محمد اسد جاوید عطاری (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ
جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
مہمان نوازی
انبیاء کرام علیہم السلام کے اوصاف میں سے ایک عظیم وصف ہے حضرت سیدنا ابرھیم علیہ
السلام اتنے بڑے مہمان نواز تھے کہ علماء کرام فرماتے ہیں: کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے اور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ
فرماتے۔
دینِ اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک
بنیادی وصف اور بہترین اخلاق کی حیثیت حاصل ہے دین اسلام میں مہمان نوازی کے فضائل
کے ساتھ ساتھ مہمان کے حقوق بھی بیان کیے گئے مہمان کے حقوق سے مراد وہ چیزیں جو میزبان
پر مہمان کے لیے کرنا ضروری و مستحب ہیں چنانچہ الله پاک قرآن پاک میں ارشاد
فرماتا ہے:
اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ
سَلٰمٌۚ-قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ(25)فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ
(26) فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ؛(الذریت
آیت 25,26)۔ ترجمۂ کنز الایمان: جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کہا سلام ناشناسا
لوگ ہیں اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا۔ پھر اُسے ان کے پاس رکھا ۔
مذکورہ آیت میں
حضرت سیدنا ابراھیم علیه السلام کے پاس مہمانوں کے آنے کا واقعہ بیان فرمایا گیا
ہے آیت کے ابتدائی حصے میں چند حقوق بیان فرمائے گئے ہیں مہمانوں کو سلام کرنا،ان
کے سلام کا جواب دینا،ان کے لئے اچھے کھانے کا انتظام کرنا وغیرہ حقوق اس آیت میں
مذکور ہیں۔ اس کے علاؤہ احادیث طیبات میں مہمان کے کئی حقوق بیان ہوئے ہیں :
مہمان
کی عزت و تکریم کرنا:مہمان کے حقوق
وفرائض میں سے سب سے بڑھ کر اس کی عزت و تکریم کرنا ہے مہمان کی عزت و تعظیم کو ایمان
کی علامت قرار دیا گیا ہے چنانچہ حضرت سیدنا
ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے مروی کہ اللہ کے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ
وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ جو کوئی اللہ
اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے ۔(بخاری کتاب الآداب حدیث 6018)
مہمان
کے لیے عمدہ کھانا پیش کرنا:مہمان
کے حقوق میں سے اس کے لئے اچھے و عمدہ کھانے کا اہتمام کرنا بھی ہے چنانچہ حضرت سیدنا
مقدام ابو بکر کریمہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”اگر کسی کے یہاں
رات کو کوئی مہمان آئے تو اس رات اس مہمان کی ضیافت کرنی واجب ہے، اور اگر وہ صبح
تک میزبان کے مکان پر رہے تو یہ مہمان نوازی میزبان کے اوپر مہمان کا ایک قرض ہے،
اب مہمان کی مرضی ہے چاہے اپنا قرض وصول کرے، چاہے چھوڑ دے۔(سنن ابن ماجہ بَابُ :
حَقِّ الضَّيْفِ حدیث 3677)