عبدالنبی شاہ (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
جس گھر میں
مہمان کھانا کھاتے ہیں اس گھر میں برکت ہوتی رہتی ہے ویسے تو لوگ اپنے گھر میں
کھانا کھاتے ہیں لیکن اس گھر میں خیر و برکت نازل ہوتی رہتی ہے ائیے ہم مہمانوں کے
حقوق کے بارے میں جانیں گے
(1)مہمان
کی تعظیم: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ اور قیامت پر
ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی تعظیم کرے اور جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا
ہے وہ صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی کی بات
کرے یا خاموش رہے ۔ (صحیح بخاری جلد 6صفحہ 136 حدیث 6138)
گھر
کے دروازے تک جانا: حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سنت
ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔ (مرأۃ المناجیح جلد 6 ص 77)
مہمان
کی عزت کرنا: حضرت ابی کعب رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
اپ نے فرمایا حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہما میرے پاس تشریف لائیں اور انہوں نے
مجھے ایک کتاب دی جس میں لکھا تھا جو اللہ اور اخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے
چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے اور اسے چاہیے کہ مہمان سے بھلائی کی بات کرے یا پھر
خاموش رہے۔(اکرام الضعیف مترجم ص 21) جمعیت اشاعت اہلسنت پاکستان)
پانچ
کاموں میں جلدی کرنا: حضرت سیدنا
خاتم اصم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم فرماتے ہیں جلد بازی شیطان کا کام ہے مگر پانچ چیزوں
میں جلدی کرنا سنت ہے مہمان کو کھانا کھلانے میں میت کو دفن کرنے میں کنواری لڑکی کا نکاح کرنے میں قرض کی ادائیگی
میں اور گناہوں سے توبہ کرنے میں۔ (احیاءالعلوم
جلد 2 ص56)
مہمانوں
کی میزبانی کرنا: حضرت ابو کریم رضی
اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا رات
کے آنے والے مہمان کی میزبانی کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ (ایمان
کی شاخیں صفحہ نمبر 598)
ابو ولی صفی الرحمٰن عطّاری
(درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
مہمان نوازی
نہ صرف ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنّت ِمُبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیائے کِرام علٰی نَبِیِّنا وعلیہم الصلٰوۃ و السَّلَام کاطریقہ بھی
ہےچنانچہ ابوالضَّیفان حضرتِ سیِّدُنا اِبراہیم خلیلُ اللہ علیہ السَّلام بہت ہی
مہمان نواز تھےاور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے(یعنی نہ کھاتے) تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا ذکر
قرآن پاک میں بھی ہے۔ چناچہ اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ
الْمُكْرَمِیْنَ ترجمہ کنز الایمان:
اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔ (الذّٰریٰت آیت نمبر 24) ایک اور مقام میں فرمایا۔
وَ نَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ ترجمہ کنز الایمان: اور انہیں احوال سناؤ ابراہیم کے مہمانوں کا۔ (الحِجر: آیت نمبر 51)
مفسرین فرماتے
ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے اور
بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے ،اس وقت ایسا اتفاق ہوا کہ پندرہ روز سے
کوئی مہمان نہ آیا تھا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا غم تھا اور
جب ان مہمانوں کو دیکھا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے لئے کھانا
لانے میں جلدی فرمائی، چونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہاں
گائے بکثرت تھیں اس لئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت سامنے لایا گیا ۔ (روح البیان،
ہود، تحت الآیۃ: ۶۹، ۴ / ۱۶۱، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۳۶۰-۳۶۱،
ملتقطاً)
مہمان کی تعریف: مہمان وہ ہے جو
ہم سے ملاقات کے لیے باہر سے آئے خواہ اس سے ہماری واقفیت پہلے سے ہو یا نہ ہو۔
جو ہمارے اپنے ہی محلہ یا اپنے شہر میں سے ہم سے ملنے آئے دوچار منٹ کے لیے وہ
ملاقاتی ہے مہمان نہیں اس کی خاطر تو کرو مگر اس کی دعوت نہیں ہے اور جو ناواقف
شخص اپنے کام کے لیے ہمارے پاس آئے وہ مہمان نہیں جیسے حاکم یا مفتی کے پاس مقدمہ
والے یا فتویٰ والے آتے ہیں یہ حاکم کے مہمان نہیں۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4244)
مہمان کے حقوق احادیث کی روشنی میں: مہمان نوازی ایک فطری و احسن عمل ہے اور متعدد
احادیث میں مہمانوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جن میں
سے کچھ فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کئے جاتے ہیں:-
(1)۔۔۔۔ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو
برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے.(ابن
ماجہ،ج4،ص51، حدیث:3356)
(2)۔۔۔۔ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو
اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے
جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء،ج2،ص33، حدیث:1641)
(3)۔۔۔۔ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتاہو
وہ اپنے مہمان کا احترام کرے اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور دعوت تین دن ہے اس کے بعد وہ صدقہ ہے مہمان
کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی کہ اسے تنگ کردے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح
شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث
نمبر:4244)
(4)۔۔۔۔ مہمان نوازی کرنے والے کو عرش کا سایہ
نصیب ہوگا۔ (تمہید الفرش،ص18)
(5)۔۔۔۔ آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے
بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ
پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح
و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے ( مہمان نواز )کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے
ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے
نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو
جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔
(کنزالعمّال، جز9،ج 5،ص110، حدیث:25878)
(6)۔۔۔۔ جوشخص اللہ عَزَّوَجَلَّ اور قِیامت کے
دن پراِیمان رکھتا ہےاسے چاہیے کہ وہ دستور کے مطابق اپنے مہمان کی خاطر تواضع
کرے۔عرض کی گئی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!
دستور کیاہے؟فرمایا:’’ایک دن اور ایک رات اور ضِیافت(مہمانی) تین دن ہےاورتین دن
کے بعد صَدَقہ ہے۔‘‘اورمُسْلِم کی رِوآیت میں ہے:کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اپنے
مسلمان بھائی کے یہاں اِتنا عرصہ ٹھہرے کہ
اُسے گُناہ میں مبتلا کر دے۔صحابہ ٔکِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عَرْض کی: یارسولَ
اللّٰہ!وہ اُس کو کیسے گُناہ میں مبتلا کرے گا؟اِرشاد فرمایا:’’وہ اُس شخص کے یہاں اِتنے وقت تک ٹھہرے کہ اُس کے
پاس مہمان نوازی کے لیے کچھ نہ رہے۔(کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)
مہمان نوازی کی مُدّت: عَلَّامَہ خَطَّابِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں:میزبان ایک دن رات
مہمان کے لیے(کھانے پینے کی چیزوں میں) تکلُّف کرےاور اُس کے ساتھ زِیادہ نیکی کرےاور بعد کے دو دن میں(بِلا تکلُّف
واِہْتِمام) اُس کے سامنے جو حاضِر ہو(یعنی گھر میں جو کھانا بنا ہو) پیش کردے اور
جب تین دن گزرجائیں تو مہمان کا حق گزر گیا اور جب اِس سے زِیادہ اُس کی ضِیافت
کرے گاتو وہ صَدَقہ ہوگی۔مرآۃ المناجیح میں ہے:پہلے دن مہمان کے لیے کھانے میں
تکلُّف کر،پھردو دن درمیانہ کھانا پیش کر،تین دن کی بھی مہمانی ہوتی ہے، بعد میں
صَدَقہ ہے۔(کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)
(7)۔۔۔۔ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان
رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243)
مہمان کے احترام سے مراد:- مفسّر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے
خندہ پیشانی سے ملے اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان
اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے،بعض حضرات خود مہمان کے آگے دسترخوان بچھاتے اس کے
ہاتھ دھلاتے ہیں یہ اسی حدیث پر عمل ہے،بعض لوگ مہمان کے لیے بقدر طاقت اچھا کھانا
پکاتے ہیں وہ بھی اس عمل پر ہے جسے کہتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع۔اس حدیث کا مطلب یہ
نہیں کہ جو مہمان کی خدمت نہ کرے وہ کافر ہے ۔مطلب یہ ہے کہ مہمان کی خاطر تقاضاء ایمان ہے جیسے باپ اپنے بیٹے سے کہے کہ
اگر تو میرا بیٹا ہے تو میری خدمت کر،مہمان کی خاطر مؤمن کی علامت ہے۔خیال رہے کہ
پہلے دن مہمان کے لیے کھانے میں تکلف کر،پھردو دن درمیانہ کھانا پیش کر،تین دن کی
بھی مہمانی ہوتی ہے بعد میں صدقہ ہے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243) احادیثِ مذکورہ اور ان
کی وضاحت سے ملنے والے10مدنی پھول:-
(1) مہمان
کی عزت و اِحتِرام اور اِس کی خاطِر تواضُع کرنا اَنبیائے کِرام عَلَیْہِمُ
السَّلَام کی سُنَّت ہے۔
(2) اسلام
میں مہمانوں کی مہمان نوازی کاحکم دیا گیاہے۔
(3) مہمان
آتا ہے تو اپنا رِزْق بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔
(4) حضرت
اِبراہیم عَلَیْہِ السَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے، بِغیر مہمان کے کھانا تَناوُل
نہ فرماتے ۔
(5) مہمان
وہ ہے جو مُلاقات کے لیے باہَر سے آئے خَواہ اُس سے ہماری جان پہچان پہلے سے ہو یا نہ ہو۔
(6) مہمان
کا اکرام یہ ہے کہ اُس سے خَنْدہ پَیشانی سے ملے،اُس کیلئےکھانے وغیرہ کا اہتمام
کرے۔
(7) ایک
دن رات مہمان کیلئے کھانے میں تکلُّف اُس
کے ساتھ زِیادہ نیکی کرےاور بعد کے دو دن میں بِلا تکلُّف اُس کے سامنے جو کھانا
حاضِر ہو پیش کردے ۔
(8) مہمان
کو چاہیے کہ وہ میزبان کے پاس تین دن سے
زِیادہ نہ ٹھہرے ۔
(9) میزبان
کی خواہش پرتین دن سے زِیادہ ٹھہرنے میں حرج نہیں۔
(10) مہمان کورخصت کرتے وَقت کچھ دُور پہنچانے جانا سُنَّت ہے۔
اب یہاں ضمنًا
مہمان و میزبان کے لئے کچھ آداب بیان کیے جاتے ہیں:-
"مہمان کے لیےآداب"
صَدْرُالشَّرِیْعَہ
بَدرُالطَّرِیْقَہ حضرتِ علامہ مولانامفتی محمدامجدعلی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’مہمان کو چار باتیں
ضَروری ہیں:(1)جہاں بِٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔(2) جو کچھ اُس کے سامنے پیش کیا جائے
اُس پر خوش ہو،یہ نہ ہو کہ کہنے لگے: اِس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا
ہوں یا اِسی قِسْم کے دُوسرے اَلفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپَس میں
کہا کرتے ہیں۔(3) بِغیر اِجازتِ صاحِبِ خانہ وہاں سے نہ اُٹھے۔(4)اور جب وہاں سے
جائے تو اُس کے لیے دُعا کرے۔ (بہارشریعت،ج3،ص394ملخصاً)
"میزبان کے لئے آداب"
(1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2)کھانے میں
اگر پھل (Fruit) بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ
طِبّی لحاظ (Medical Point of View) سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے (3)مختلف اقسام کے کھانے
ہوں تو عُمدہ اور لذیذ (Delicious)کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے
کھالے (4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے(5)مہمانوں
کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور
ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔ (احیاء العلوم ،ج 2،ص21 تا 23
ملخصاً)
(6) سنت یہ ہے
کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔
(ابن ماجہ کتاب الطعمۃ، باب الضیافۃ، الحدیث
3358 ،ج 4 ،ص 52)
اللہ عَزَّوَجَلَّ
ہمیں اخلاص کے ساتھ مہمانوں کے حقوق ادا کرنے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
محمد ابو بکر عطّاری(درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ
فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور)
اسلام ایک
مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں اللہ ربُّ العزت نے زندگی گزارنے کے تمام تر معاملات میں
انسان کی راہنمائی فرمائی اور جہاں دیگر کثیر احکام بیان فرمائے وہیں مہمان نوازی
کو بھی ایک بنیادی وصف اور اعلیٰ خلق کے طور پر بتایا گیا ہے اور مہمان کی تعظیم،
خدمت اور ضیافت وغیرہ کا اہتمام میزبان پر اس کی حیثیت کے مطابق لازم قرار دیا۔ ذیل
میں انہیں حقوق میں سے پانچ حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:
(1)خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کرنا: مہمان کے حقوق میں
سے ہے کہ ان کا پرتپاک استقبال کیا جائے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم مختلف قبائل سے آنے والے وفود کے اِستقبال اور ان کی ملاقات کا خاص طورپر
اہتمام فرمایا کرتے تھے اور ہر وفد کے آنے پر آپ علیہ السّلام نہایت ہی عمدہ
پوشاک زیب ِتن فرما کر کاشانۂ اقدس سے نکلتے اور اپنے خصوصی اصحاب رضی اللہُ عنہم
کو بھی حکم دیتے تھے کہ بہترین لباس پہن کر آئیں۔(صراط الجنان، 7/498)
(2)عزت و احترام سے پیش آنا: مہمان کے حقوق میں یہ بھی
شامل ہے کہ ان کے ساتھ عزت و احترام والا معاملہ کیا جائے۔ جیسا کہ رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جو اللہ پاک اور آخرت کے دن
پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ مہمان کا احترام کرے۔(بخاری، 4/136، حدیث: 6136)
اس حدیث
مبارکہ کا مطلب یہ نہیں کہ جو مہمان کی خدمت نہ کرے وہ کافر ہے۔مطلب یہ ہے کہ
مہمان کی خاطر تواضع کرنا ایمان کا تقاضا اور مؤمن کی علامت ہے۔ (دیکھئے: مراٰۃ
المناجیح، 6/52)
(3)اچھا کھانا کھلانا:مہمان کے بنیادی حقوق میں سے ایک یہ
بھی ہے کہ میزبان ان کے لئے اپنی حیثیت کے مطابق عمدہ و لذیذ کھانے کا اہتمام
کرے۔ قراٰنِ پاک میں جلیل القدر پیغمبر حضرت سیدنا ابراہیم خلیلُ اللہ علیہ
السّلام کا اسی (ضیافت)کے ساتھ وصف بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ جب آپ علیہ السّلام
کے پاس فرشتے بصورتِ انسان تشریف لائے تو آپ نے بچھڑے کے بھنے ہوئے گوشت سے ان کی
ضیافت فرمائی۔ (صراط الجنان، 4/464)
(4)مہمان نوازی میں خود مشغول ہو اور کھانے میں شامل ہو:
بہار شریعت میں ہے: میزبان کو چاہئے کہ مہمان کی خاطر داری میں خود مشغول ہو،
خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سنت ہے اگر
مہمان تھوڑے ہوں تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضائے مُروت
ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں
مشغول ہو۔(بہار شریعت، 3/394)
(5)رخصت کرنے کے لئے دروازے تک چھوڑنا: میزبان کو چاہئے
کہ وہ اپنے مہمانوں کو رخصت کرنے کیلئے دروازے تک چھوڑنے آئے۔ اللہ پاک کے آخری
نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا یہ سنت سے ہے کہ انسان اپنے
مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔(ابن ماجہ،4/52، حديث: 3358)
مہمان کو
دروازے تک پہنچانے میں اس کا احترام ہے، پڑوسیوں کا اطمینان کہ وہ جان لیں گے کہ
ان کا دوست عزیز آیا ہے کوئی اجنبی نہیں آیا۔ اس میں اور بہت حکمتیں ہیں: آنے
والے کی کبھی محبت میں کھڑا ہوجانا بھی سنت ہے۔(دیکھئے:مراٰۃ المناجیح، 6/67)
دعا ہے کہ
اللہ پاک ہمیں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے
ہمیشہ مہمانوں کی تعظیم کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ہمارا پیارا مذہب اسلام انسان کے بنیادی حقوق کے
تحفظ کا ضامن اور علمبردار ہے۔ اسلام نے ہر انسان کے ہر حیثیت و رشتے کے لحاظ سے حقوق
و فرائض ایسے خوبصورت پیرائے/انداز میں بیان کیے کہ ہر شخص اپنے فرائض ادا کرے تو
دوسرے کےحقوق خود بخود ادا ہونے لگ جاتے ہیں۔ آج ہم انہی حقوق میں سے مہمان کے
حقوق اور دوسرے لفظوں میں میزبان کے آداب و فرائض قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے
اقوال و افعال کی روشنی میں جاننے کی سعادت حاصل کریں گے ان شاء اللہ
حدیث مبارکہ میں ہے: روایت ہے حضرت یحیی ابن سعید
سے انہوں نے سعید ابن مسیب کو فرماتے سنا کہ رحمن کے خلیل ابراہیم لوگوں میں پہلے
وہ ہیں جنہوں نے مہمانوں کی مہمانی کی۔ اس کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی مراۃ
المناجیح میں لکھتے ہیں: آپ سے پہلے کسی نے مہمان نوازی کا اتنا اہتمام نہ کیا
جتنا آپ نے کیا آپ تو بغیر مہمان کھانا ہی نہ کھاتے تھے۔(مراۃ المناجیح، 6/329)معلوم
ہوا کہ مہمان نوازی کرنا سنت ابراہیمی ہے۔
مہمان کے چند حقوق مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ مہمان کی عزت کرنا: رسول
اللہ ﷺ نے کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا
احترام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018) اس
کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے
خندہ پیشانی سے ملے اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے۔
اہل عرب کہتے ہیں کامل مہمان نوازی اول ملاقات میں
مہمان کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور کھاتے ہوئے مہمان کے ساتھ دیر تک گفتگو
کرنا ہے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ص 432)
2۔ مہمان کو دروازے تک چھوڑنا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ سنت سے ہے کہ انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے
تک جائے۔ اس کی شرح میں ہے کہ مہمان ملاقاتی کو دروازے تک پہنچانے میں اس کا
احترام ہے اور اس میں اور بہت سی حکمتیں ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)
3۔ مہمان کو کھانے کا کہنا: میزبان
کو چاہیے کہ مہمان سے وقتاً فوقتاً کہے کہ اور کھاؤ مگر اس پر اصرار نہ کرے، کہ
کہیں اصرار کی وجہ سے زیادہ نہ کھا جائے اور یہ ا س کے لیے مضر ہو،، میزبان کو
بالکل خاموش نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ کھانا رکھ کر غائب ہوجائے،
بلکہ وہاں حاضر رہے۔ (بہار شریعت، 3/394، حصہ: 16)
4۔ مہمانوں کو مانوس کرنا: مہمان
نوازی کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اپنے مہمانوں کے ساتھ ایسی گفتگو کرے کہ اس سے
ان کا دل اس کی طرف مائل ہو۔ ان سے پہلے نہ سوئے۔ (دین دنیا کی انوکھی باتیں، ص 433)
رات کو کچھ وقت اپنے مہمانوں کے ساتھ گزارے انہیں
دلچسپ واقعات سنا کر مانوس کرے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ص 434)
5۔ مہمان کو خوف زدہ نہ کرنا: میزبان
پر لازم ہے کہ مہمانوں کے دلوں کی رعایت کرے اور ان کے سامنے کسی پر غصہ نہ کرے ان
کے ہوتے ہوئے کوئی نا پسندیدہ کام نہ کرے اور ناخوشگواری اور بخل کا مظاہرہ نہ کرے۔
(دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ص 433)
اللہ پاک ہمیں بہترین میزبان بننے کی توفیق دے۔
آمین
آئیے ترغیب کے لیے ایک نظر صحابہ کرام علیہم
الرضوان اور بزرگان دین کی میزبانی پر ڈالتے ہیں کہ وہ کیسے میزبانی کے آداب کو
بجالاتے اور مہمان کا اکرام کرتے چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض
کی: یا رسول اللہ! مجھے بھوک لگی ہوئی ہے۔ آپ نے ازواج مطہرات کے پاس کسی کو بھیج
کر معلوم کیا لیکن کھانے کی کوئی چیز نہ ملی، حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو
شخص آج رات اسے مہمان بنائے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ انصار میں سے ایک
شخص کھڑے ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ چنانچہ وہ اس آدمی کو اپنے
گھر لے گئے اور اپنی زوجہ سے کہا: رسول اللہ ﷺ کا مہمان آیا ہے، لہٰذا تم نے اس سے
کوئی چیز بچا کر نہیں رکھنی۔ انہوں نے عرض کی: ہمارے پاس تو بچوں کی خوراک کے
علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ فرمایا:جب عشاء کا وقت ہو جائے تو تم بچوں کو بہلا
پھسلا کر سُلا دینا،پھر جب ہم کھانا کھانے بیٹھیں تو تم چراغ درست کرنے کے بہانے آ
کر اسے بجھا دینا،اگر آج رات ہم بھوکے رہیں تو کیا ہو گا۔چنانچہ یہی کچھ کیا گیا
اور جب صبح کے وقت وہ شخص نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد
فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہاری کار گزاری کو بہت پسند فرمایا ہے۔ (بخاری، 3/348،
حدیث: 3889)
بزرگان دین اور مہمان نوازی: حضرت
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاذ محترم حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے
مہمان بنے تو حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کے ہاتھوں
پر پانی ڈالا اور ان سے کہا: یہ دیکھ کر گھبراؤ نہیں بلکہ ذہن نشین کر لو کہ مہمان
کی خدمت کرنا میزبان پر لازم ہے۔
اسلام میں مہمان کو اللہ کی رحمت قرار دیا گیا ہے۔ اسلام
نے بیٹی کو بھی اللہ کی رحمت قرار دیا ہے اور ہم دعاؤں میں بھی اللہ کی رحمت کے
طلبگار رہتے ہیں۔ مہمان کی عزت و احترام اور خاطر تواضع کرنا انبیائے کرام کی سنت
ہے۔ اگرچہ میزبان اس سے واقف بھی نہ ہو۔ رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی
اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ مہمان کا احترام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)
آپ ﷺ خود بہت مہمان نواز تھے۔ آپ ﷺ اپنے مہمانوں سے
بہت عزت سے پیش آتے۔ ان کی خوب خاطر مدارت کرتے۔ان کے ساتھ وقت گزارتے۔جاتے ہوئے
انہیں تحفے تحائف دیتے اور انتہائی عزت سے انہیں رخصت فرماتے۔
ایک دفعہ ایک بھوکا شخص حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا
اور کھانے کے لیے درخواست کی۔آپﷺ نے تمام ازواج مطہرات سے پتا کروایا لیکن کھانے
کے لیے کچھ میسر نہ تھا۔ آپ ﷺ کے حکم پر ایک صحابی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے
انہیں اپنے پاس مہمان ٹھرالیا لیکن ان کے ہاں بھی کھانا بہت کم تھا۔یا تو مہمان
کھا سکتا تھا یا حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے بچے لہذا انہوں نے بچوں کو بہلا کر
سلا دیا اور کھانا مہمان کے سامنے رکھ دیا۔ ان کے کہنے پر ان کی بیوی نے کسی بہانے
سے چراغ بجھا دی۔ اس سے میزبان تو خالی منہ ہلاتے رہے اور مہمان نے خوب پیٹ بھر کر
کھانا کھالیا۔اگلی صبح حضورﷺ نے ابو طلحہ کو فرمایا کہ آپ کی میزبانی اللہ تعالی
کو بے حد پسند آئی۔ (بخاری، 3/348، حدیث: 4889)
حضور ﷺ نے مہمان اور میزبان دونوں کیلیے احکامات ارشاد
فرمائے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
مہمان ایک دن اور ایک رات یعنی 24 گھنٹے تک مہمان
ہے۔اس دوران اس کی حتی المقدور خدمت کرنی چاہیے یعنی روٹین سے ہٹ کر اس کے لیے کچھ
خاص کھانے کا بندوبست کیا جائے لیکن حضور ﷺ نے مہمان کے لیے اپنی حیثیت سے بڑھ کر
یعنی اسراف کی حد تک خرچہ کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے اور ایسے میزبان کو دوزخ
میں جانے کی وعید سنائی ہے۔
مہمان زیادہ سے زیادہ تین دن اور تین رات تک مہمان
ہو گا لیکن پہلے دن کے بعد اس کو روٹین والا کھانا دیا جائے گا۔ تین دن کے بعد
مہمان پر جو خرچ کیا جائے گا وہ صدقہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہمان کو عام
حالات میں تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرنا چاہیے۔
مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کی جان، مال اور عزت
کی ایسے ہی حفاظت کرے جیسے وہ اپنی کرتا ہے۔میزبان کو حکم ہے کہ مہمان کے ساتھ نہ
چپکا رہے کیونکہ اس طرح مہمان کو آرام کرنے کا تو موقع ہی نہیں مل سکے گا۔
مہمان کو جاتے ہوئے کچھ (بے شک وہ قیمتی نہ ہو)بھی
دیں تو اچھی بات ہے۔
جاتے ہوئے مہمان کو گھر کے دروازے تک یا کچھ دور تک
ساتھ چھوڑنا بھی سنت ہے۔(ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)
مہمان کو چاہیے کہ اپنے میزبان کے لیے دعائیں کرے۔
مہمان کی تعریف: کسی
کے ہاں ضیافت یا دعوت کے لیے یا عارضی قیام کے لیے آنے والا شخص مہمان کہلاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اللہ پر اور آخرت
کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ (بخاری، 4/105،
حدیث: 6019)
مہمانوں کے بہت سے حقوق ہیں یہاں چند آپکے پیش خدمت
ہیں:
میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے اسکے ساتھ احترام
سے پیش آئے۔ میزبان کو چاہیے کہ مہمانوں کو پیار دیں۔ میزبان کو چاہیے کہ مہمانوں
کا اپنی حیثیت کے مطابق شاندار استقبال کریں۔ مہمان کو اچھا کھانا کھلائیں۔ مہمان
کے آنے پر اچھے سے خوش آمدید کرے اور جاتے وقت الوداع کرے اور دوبارہ آنے کی دعوت
دے۔
ہمیں بھی چاہیے کہ مہمانوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش
آئیں اور انہیں بوجھ نہ سمجھیں کیونکہ مہمان اپنا رزق اپنے ساتھ لاتا ہے، جیسا کہ
فرمانِ مصطفی ﷺ ہے: جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق ساتھ لاتا ہے
اور جب کسی کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف
الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
اللہ پاک ہمیں مہمانوں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین
فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر
میں خیر و برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی
ہے۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)
آقا ﷺ کا فرمان ہے: جو اللہ اور قیامت کے دن پر
ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ (بخاری،4/105، حدیث:6019) حکیمُ
الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اونٹ کی کوہان میں
ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چُھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک
پہنچ جاتی ہے اس لئے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد
پہنچتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6/67)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان نوازی
کرنا انبیاء و صالحین کی سنّت ہے۔ (شرح النووی علی المسلم،2/18)
نبی پاک ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جب کوئی مہمان کسی
کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب
خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
مہمانوں کے حقوق: مہمان
کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا، اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔ مہمانوں
کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفایت سے کم کھانا رکھنا
مروت کے خلاف ہےاور ضرورت سے زیادہ رکھنا دکھلاوا ہے۔ (احیاء العلوم، 2/21 تا 23 ملخصاً)
مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار محبت دینا، اس
کی عزت کرنا اور اس سے احترام کے ساتھ پیش آنا
اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا،
اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا، اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ
کرنا، مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔
نبی پاک ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ جب کوئی مہمان
کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو
صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان نوازی
کرنا آدابِ اسلام اور انبیاء و صالحین کی سنت ہے۔ (شرح النووی علی المسلم،2/18) حکیمُ
الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کا احترام یہ
ہے کہ اسے خندہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری
خدمات کا انتظام کرے حتی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت
کرے۔ (مراۃ المناجیح، 6/52)
مہمان کے حقوق: آمد کے وقت
اسے خوش آمدید کہنا، جانے کے وقت دروازہ تک چھوڑنے جانا، اس کے معمولات و ضروریات
کا انتظام کرنا جس سے ان کو راحت پہنچے، تواضع و تکریم ومدارات کے ساتھ پیش آنا، جتنا
ہو سکے بہتر کھانے کا انتظام کرنا، کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے، کھانے میں
اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا
زیادہ بہتر ہے، مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے
والوں میں سے جو چاہے کھالے، جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک
دسترخوان نہ اُٹھایاجائے، مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو
کیونکہ کفایت سے کم کھانا رکھنا مروت کے خلاف ہےاور ضرورت سے زیادہ رکھنا دکھلاوا
ہے۔ (احیاء العلوم، 2/21 تا 23 ملخصاً)
کم از کم تین روز تک اس کی مہمانداری کرنا، اتنا تو
اس کا ضروری حق ہے۔ جب وہ واپس جائے تو اسے دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔
اگر ہمارے گھر میں کوئی مہمان آئے چاہے وہ دور سے
آئے یا نزدیک سے آئے اس کی خاطر تواضع کرنی چاہیے مہمان الله پاک کی رحمت کا ذریعہ
ہے ہمیں چاہیے کہ مہمان کی عزت کریں ان کے لیے اچھا کھانے کا اہتمام کرنے اور اسے
کوئی تکلیف نہ پہنچائے مہمان کو بھی
چاہیے کہ اگر وہ کسی سے ملنے کے لیے آیا ہو تو تین دن سے زیادہ میزبان کے گھر نہ
رہے مہمان نوازی کرنا سنت رسول ﷺ ہے۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ مہمان نوازی کے
آداب کا خیال رکھیں مہمان کو کھانا کھلانے سے رزق میں برکت ہوتی ہے اور رزق میں
اضافہ ہو جاتا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اچھی نیت سے مہمان کی مہمان نوازی کرلیں۔ اچھے
سے مہمان نوازی کرنے سے محبت بڑھتی ہے۔
حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ مہمان کے لیے تکلف مت کرو کہ
تکلف سے اس کو برا جانو گے اور جو شخص مہمان کو برا جانتا ہے وہ اللہ کو برا جانتا
ہے اللہ اس کو برا جانتا ہے۔
اگر مہمان کے سامنے کھانا پیش کیا جائے تو اسے وقفے
وقفے سے کہنا چاہیے کہ اور کھالے مہمان سے کوئی ایسے سوال نہ کرے کہ آپ کو کھانا
اچھا لگا خوب پیٹ بڑھ کر کھایا جس سے جھوٹ کا اندیشہ ہو۔ اور مہمان مروت میں جھوٹی
تعریف کر دے۔
مہمان سے حسن اخلاق سے بات کرنی چاہیے۔
آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے پاس کوئی ملنے کے لیے
آئے تو اس کی تعظیم کرو۔
اعلیٰ اخلاقی اقدار اور روایات میں ایک بہترین
روایت مہمان نوازی ہے حضور ﷺ کے آباؤ اجداد اپنی سخاوت اور مہمان نوازی میں مشہور
تھے مہمان نوازی کے بارے میں قرآن و حدیث میں بہت سی تعلیمات موجود ہیں۔
مہمان نوازی کے حقوق:
1۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مہمان نوازی تین دن ہے اس
کے بعد صدقہ ہوگا جو مہمان کو دیا جائے گا تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کے ہاں
اتنے دن مہمانی پر مت ٹھہرے کہ گناہ میں ڈال دیں۔ اصحاب نے پوچھا یارسول الله ﷺ کس
طرح اس کو گناہ میں ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اس طرح کے اس کے اس
کے پاس زیادہ دن ٹھہرے کہ کچھ بھی باقی نہ بچے کہ وہ اس کے لئے کچھ خرچ کرے۔
2۔ جو شخص الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے
چاہیے کہ وہ مہمان کی خاطر کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)
3۔ میزبان کے لئے دعا کرنا: رسول الله ﷺ سعد بن
معاذ کے پاس تشریف لائے اور افطار کیا اور فرمایا: تمہارے پاس روزہ رکھنے والوں نے
افطار کیا اور تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور تمہارے لئے فرشتوں نے دعا کی۔ (ابو
داود، 5/661، حدیث: 3854)
4۔ سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی کسی کے ہاں
آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے
گناہ بخشے جانےکا سبب ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
5۔ مہمان کا میزبان سے اجازت لے کر جانا: حضرت
عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: اگر تو کسی کے گھر میں جائے تو صاحبِ خانہ کی اجازت
کے بغیر باہر نہ نکل جب تک تو اس کے پاس ہے وہ تیرا امیر ہے۔
آخر میں الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اچھے طریقے سے
مہمان نوازی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
مہمان کی آمدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق
پر تپاک استقبال کرنا، مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار محبت دینا اس کی عزت
کرنا اور اس سے احترام کے ساتھ پیش آنا اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش
فراہم کرنا اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا۔ اس کے ذاتی معاملات میں
دخل اندازی نہ کرنا مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اس کو اپنی حیثیت کے مطابق
پر تپاک استقبال کرنا مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار دینا۔
نبی کریم ﷺ کے اوصاف میں سے ایک وصف مہمان نوازی
بھی ہے نبی کریم ﷺ خود مہمانوں کی خدمت کرتے تھے، حتی کہ آپ نے قرض لے کر بھی مہمان
نوازی کی ہے۔
اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کا فرمان عظیم ہے: جو اللہ
اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اُسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ (بخاری،
4/105، حدیث: 6019)
علامہ ابن بطال فرماتے ہیں: مہمان کے اکرام میں سے
یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اور اسے اکیلے کھلا کر وحشت میں مبتلا نہ
کرو۔ ہر تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضیافت (مہمانی) کرو۔ (مراة
المناجیح، 6/52)
فرمان مصطفےﷺ ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں
خیر و برکت اس تیزی سے اُترتی ہے جتنی تیزی سے اونٹ کے کوہان تک چھری پہنچتی ہے۔ (ابن
ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ الله علیہ فرماتے
ہیں: اونٹ کے کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہوتی ہے اسے چھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے
اور اس کی تہ تک پہنچ جاتی ہے اس لیے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و
برکت بہت جلد پہنچتی ہے۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جب کوئی مہمان کسی
کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب
خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
مہمان کا
استقبال کرنا سنت سے ثابت ہے نبی پاک ﷺ کے پاس جب عبد القیس کا وفد آیا تو آپ نے
فرمایا: وفد کو خوش آمدید تم ہمارے ہاں آنے پر رسوا ہو گے نا ہی شرمندہ۔(بخاری، 4/41،
حدیث: 6176)
مہمان کو دیکھ کر منہ نا چڑھایا جائے کہ اب مہمان
آگئے ہیں تو اخراجات کرنے پڑیں گے بلکہ دل بڑا رکھے جب کسی کے ہاں مہمان آتا ہے تو
اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے
جانے کا سبب ہوتا ہے۔
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار
بارگاہ رسالت میں ایک مہمان حاضر ہوا آپ نے مجھے ایک یہودی سے ادھار غلہ لینے
کیلئے بھیجا مگر یہودی نے رہن کے بغیر آٹا نہ دیا تو آپ نے اپنی زرہ گروی رکھ کر
ادھار غلہ لیا۔(مسند البزار، 9/315، حدیث: 3863ملخصاً)
مہمانوں کی عزّت و تکریم اور خاطر تواضع اسلامی
معاشرے کی اعلیٰ تہذیب اور بلندیِ اَخلاق کی روشن علامت ہے۔ اسلام نے مہمان نوازی
کی بہت ترغیب دلائی ہے۔
مہمان کے اِکرام سے کیا مُراد ہے؟ حکیمُ
الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان (Guest)
کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے
لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے
ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔
علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر
وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت
(مہمانی) کرو۔ (مراۃ المناجیح، 6/52)
فرمانِ مصطفےﷺ ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں
خیرو برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔ (ابن
ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)
نبی پاک ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: جب کوئی مہمان کسی
کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ
خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے:آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے
لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا
تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک
کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے
مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال
کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے
ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں، جَنّۃُ الْخُلْداور نہ فنا ہونے
والی بادشاہی میں کھلائے۔(کنز العمال، جز9، 5/110، حدیث:25878)
تاجدارِ کائنات ﷺ خود مہمانوں کی خاطرداری فرماتے
تھےاور گھر میں کچھ نہ ہوتا تو اس کے لئے قَرْض لے لینا بھی ثابت ہے، چنانچہ حضرت ابو
رافع کا بیان ہے: ایک بار بارگاہِ رسالت میں ایک مہمان حاضر ہوا، آپ ﷺ نے مجھے ایک
یہودی سے اُدھار غلّہ لینے کیلئے بھیجا مگر یہودی نے رَہْن کے بغیر آٹا نہ دیا تو آپ
نے اپنی زرہ گروی رکھ کر ادھار غلّہ لیا۔ (مسند البزار، 9/315، حدیث: 3863ملخصاً)
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: آدمی اپنے مہمان کا استقبال دروازے سے باہر نکل کر کرے اور رخصت کے وقت
گھر کے دروازے تک پہنچائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)
امام نووی فرماتے ہیں: مہمان نوازی کرنا آداب اسلام
اور انبیا و صالحین کی سنت ہے۔ (شرح البخاری لابن بطّال،4/118)