میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں اللّہ پاک کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کیونکہ اللّہ تعالیٰ نے ہم سب کو مسلمان پیدا کیا ہے تاکہ ہم سب اللّہ تعالٰی کی عبادت اور اطاعت کرے اور اللّہ تعالیٰ کا حکم مانے جس طرح اللّہ تعالیٰ نے ہم سب کو نماز "روزے" زکوٰۃ "حج" جہاد "حقوقُ اللّہ" حقوقُ العباد وغیرہ کا حکم دیا ہے اور حقوقُ العباد میں پڑوسیوں کے حقوق "ہمسایوں کے حقوق" مہمانوں کے حقوق "میزبانوں کے حقوق وغیرہ ہیں ان میں سے آج اپنے موضوع کے مطابق مہمانوں کے حقوق کے بارے میں جانے گۓ مہمان نوازی کرنا انبیاء کرام کی سنت ہے

مہمانوں کے حقوق کے بارے میں پیارے پیارے نبی صلی اللّہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات :

1)آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا (آدمی کو تین بستر بنانے چاہیے)

1) ایک اپنے لیے

2) ایک اپنی زوجہ کیلئے

3) اور تیسرا مہمان کیلئے ۔ (مکارم الاخلاق للخراءطی؛ باب مایستحب من اتخاذـ ـ ـ الخ؛ جلد 2؛ صفحہ 99)

2)اللّہ کے پیارے پیارے رسول صل اللّہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا (من کان یؤمن باللہ والیوم الاخر فلیکرم ضیفا)

یعنی جو اللّہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے (بخاری؛ جلد نمبر 4؛ صفحہ نمبر 105؛ حدیث 6019)

3)ایک روایت میں ہے (اذا جاءکم الزاءر فاکرموہ) یعنی جب تمہارے پاس کوئی مہمان آئے تو اسکی تعظیم کرو (مکارم الاخلاق للخراءطی باب ماجاء فی اکرام الضیف ـ ـ ـ الخ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 156 حدیث 330)

4)نبی کریم صل اللّہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اس بنادے میں کوئی بہلائی نہیں جو مہمان نوازی نہیں کرتا (مکارم الاخلاق للخراءطی باب ماجاء فی اکرام الضیف ـ ـ ـ الخ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 155 حدیث 329)

5)حضرت انس رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ تاجرار مدینہ صل اللّہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس کے گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس طرح دوڑ کر آتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان سے چہری (تیزی سے گرتی ہے) بلکہ اس سے بھی تیز (ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب الضیافۃ صفحہ نمبر 545 حدیث 3356)

انبیاء کرام کی مہمان نوازی :1)حضرت ابراہیم علیہ السلام سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے مہمان نوازی کی ـ ان کی مہمان نوازی کے واقعہ کو قرآن پاک میں یوں بیان فرمایا گیا ہے (ھل اتاک حدیث ضیف ابراہیم المکرمین اذ دخلو علیہ فقالوا سلاما قال سلام) یعنی اے محبوب! کیا تمہارے پاس ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی خبر آئی ـ جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کھا ـ سلام نا شنا سا لوگ ہیں (پارہ 26 سورۃ الزاریات آیت نمبر 24)

پھر آیت نمبر پھر آیت نمبر 26 میں فرمایا (فراغ الی اھلہ فجاء بعجل سمیں) ترجمہ تو جلدی سے گھر میں جاکر ایک تازہ بچھڑا لئے ااور مہمانوں کے سامنے پیش کیا ـ

2) حضرت ایوب علیہ السلام بہت مال و دولت کے مالک تھے ـ نھآیت ہی نیک اور پارسا تھےـ مسکینوں پر شفقت فرماتے؛؛ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت فرماتے؛ مہمان نوازی کرتے اور فقیروں کی مدد فرماتے تھے (تفسیر الفزطبی جلد 11 صفحہ نمبر 323)

مہمان نوازی کی فضیلت :

امام نووی رحمہ اللّہ علیہ فرماتے ہیں کہ مہمان نوازی کرنا آداب اسلام اور انبیاء و صالحین کی سنت ہے (شرح النووی علی المسلم جلد 2 صفحہ نمبر 18)

فرمان مصطفےٰ صلی اللّہ علیہ والہ وسلم ہے کہ آدمی جب اللّہ پاک کی رضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللّہ تعالیٰ اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورے ایک سال تک اللّہ تعالیٰ کی تسبیح و تھلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے) کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور سال پورا ہو جاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللّہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اس کو جنت کی پاکیزہ غذائیں "جنۃالخلد" اور نہ فنا ہونے والی بادشاہت میں کہلاۓ (کنزالعلمال جلد 5 ص 110 حدیث 25878)

اللّہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مہمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین