر میں خیر برکت دوڑ کر آتی ہے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر برکت اس طرح دوڑ کر آتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان سے چھڑی (تیزی سے گزرتی ہے) بلکہ اس بھی تیز آپ نے اونٹ دیکھا ہوگا اونٹ کی کوہان پہاڑ کی شکل کی ہوتی ہے اس کے اوپر کوئی چیز ٹھہرتی نہیں ہے اس پراگر چھڑی رکھ دی جائے تو تیزی سے لڑھک کر نیچے آجاتی ہے

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مثال کے ذریعے سمجھایا کہ اگر اونٹ کی کوہان پر چھڑی رکھ دی جائے تو جیتنی تیزی سے وہ چھڑی لڑھک کر نیچے ای گی جو بندہ مہمان نوازی کرتا ہے خیر وبرکت اس سے بہی تیزی کے ساتھ اس خوش نصیب کے گھر کی طرح آ تی ہے۔(ابن ماجہ ،کتاب الا طعمہ ،باب الفیافتہ،صفحہ545حدیث 3356)

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مہمان نوازی کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ہمارے دین اسلام میں مہمان کے حقوق اور ان کی عزت افزائی پر بہت زور دیا  گیا ہے بلکہ مہمان نوازی کرنا حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کی خاص خصوصیت ہے کہ آپ سے پہلے کسی نے مہمان نوازی کا اتنا اہتمام نہ کیا جتنا آپ نے کیا ،آپ تو بغیر مہمان کھانا ہی نہیں کھاتے تھے۔(مراۃ المناجیح،ج6،حدیث نمبر:4488)لہذا ایک میزبان کو مہمان کے درج ذیل حقوق کا لحاظ رکھنا چاہیے۔

(1)مہمان کا اکرام کرے: جب کوئی مہمان آئے تو اس کا اکرام کرنا چاہیے،یہ خاص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کا انداز ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہیے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔(مسلم، باب الحث علی اکرام الجار، رقم الحدیث:77)

مفتی احمد یار خان نعیمی اس کے تحت فرماتے ہیں: مہمان کی خاطر تقاضاء ایمان ہے نیز مہمان کی خاطر (تواضع) مومن کی علامت ہے۔(مراۃ المناجیح،ج6،حدیث نمبر :4243)

(2) مسکراتے چہرے سے ملیں: میزبان اپنے مہمانوں کی خدمت اور ان کے لیے کشادگی کا اظہار کرے نیز ان سے خندہ پیشانی سے ملے۔ کہا گیا ہے کہ خندہ پیشانی سے ملنا مہمان نوازی سے بہتر ہے۔ ایک عربی شعر کا ترجمہ ہے: ہم مہمان کے ٹھہرنے سے پہلے ہی اس کی مہمان نوازی کردیتے ہیں کہ ہم اس سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتے ہیں۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ج1، ص 432)

(3)تکلف نہ کرے جو کچھ ہو پیش کردے : میزبان کو چاہیے کہ مہمانوں کی مہمان نوازی میں تاخیر نہ کرے اور کھانے کی کمی کے سبب مہمانوں کو منع نہ کرے بلکہ جو کچھ پاس ہو اسے مہمانوں کے سامنے پیش کردے۔ حضرت انس بن مالک اور دیگر صحابہ کرام علیھم الرضوان وہ خشک روٹی کے ٹکڑے اور ردِّی کھجوریں مہمان کے سامنے رکھ کر فرماتے:" ہم نہیں جانتے دونوں میں کس کا گناہ زیادہ ہے اس کا جو پیش کی گئی چیز کو حقیر جانے یا اس کا جو اپنے پاس موجود چیز پیش کرنے کو حقیر جانے۔" (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ج1، ص 436)

(4)مہمان نوازی خود کرے : میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ ا لصلوۃ والتسلیم کی سنت ہے۔

(5)میزبان مہمانوں کے پاس حاضر رہے: میزبان کو بِالکل خاموش نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ کھانا رکھ کر غائِب ہوجائے، بلکہ وہاں حاضِر رہے اور مہمانوں کے سامنے خادِم وغیرہ پر ناراض نہ ہو اور اگر صاحِبِ وُسْعَت ہو تو مہمان کی وجہ سے گھر والوں پر کھانے میں کمی نہ کرے۔ ( کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)

(6)میزبان ساتھ بیٹھ کر کھائے : اگر مہمان تھوڑے ہوں تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضائے مُروت ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں مشغول ہو۔ (بہار شریعت، ج3، حصہ 16،ص397)

(7)رات کا کچھ حصہ مہمانوں کے ساتھ گزارے:رات کو اپنے مہمانوں کے ساتھ کچھ وقت گزارے، انہیں اچھی باتیں اور دلچسپ و انوکھے واقعات سنا کر مانوس کرے اور مزاح سے بھرپور باتوں کے ذریعے ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرے (لیکن خلاف شرع اور حد سے زیادہ نہ ہوں ، دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ج1، ص434)

(8)گھر کے دروازے تک رخصت کرکے آئے: میزبان کو چاہیے کہ سنت پر عمل کرتے ہوئے مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ( ابن ماجہ،باب الضیافۃ،رقم الحدیث :3358)

مزید کچھ آداب:امام بہاء الدین محمد بن احمد مصری شافعی علیۃ الرحمن میزبان کے آداب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مہمان نوازی کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اپنے مہمانوں کے ساتھ ایسی گفتگو کرے جس کے سبب ان کا دل اُس کی طرف مائل ہو، ان سے پہلے نہ سوئے، ان کی موجودگی میں زمانے سے شکوہ نہ کرے اور جانے پر غمگین ہو اور ان کے سامنے ایسی بات نہ کرے جس سے یہ خوفزدہ ہوں۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ج1، ص 433)

اللہ پاک ! ہمیں اچھے انداز مہمان نوازی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)