قرآن کریم کی طرح احادیث کریمہ میں بھی مثالوں کا استعمال بکثرت
ملتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب اور قیامت تک آنے والے
امتیوں کو دین کا پیغام آسانی اور وضاحت کے ساتھ سمجھانے کے لیے کئی مواقع پر روز
مرہ زندگی سے مثالیں دی ہیں ۔ یہاں بعض ذکر کی جاتی ہیں۔
پہلی
مثال اور اس کی وضاحت : حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اور مجھ
سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے گھر بنایا اور اس کے سجانے اور
سنوارنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی مگر کسی گوشے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ لوگ
اس کے گرد پھرتے اور تعجب سے کہتے، بھلا یہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی ؟ فرمایا: وہ اینٹ
میں ہوں۔ میں سارے انبیاء سے آخری ہوں ۔ (صحیح بخاری ، کتاب المناقب، الحدیث: ۳۵۳۵ ج ۲ ص ۴۸۴)
اہل اسلام کا یہ
مسلمہ عقیدہ ہے کہ حضور خاتم الانبیاء ﷺ اللہ
کے آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ اس عقیدہ ختم نبوت کا منکر
کافر و مرتد یعنی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
دوسری
مثال اور اس کی وضاحت: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس پر پت جھڑ نہیں آتا ( اس کے پتے نہیں جھڑتے) اور
وہ مسلمان کی مانند ہے۔ مجھے بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ ابن عمر کا کہنا ہے کہ لوگوں
کا دھیان جنگلی درختوں کی طرف چلا گیا عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں میرے ذہن میں آگیا
کہ ہو نہ ہو کھجور کا درخت ہے۔ مگر حیا آڑے آئی آخر کار صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ! آپ
ہی بتلائیے وہ کون سا درخت ہے۔ فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے۔ (صحیح بخاری ، کتاب
العلم ، الحدیث: ۷۲ ، ج ۱ ص ۴۳)
اس حدیث شریف
میں مومن کی مثال کھجور کے درخت کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور سمجھایا گیا ہے کہ جس
طرح کھجور کا تقریباً ہر جز نفع بخش ہے اسی طرح مومن کا ہر فعل نفع
بخش ہوتا ہے ۔
تیسری
مثال اور اس کی وضاحت: حضرت نعمان
بن بشیر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی
حدوں کو قائم رکھنے والوں اور توڑنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے کشتی کے سواروں نے
اپنا حصہ تقسیم کر لیا۔ بعض کے حصے میں اوپر والا حصہ آیا اور بعض کے حصے میں نیچے
والا پس جو لوگ نیچے تھے انہیں پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس جانا پڑتا تھا
انہوں نے کہا کہ کیوں نہ ہم اپنے حصے میں سوراخ کر لیں اور اوپر والوں کے پاس جانے
کی زحمت سے بچیں پس اگر وہ انہیں ان کے ارادے کے مطابق چھوڑے رہیں تو سب ہلاک ہو
جائیں اور اگر ان کے ہاتھ پکڑ لیں تو سارے بچ جائیں۔ (صحیح بخاری، کتاب الشركۃ،
الحدیث: ۲۴۹۳، ج۲، ص۱۴۳)
اس حدیث شریف
میں ایک مثال کے ذریعے برائی سے روکنے اور نیکی کا حکم دینے کی اہمیت کو واضح کیا
گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اگر یہ سمجھ کر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ
ترک کر دیا جائے کہ برائی کرنے والا خود نقصان اٹھائے گا ہمارا کیا نقصان ہے! تو یہ
سوچ غلط ہے۔ اس لیے کہ اس کے گناہ کے اثرات تمام معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے
ہیں اور جس طرح کشتی توڑنے والا اکیلا ہی نہیں ڈوبتا بلکہ وہ سب لوگ ڈوبتے ہیں جو
کشتی میں سوار ہیں، اسی طرح برائی کرنے والے چند افراد کا یہ جرم تمام معاشرے میں
ناسور بن کر پھیلتا ہے۔ (مرآۃ المناجیح، ج۶، ص۵۰۴)
Dawateislami