محمد فیصل فانی بدایونی (درجۂ سابعہ جامعۃ المدینہ پیراگون سٹی لاہور، پاکستان
کائناتی نظام کو رب تعالی
نے اس طرح ترتیب دیا ہے کہ اس میں ایک چیز دوسری کی محتاج ہے دوسری چیز کسی تیسری
شے کی محتاج ہے اس طرح یہ سارا نظام ایک لڑی بنائے ہوئے ہے۔ اس کی بدولت ہم ایک
دوسرے کے نہ صرف محتاج ہیں بلکہ یہی چیز ہم لوگوں میں تعلق بنائے ہوئے ہے۔ کبھی یہی
ضرورتیں خود غرضی پیدا کرتیں ہیں اور کبھی ایسا جذبہ متحرکہ پیدا کرتیں ہیں۔ کہ ایک
انسان کو سراپا احساس کرنے والا بنا دیتیں ہیں۔جس کی بدولت ہم باقی مخلوق سے ممتاز
ہیں محبت و احساس، حسن اخلاق ، قرب خدا
اور جذبہ ایثار سے جو چیز سرشار کرتی ہے اسے مہمان نوازی کہتے ہیں۔ ہر عمل کی طرح
اس کے بھی اصول و ضوابط ہیں۔ جو اس عظیم کام کو عظمت کی بلندی تک پہنچا دیتے ہیں۔ ذیل میں ہم مہمان کے حقوق کا جائزہ لیتے ہیں۔
مہمان
کی عزت و تکریم کرنا! مہمان کا سب سے پہلا حق یہ ہے
کہ اس کی عزت و تکریم ہے۔نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے مہمان کی عزت و تکریم کو ایمان کی علامت قرار دیا
جیسا کہ ابو شرح العدوی سے مروی ہے۔ میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میری ان آنکھوں
نے دیکھا ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرما رہے تھے: "جو
شخص اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہم سایہ
کی تکریم کرے۔ اور جو شخص اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے
چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھرے ( یعنی پہلے دن خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ )
تکریم کرے۔ کسی پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جائزہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" ایک دن رات ( مہمان کا خصوصی) اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن تین
رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو وہ صدقہ شمار ہوتی ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالی
پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے ۔
(الادب المفرد، محمد بن اسماعیل
البخاری،ص 259 )
مہمان
کا استقبال کرنا: مہمان کا سب سے
اہم حق ہے کہ اس کا استقبال کیا جائے۔
مہمانوں کا اچھے انداز سےاستقبال کرنے سے دلی سکون حاصل ہوتا ہے اور باہمی پیارو
محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مہمانوں کا استقبال کرنا مستحب قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابن
عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
پاس آیا، آپ نے فرمایا: اس وفد کو خوش آمدید کہا جو شرم اور ندامت کے بغیر آئے۔
(صحیح البخاری، ج 8،ص 41حدیث نمبر6176)
مہمان
کو اپنے اور اہل و عیال پر ترجیح دینا: یہ بھی مہمان کے
حقوق میں سے ہے کہ ان کو اپنے اہل و عیال پر ترجیح دے۔ یہ مہمان کی حالت کے پیش
نظر بھی کیا جا سکتا ہے۔ مہمان کا حق یہ ہے کہ میزبان اپنی برابر کا اور احوط یہ
ہے کہ اپنے سے اعلیٰ کھانا دے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کے پاس اس کا کھانا منگوانے کے لئے
ایک آدمی کو بھیجا۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے تو
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے ؟ جو اس مہمان کو اپنے ساتھ لے جائے یا یہ
فرمایا کہ کون ہے ؟ جو اس کی میزبانی کرے؟ ایک انصاری نے عرض کیا کہ میں یا رسول اللہ ) پس وہ اسے اپنی زوجہ کے پاس
لے گیا اور اس کو کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خوب خاطر کرنا اس
نے کہا ہمارے ہاں تو اپنے لیے ہے تو انصاری نے کہا تم کھانا تو تیار کرو اور چراغ
روشن کرو بچے اگر کھانا مانگیں تو انہیں سلا دینا اس نے کھانا تیار کر کے چراغ روشن کیا اور بچوں کو
سلا دیا پھر وہ گویا چراغ کو ٹھیک کرنے کے لئے کھڑی ہوئی۔ مگر اس نے بجھا دیا اب
وہ دونوں میاں بیوی مہمان کو یہ دکھاتے رہے کہ کھانا کھا رہے ہیں حالانکہ ( در حقیقت)
انہوں نے بھوکے رہ کر رات گزاری۔ جب وہ انصاری صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی رات تمہارے کام سے
بڑا خوش ہوا پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی " ترجمہ! اور وہ دوسروں کو
اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگر چہ خود حاجت مند ہوں اور جو اپنے نفس کی حرص سے بچالیا
گیا تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے۔" (صحیح
البخاری، ج5، ص 34، حدیث نمبر: 3798)
مہمان
کو تکلیف دینے سے گریز کرنا: میزبان پر یہ فرض ہے
کہ مہمان کی عزت و آبرو کا لحاظ رکھے۔ اسے قولی عملی یا کسی بھی طریقے سے تکلیف دینے
سے گریز کرے حتی کہ اس کے سامنے ایسی بات کو بھی بیان نہ کرے جس سے اسے شرمندگی ہو
اور کوشش کرے کہ مہمان خوش ہو کر رخصت ہو۔ عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ رجاء بن حیوا نے مجھ سے کہا کہ میں نے آپ
کے باپ سے زیادہ صاحب مروت آدمی نہیں دیکھا۔ میں نے ایک دفعہ ان کے ہاں رات گزاری۔
چراغ جل رہا تھا اور وہ اچانک بجھ گیا۔ انہوں نے کہا اے رجاء چراغ بجھ گیا ہے۔
غلام بھی ہمارے ساتھ سویا ہوا تھا۔ میں نے عرض کی کیا میں غلام کو جگا دوں۔ تاکہ
وہ چراغ درست کر دے ۔ آپ نے فرمایا وہ تو اب سویا ہوا ہے۔ میں نے کہا آپ مجھے
اجازت نہیں دیتے کہ میں اسے درست کر دوں۔ آپ نے فرمایا نہیں مہمان سے کام لینا
مروت کے خلاف ہے۔ پھر آپ خود اٹھے چراغ کی طرف بڑھے اس میں تیل ڈالا اور سلائی
جلائی اور وہ چراغ جلتے گیا۔ پھر واپس اپنی جگہ پر لوٹ آئے اور کہا جب میں اٹھا تو
عمر بن عبدالعزیز تھا اب بیٹھ گیا ہوں تب بھی عمر بن عبدالعزیز ہوں ۔ (المعارفۃ و التاریخ،ج 1، ص578)
مہمان
کو بنفس نفیس رخصت کرنا:جس طرح
مہمان کی آمد پر اسکا اچھی طرح استقبال کرنا چاہیے اسی طرح اس کو رخصت کرتے وقت
خود ساتھ چل کر دروازے تک الودع کرنا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن من السنة
أن تشيع الضيف إلى باب الدار. ترجمہ:
سنت میں سے ہے کہ تم مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک چلو۔(الخرائطی ص 122 حدیث
نمبر348)
حضرت ابو سعید
القاسم امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے ۔ ابو عبید
القاسم فرماتے ہیں کہ جب میں واپسی کے لیے کھڑا ہوا تو آپ بھی میرے ساتھ کھڑے ہو
گئے۔ میں نے عرض کیا حضور آپ زحمت نہ فرمائیں تو احمد بن حنبل نے فرمایا: یہ بات
مہمان کی تکریم میں سے ہے کہ گھر کے دروازے تک اس کے ساتھ چلے۔ (سنن الترمذی ، ج
4، ص 178,حدیث نمبر 2395)
اس لیے ہمیں چاہیے کہ نہ صرف
ہم مہمان کے حقوق کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ بلکہ عملی زندگی میں ان کا نفوذ
بھی کریں۔ تاکہ پرسکون زیست کے سے لطف اندوز ہو سکیں۔