اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کو تمام انسانیت کے لیے معِلّم بنا کر بھیجا۔آپﷺ نے تبلیغ اسلام اور تربیت کے لیے ایسے منفرد انداز اختیار فرمائے جو قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے سبب ہدایت ہیں ۔آپﷺ نے نہ صرف پیغام خدا کو پہنچایا بلکہ دین اسلام کو سمجھانے کے لیے ایسے پراثر طریقے اختیار فرمائے جن کے ذریعے سے بات سننے والا اُس بات کو قبول بھی کرتا بلکہ اپنے دل و دماغ میں محفوظ کر لیتا۔انہی منفرد طریقوں میں سے ایک مثالوں سے تربیت کرنا بھی ہے ۔

مثال بیان کرنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی غیر واضح اور غیر محسوس چیز کو محسوس چیز کیساتھ تشبیہ دے کر سمجھانا تاکہ بات اچھی طرح سمجھ آجائے۔ قرآن کریم میں یہ طرزِ عمل بکثرت استعمال کیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَحْیٖۤ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَاؕ ترجمہ کنزالایمان: بےشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر۔ (پ1، البقرۃ: 26)

بعض علما نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے کفار کے معبودوں کی کمزوری کو مکڑی کے جالوں وغیرہ کی مثالوں سے بیان فرمایا تو کافروں نے اس پر اعتراض کیا ۔اس کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: 26، 1/ 361، طبری، البقرۃ، تحت الآیۃ: 26، 1/ 213-214، ملتقطاً)

اسی عمدہ و اعلیٰ انداز کی جھلک ہمیں کریم آقا ﷺ کے فرامین مقدّسہ میں بھی نظر آتی ہے ، ذیل میں پانچ احادیث طیبہ ملاحظہ فرمائیں:

(1) زندہ اور مردہ: عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْكُرُ، مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ اللہ کا ذکر کرے اور جو نہ کرے ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ (بخاری کتاب الدعوات ،باب ذکر اللّہ ،ج1،ص1036،ح6407، دار الحدیث قاھرہ)

(2) حضور ﷺ اور سابقہ انبیا : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ : هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ . قَالَ : فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّينَ

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میری اور مجھ سے پہلے آنے والے انبیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک خوبصورت اور مکمل عمارت بنائی ہو، مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہو۔ لوگ اس عمارت کے گرد گھومتے ہیں، اس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: کاش یہاں وہ ایک اینٹ بھی لگا دی جاتی! آپ ﷺ نے فرمایا: " وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی آخری نبی ہوں)۔(بخاری کتاب المناقب ،باب خاتم النبیین ﷺ،ج1، ص577،ح3535 ، دار الحدیث قاھرہ)

(3) گناہوں سے پاکیزگی: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا مَا تَقُولُ ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ قَالُوا : لَا يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا. قَالَ : فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: تمہارا کیا خیال ہے، اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو، اور وہ روزانہ پانچ مرتبہ اس میں غسل کرے، تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہے گا؟ صحابہ نے عرض کیا: "نہیں، کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔(بخاری کتاب: مواقیت الصلاۃ،باب صلوات الخمس کفارۃ ،ج1،ص104،ح528 ، دار الحدیث قاھرہ)

(4) منافق کی مثال: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو بکریوں کے دو ریوڑوں کے درمیان ماری ماری پھرتی ہے کبھی اِس ریوڑ میں چرتی ہے اور کبھی اُس ریوڑ میں۔(مسلم ،کتاب: صفات المنافقین، ج 1،ص883،ح2784 ، دار الحدیث قاھرہ)

(5) سب سے بڑی مصیبت: عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الَّذِي تَفُوتُهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ كَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس کی عصر کی نماز فوت ہو جائے، گویا اس کا اہل و مال (گھر والے اور مال و دولت) سب کچھ چھین لیا گیا ہو۔(بخاری ،کتاب:مواقیت الصلاۃ ،باب:اِثم من فاتتہ العصر ،ج1،ص106،حدیث:552، دار الحدیث قاھرہ)

اگر ہم کریم آقا ﷺ کے اس انداز تبلیغ کو اختیار کریں تو دعوت دین کو احسن طریقے سے لوگوں تک پہنچانے میں مدد ملے گی ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں دین متین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ