نبی پاک ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ جب کوئی مہمان
کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو
صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان نوازی
کرنا آدابِ اسلام اور انبیاء و صالحین کی سنت ہے۔ (شرح النووی علی المسلم،2/18) حکیمُ
الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کا احترام یہ
ہے کہ اسے خندہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری
خدمات کا انتظام کرے حتی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت
کرے۔ (مراۃ المناجیح، 6/52)
مہمان کے حقوق: آمد کے وقت
اسے خوش آمدید کہنا، جانے کے وقت دروازہ تک چھوڑنے جانا، اس کے معمولات و ضروریات
کا انتظام کرنا جس سے ان کو راحت پہنچے، تواضع و تکریم ومدارات کے ساتھ پیش آنا، جتنا
ہو سکے بہتر کھانے کا انتظام کرنا، کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے، کھانے میں
اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا
زیادہ بہتر ہے، مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے
والوں میں سے جو چاہے کھالے، جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک
دسترخوان نہ اُٹھایاجائے، مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو
کیونکہ کفایت سے کم کھانا رکھنا مروت کے خلاف ہےاور ضرورت سے زیادہ رکھنا دکھلاوا
ہے۔ (احیاء العلوم، 2/21 تا 23 ملخصاً)
کم از کم تین روز تک اس کی مہمانداری کرنا، اتنا تو
اس کا ضروری حق ہے۔ جب وہ واپس جائے تو اسے دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔