اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔

مہمان نوازی ایمان کی علامت اور انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے:مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ ( بخآری حدیث 6019 )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف میں سے ایک وصف مہمان نوازی بھی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود مہمانوں کی خدمت کرتے تھے۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لے کر بھی مہمان نوازی کی ہے۔

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک مہمان حاضر ہوا، آپ علیہ السلام نے مجھے ایک یہودی سے ادھار غلّہ لینے کیلئے بھیجا مگر یہودی نے رَہْن کے بغیر آٹا نہ دیا تو آپ نے اپنی زِرہ گروی رکھ کر ادھار غلّہ لیا۔ ( مسند البزار ج 9 حدیث: 3863 )

مہمان نوازی کی فضیلت پر احادیث:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔ ( ابن ماجہ حدیث: 3356 )

(2)نبیّ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ ( کشف الخفاء حدیث:1641 )

(3)فرمان مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ آدمی جب اللہ پاک کی رضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے۔ جو پورے ایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس بندے یعنی مہمان نوازی کرنے والے کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہو جاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہےکہ اس کو جنت کی پاکیزہ غذائیں، ”جنۃ الخلد“ اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔(کنزالعمال ؛ حدیث: 25878)

مہمانوں کے حقوق:

مندرجہ ذیل چیزیں مہمانوں کے حقوق میں شامل ہیں:

مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔

مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار محبت دینا۔

اس کی عزت کرنا اور اس سے احترام کے ساتھ پیش آنا۔

اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا۔

اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا۔

اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا۔

مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔

مہمان نوازی کے فوائد:

مہمان نوازی کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ جیسا کہ مہمان نوازی سے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ کو فروغ ملتا ہے۔ جب ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے تو وہ بھی ہمارے ساتھ عزت و احترام والا سلوک کریں گے۔ مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔

مہمان نوازی سے معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ مل جل کر بیٹھنا، پاکیزہ گفتگو کرنا اور اکٹھے ہو کر محبت بھرے انداز میں کھانا کھانا۔ یہ سب معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔

مہمان نوازی اور ہمارا معاشرہ: افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدریں اور ثقافت دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ گھر میں مہمان کی آمد اور اس کے قیام کو زحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مہمانوں کے لئے گھروں کے دستر خوان سکڑ گئے ہیں۔

ایک وہ دور تھا کہ جب لوگ مہمان کی آمد کو باعث برکت سمجھتے اور مہمان نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے۔ جبکہ آج کے دور میں مہمان کو وبال جان سمجھ کر مہمان نوازی سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اگر کسی کی مہمان نوازی کرتے بھی ہیں تو اس سے دنیوی مفاد اور غرض وابستہ ہوتا ہے۔ حالانکہ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت اور فضیلت کا باعث ہے۔

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین