رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ آپﷺ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اور دیگر لوگوں کو نہایت مؤثر اور دلنشین انداز میں تربیت دیتے تھے اور اس تربیت میں مثالوں کا استعمال ایک کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔ آپ ﷺ عام اور روزمرہ کی چیزوں یا واقعات کی مثالیں دے کر پیچیدہ سے پیچیدہ تصورات اور احکامات کو انتہائی آسانی سے سمجھا دیتے۔ یہ اندازِ تعلیم اس قدر مؤثر تھا کہ بات دلوں میں اُتر جاتی تھی اور فراموش کرنا مشکل ہوتا تھا۔

قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے مثالوں کا بکثرت استعمال کیا ہے تاکہ لوگوں کو حقائق سمجھائے جا سکیں۔ اس لیے یہ طریقہ خود اللہ تعالیٰ کا سکھایا ہوا ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی اسلوب کو اپنایا۔قرآن کریم میں مختلف مقاصد کے لیے مثالیں دی گئی ہیں، جیسے توحید کو سمجھانا، شرک کی قباحت بیان کرنا، نیکوکاروں کا انجام بتانا، یا گناہگاروں کی حالت واضح کرنا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ(۴۳)ترجمہ کنزالایمان: اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں اور اُنہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے۔ (پ20، العنکبوت: 43)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَۚ (۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اور بےشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی کہاوت بیان فرمائی کہ کسی طرح انہیں دھیان ہو ۔ (پ23، الزمر: 27)

یہ آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ مثالوں کے ذریعے بات سمجھانا اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ طریقہ ہے اور اسی سنتِ الٰہی پر چلتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی تربیت فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں بے شمار مواقع پر مثالوں کے ذریعے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو انتہائی آسان بنا کر پیش کیا۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:

(1) ایمان اور کفر کی مثال (ایمان کے درجات):حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اَلْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَىٰ عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِترجمہ: "ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں۔ ان میں سب سے اعلیٰ لا الٰہ الا اللہ، کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے، اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، حدیث: 35)

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ایمان کو ایک درخت کی مانند قرار دیا جس کی کئی شاخیں ہیں، اس مثال سے ایمان کی جامعیت اور اس کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔

(2) پانچ وقت کی نمازوں کی مثال (گناہوں کا دھل جانا): حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ، يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، هَلْ يَبْقَىٰ مِنْ دَرَنِهِ شَيْءٌ قَالُوا: لَا يَبْقَىٰ مِنْ دَرَنِهِ شَيْءٌ. قَالَ: فَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِنَّ الْخَطَايَا

ترجمہ: بھلا یہ بتاؤ کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ بار غسل کرے، تو کیا اس کے جسم پر کوئی میل باقی رہے گا؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں، کوئی میل باقی نہیں رہے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہی حال پانچوں نمازوں کا ہے، اللہ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، حدیث: 528، صحیح مسلم، کتاب المساجد، حدیث: 667)

اس مثال کے ذریعے آپ ﷺ نے نماز کی فضیلت اور اس کے ذریعے گناہوں کے مٹنے کو نہایت واضح اور عام فہم انداز میں بیان فرمایا کہ انسان فوراً سمجھ جاتا ہے کہ نماز کس طرح گناہوں کا کفارہ بنتی ہے۔

(3) نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال (صحبت کا اثر): رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ كَحَامِلِ الْمِسْكِ وَنَافِخِ الْكِيرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الْكِيرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً ترجمہ: نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے کستوری بیچنے والا اور بھٹی میں کام کرنے والا۔ کستوری بیچنے والا یا تو تمہیں کچھ دے گا یا تم اس سے خرید لو گے یا کم از کم تمہیں اس سے اچھی خوشبو تو آئے گی۔ اور بھٹی میں کام کرنے والا یا تو تمہارے کپڑے جلا دے گا یا تمہیں اس سے بری بدبو آئے گی۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، حدیث: 2101، صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، حدیث: 2628)

اس حدیث میں آپ ﷺ نے انسانی صحبت کے گہرے اثرات کو سمجھانے کے لیے دو متضاد پیشوں کی مثال دی، جس سے اس بات کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے کہ ہمیں اپنی صحبت کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔

(4) مال کی مثال (صدقہ کی اہمیت): رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:یَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي، وَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ، أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ، أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ ترجمہ: ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال۔ حالانکہ تجھے تیرے مال میں سے بس وہی ملا جو تو نے کھا کر ختم کر دیا، یا پہن کر پرانا کر دیا، یا اللہ کی راہ میں دے کر محفوظ کر لیا۔ باقی سب کچھ تو چھوڑ کر جانے والا ہے اور لوگوں کے لیے چھوڑ جائے گا۔(صحیح مسلم، کتاب الزھد، حدیث: 2959)

اس مثال سے آپﷺ نے مال کی حقیقی قدر اور اس کے فانی ہونے کو واضح کیا، اور صدقہ کی اہمیت پر زور دیا کہ صرف وہی مال فائدہ دے گا جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا گیا۔

(5) دنیا کی بے ثباتی کی مثال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ ترجمہ: دنیا میں ایسے رہو جیسے کوئی مسافر یا راہ چلتا عارضی طور پر ٹھہرنے والا ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، حدیث: 6416)

یہاں آپ ﷺ نے دنیاوی زندگی کو ایک عارضی سفر اور دنیا کو ایک سرائے سے تشبیہ دی تاکہ انسان دنیاوی معاملات میں زیادہ مگن نہ ہو اور آخرت کی تیاری کرے۔

رسول اللہ ﷺ کا مثالوں سے تربیت فرمانے کا انداز کئی وجوہات کی بنا پر نہایت مؤثر ہے :

(1) پیچیدہ اور گہری باتوں کو عام فہم بنا دیتا ہے ۔

(2) مثالیں ذہن میں بیٹھ جاتی تھیں اور دیرپا اثرات مرتب کرتی ہے ۔

(3) خشک نظریات کے بجائے مثالوں سے بیان کی گئی بات دل کو زیادہ چھوتی ہے ۔

(4) مثالیں اکثر کسی خاص عمل کی ترغیب یا اس سے باز رکھنے کے لیے دی جاتی ہیں۔

(5) مخاطب کی توجہ حاصل کرنے اور اسے بات سننے پر آمادہ کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے ۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نبوی حکمت اور بصیرت سے انسانی نفسیات کا گہرا ادراک رکھتے ہوئے مثالوں کو تبلیغ و تربیت کا ایک بنیادی جزو بنایا۔ آپ ﷺ کا یہ اسلوب نہ صرف صحابہ کرام کے لیے ہدایت کا باعث بنا بلکہ آج بھی ہمارے لیے ایک مثالی طریقہ ہے کہ ہم کس طرح دین کے احکامات اور اقدار کو مؤثر طریقے سے دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ہر اس موقع پر مناسب مثال پیش کی جہاں بات کو مزید واضح اور قابلِ فہم بنانے کی ضرورت تھی۔

اللہ تعالٰی سے یہ التجاء ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں پر عمل کرنے والا بنا دے۔ آمین بجاہِ خاتم النبیّین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم