ہمارے پیارے آقا سید الانبیاء ﷺ جیسا دانا اور علم و حکمت والا نہ کوئی تھا، نہ ہے اور نہ ہوگا۔ حضور ﷺ اپنے صحابہ کی کئی طریقوں سے تربیت و رہنمائی فرماتے۔ انہیں طریقوں میں سے ایک بہترین اور عمدہ طریقہ مثالوں کے ذریعے سمجھانا ہے۔ ایسی کئی روایات ملتی ہیں کہ جن میں حضورﷺ نے کئی موضوعات پر مثالوں کے ذریعے صحابہ کرام کی تربیت فرمائی۔ ان میں سے چند آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں:

( 1)مومن اور کافر کی زندگی کی مثال: وَعَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہ ُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الْخَامَةِ مِنَ الزَّرْعِ تَفَيِّئُهَا الرِّيَاح ُتَصْرَعُهَا مَرَّةً وَتَعْدِلُهَا أُخْرىٰ حَتّٰى يَأْتِيهِ أَجَلُهٗ وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ الْأَرْزَةِ الْمُجْذِيَةِ الَّتِي لَا يُصِيبُهَا شَيْءٌ حَتّٰى يَكُونَ انْجِعَافُهَا مَرَّةً وَاحِدَة (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)

روایت ہے حضرت کعب ابن مالک سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مؤمن کی مثال کچی کھیتی کی سی ہے جسے ہوائیں جھلاتی ہیں کبھی گرادیتی ہیں کبھی سیدھاکرتی ہیں یہاں تک کہ اس کی موت آجاتی ہے اورمنافق کی مثال مضبوط صنوبر کی سی ہے جسےکوئی آفت نہیں پہنچتی حتی کہ یکبارگی اس کا اکھڑنا ہوتاہے۔

یعنی مسلمان کی زندگی بیماریوں،مصائب وتکالیف میں گھری ہوتی ہے جن پر وہ صبرکرکے گناہوں سے پاک و صاف ہوتا رہتا ہے،منافق و کافر کی زندگی آرام و آسائش سےگزرتی ہے جس سے اس کی غفلتیں بڑھ جاتی ہیں پھر یکبارگی ہی موت آتی ہے۔یہ قاعدہ اکثریہ ہے کلیہ نہیں۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 , حدیث نمبر:1541)

( 2) اہل بیت کی عظمت، مثال کے ذریعے: عن ابی ذَرٍّ أَنَّهٗ قَالَ وَهُوَ آخِذٌ بِبَابِ الْكَعْبَةِ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللہ ُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَلَا إِنَّ مِثْلَ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مِثْلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هَلَكَ(مشکوۃ،حدیث 6183) روایت ہے حضرت ابو ذر سے کہ انہوں نے کعبہ کا دروازہ پکڑے ہوئے فرمایاکہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا کہ آگاہ رہو کہ تم میں میرے اہل بیت کی مثال جناب نوح کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہوگیا۔

مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں کہ دروازہ کعبہ اس لیے پکڑا تاکہ اس حدیث کی اہمیت سننے والوں کو معلوم ہو جائے۔ اور جیسے طوفان نوحی کے وقت ذریعہ نجات صرف کشتی نوح علیہ السلام تھی ایسے ہی تاقیامت ذریعہ نجات صرف محبت اہل بیت اور ان کی اطاعت ان کی اتباع ہے،بغیر اطاعت و اتباع دعویٰ محبت بے کار ہے۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:8 ،حدیث نمبر:6183)

(3) نیکیوں کی ترغیب، مثال کے ذریعے: عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ ِ صَلَّى اللہ ُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: إِنَّ مَثَلَ الَّذِي يَعْمَلُ السَّيِّئَاتِ ثُمَّ يَعْمَلُ الْحَسَنَاتِ كَمَثَلِ رَجُلٍ كَانَتْ عَلَيْهِ دِرْعٌ ضَيِّقَةٌ قَدْ خَنَقَتْهُ، ثُمَّ عَمِلَ حَسَنَةً فَانْفَكَّتْ حَلْقَةٌ، ثُمَّ عَمِلَ أُخْرٰى فَانْفَكَّتْ أُخرٰى حَتّٰى تَخْرُجَ إِلَى الأَرْضِ مشکوۃ، (حدیث 2371)

روایت ہے حضر ت عقبہ ابن عامر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول ﷺ نے: اس شخص کی مثال جو پہلے گناہ کرتا ہو پھر نیکیاں کرنے لگے اس کی سی ہے جس پر تنگ زرہ تھی جو اس کا گلا گھونٹ رہی تھی پھر اس نے ایک نیکی کی تو ایک چھلا کھل گیا پھر دوسری نیکی کی تو دوسرا کھل گیا حتی کہ وہ زرہ زمین پر گر گئی۔

مراة المناجیح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اس کے متعلق کچھ یو بیان فرماتے ہیں:گناہ چھوڑ کر یا گناہ کے ساتھ ساتھ بعض لوگ پہلے صرف گناہ کرتے ہیں بعد میں گناہ چھوڑ کر صرف نیکیاں کرنے لگتے ہیں یہ تو اعلیٰ درجہ کے ہیں اور بعض لوگ پھر بعد میں اگرچہ گناہ کرتے رہیں مگر نیکیاں بھی کرنے لگتے ہیں یہ بھی غنیمت ہے۔غالب یہ ہے کہ یہاں پہلی جماعت مراد ہے۔

یہ بہت نفیس مثال ہے کہ جیسے زرہ سارے جسم کو گھیر لیتی ہے،اور اگر تنگ ہو تو تمام بدن کو تکلیف دیتی ہے ایسے ہی گناہوں میں گھرا ہوا ہر طرح برا ہوتا ہے اللہ کے نزدیک بھی اور بندوں کی نگاہ میں بھی اس کو قلبی کوفت بھی رہتی ہے،نیکی سے دل کو خوشی ہوتی ہے،گناہ سے دل کو رنج اگرچہ کبھی یہ خوشی و غم بعض اوقات محسوس نہ ہوں۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:3 ، حدیث نمبر:2375)

(4) اللہ کا ذکر کرنے والے کی مثال:وَعَنْ أَبِيْ مُوْسٰى قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ ِ صَلَّى اللہ ُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ الَّذِيْ يَذْكُرُ رَبَّهٗ وَالَّذِيْ لَا يَذْكُرُ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ (صحیح بخاری،حدیث 6407)روایت ہے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں، رسول ﷺ نے فرمایا : اس کی مثال جو رب کا ذکر کرے اور جو نہ کرے زندہ و مردہ کی سی ہے۔

یعنی جیسے زندہ کا جسم روح سے آباد ہے مردہ کا غیر آباد،ایسے ہی ذاکر کا دل ذکر سے آباد ہے غافل کا دل ویران یا جیسے شہروں کی آبادی زندوں سے ہے مردوں سے نہیں ایسے ہی آخرت کی آبادی ذاکرین سے ہے غافلین سے نہیں،یا جیسے زندہ دوسروں کو نفع و نقصان پہنچاسکتا ہے مردہ نہیں،ایسے اللہ کے ذاکر سے نفع و نقصان خلق حاصل کرتی ہے غافل سے نہیں۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:3 ، حدیث نمبر:2263)

(5) دنیا کی مثال: عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم-: مَثَلُ هَذِهِ الدُّنْيَا مَثَلُ ثَوْبٍ شُقَّ مِنْ أَوَّلِهِ إِلَى آخِرِهِ فَبَقِيَ مُتَعَلِّقًا بِخَيْطٍ فِي آخِرِهِ، فَيُوشِكُ ذَلِكَ الْخَيْطُ أَنْ يَنْقَطِعَ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الإِيمَان (مشکوۃ،حدیث 5515)

روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس دنیا کی مثال اس کپڑے کی سی ہے جو اول سے آخر تک کاٹ دیا گیا پھر وہ آخر میں ایک دھاگے سے ہلکا رہ گیا ، قریب ہے کہ یہ دھاگہ ٹوٹ جاوے۔

تشبیہ نہایت ہی بلیغ ہے جس میں بتایا گیا ہے دنیا اب قریب الختم ہے مگر یہ قرب رب تعالٰی کے علم کے لحاظ سے ہے نہ کہ ہمارے حساب سے،وہاں کا ایک دھاگہ بھی بہت دراز ہوتا ہے اس لیے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ قریبًا اس فرمان کو چودہ سو برس ہوچکے اب تک وہ دھاگہ ٹوٹا ہی نہیں۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:7 , حدیث نمبر:5515)

بے شک حضور ﷺ کا ہر فرمان تمام امت مسلمہ کے لیے دنیا اور آخرت میں کامیابی کا سرچشمہ ہے۔ حضورﷺ کے فرامین کی پیروی کر کے ہی ہم اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنوار سکتے ہیں۔لہذا جن چیزوں سے حضورﷺ نے منع فرمایا ان سے ہمیشہ پرہیز کرنا اور جن چیزوں کا حکم فرمایا ان پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے کےمحبوب دانائے غیوبﷺ کے نقشے قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین