مہمان کے
اِکرام سے کیا مُراد ہے!حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہفرماتے
ہیں:مہمان (Guest) کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی
(یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی
الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔ علّامہ ابنِ بَطّال
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں
مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی
)کرو۔
مہمان نوازی کی
فضیلت:امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے
مہمان
نوازی کی سُنتیں اور آداب:
مہمان نوازی کرناسنت ِمبارکہ ہے ، احادیث
مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں بلکہ یہاں تک فرمایاکہ مہمان باعث
ِخیروبرکت ہے ۔ایک دفعہ سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے یہاں مہمان حاضر ہوا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَنے قرض لے کر اس کی مہمان نوازی فرمائی۔ چنانچہ تاجدار مدینہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے غلام ابو رافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہ ُکہتے ہیں ، سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے مجھ سے فرمایا۔ فلاں یہودی سے کہو کہ مجھے آٹا قرض دے ۔ میں رجب شریف کے مہینے
میں ادا کردوں گا( کیونکہ ایک مہمان میرے پاس آیا ہوا ہے) یہودی نے کہا، جب تک کچھ
گروی نہیں رکھو گے، نہ دوں گا۔ حضرت سیدنا ابو رافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُکہتے
ہیں کہ میں واپس آیا اور تاجدار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی خدمت میں اس کا جواب عرض کیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا، ’’ و اللہ ! میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوں ۔ اگروہ دے دیتا
تو میں ادا کر دیتا۔‘‘( اب میری وہ زرہ لے جا اور گروی رکھ آ۔ میں لے گیا اور زرہ
گروی رکھ کر لایا)(المعجم الکبیر، الحدیث ۹۸۹، ج۱، ص۳۳۱)
مہمان
باعث خیرو برکت ہے : حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُکا بیان ہے کہ تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جس گھر میں
مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اسی طرح تیزی سے دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان پر
چُھری، بلکہ اس سے بھی تیز۔ ‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب الاطعمۃ، باب الضیافۃ ، الحدیث ۳۳۵۶، ج۴، ص۵۱)
پیارے اسلامی بھائیو ! اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی
ہے اسے چھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے اس لیے اس سے تشبیہ
دی گئی۔
مہمان
میزبان کے گناہ معاف ہونے کا سبب ہوتا ہے : سرکار مدینہ
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان عالیشان ہے، ’’ جب
کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے
جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے ۔‘‘ (کشف الخفا، حرف الضاد
المعجمۃ، الحدیث ۱۶۴۱، ج۲، ص۳۳)
دس ۱۰ فرشتے سال بھر تک گھر میں رحمت لٹاتے ہیں
: سرکارِ مدینہ راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سیدنا براء بن مالک رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے ارشاد فرمایا : ’’ اے برائ! آدمی جب اپنے بھائی کی، اللہ
عَزَّ وَجَلَّ کیلئے مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزاء اور شکریہ نہیں
چاہتا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے گھر میں دس۱۰ فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورے ایک سال تک اللہ عَزَّ
وَجَلَّ کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس کیلئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں
۔اورجب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ
اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اس کو
جنت کی لذیذ غذائیں ’’جَنَّۃُ الْخُلْدِ‘‘ اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں
کھلائے ۔ ‘‘ (کنزالعمال، کتاب الضیافۃ، قسم الافعال، الحدیث ۲۵۹۷۲،
ج۹، ص۱۱۹)
سُبْحٰنَ اللہ ، سُبْحٰنَ اللہ ! کسی کے گھر مہمان تو کیا
آتا ہے گویا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت کی چھما چھم برسات شروع ہو جاتی ہے اس قدر
اجر و ثواب اللہ ! اللہ !
مہمانوں
کے حقوق:
مندرجہ ذیل چیزیں
مہمانوں کے حقوق میں شامل ہیں:
• مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا اور
اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔
• مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار
محبت دینا۔
• اس کی عزت کرنا اور اس سے احترام کے ساتھ
پیش آنا۔
• اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش
فراہم کرنا۔
• اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال
رکھنا۔
• اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ
کرنا۔
• مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس
کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔
مہمان
نوازی کے فوائد:
مہمان نوازی
کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ جیسا کہ
• مہمان نوازی سے معاشرے میں محبت اور بھائی
چارہ کو فروغ ملتا ہے۔ جب ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں
گے تو وہ بھی ہمارے ساتھ عزت و احترام والا سلوک کریں گے۔
• مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں
مدد ملتی ہے۔ جب ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں
بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔
• مہمان نوازی سے معاشرے میں مثبت ماحول کو
فروغ ملتا ہے۔ مل جل کر بیٹھنا، پاکیزہ گفتگو کرنا اور اکٹھے ہو کر محبت بھرے
انداز میں کھانا کھانا۔ یہ سب معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔
مہمان
نوازی اور ہمارا معاشرہ افسوس کہ
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدریں اور ثقافت دم توڑتی نظر آرہی
ہیں۔ گھر میں مہمان کی آمد اور اس کے قیام کو زحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان
اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مہمانوں کے لئے گھروں کے دستر خوان سکڑ
گئے ہیں۔
ایک وہ دور
تھا کہ جب لوگ مہمان کی آمد کو باعث برکت سمجھتے اور مہمان نوازی میں ایک دوسرے سے
سبقت لے جانے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے۔ جبکہ آج کے دور میں مہمان کو وبال جان
سمجھ کر مہمان نوازی سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اگر کسی کی مہمان نوازی کرتے بھی ہیں تو
اس سے دنیوی مفاد اور غرض وابستہ ہوتا ہے۔ حالانکہ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت اور
فضیلت کا باعث ہے۔
اللہ پاک ہمیں
مہمان نوازی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین