مہمان نوازی ایمان کی علامت اور انبیائے کرام علیہم
السلام کی سنت ہے۔ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کا فرمان عظیم ہے: جو اللہ اور قیامت کے
دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)نبی کریم ﷺ کے اوصاف
میں سے ایک وصف مہمان نوازی بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ خود مہمانوں کی خدمت کرتے تھے۔ حتیٰ کہ آپ ﷺ نے قرض لے کر بھی مہمان
نوازی کی ہے۔
1۔ فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: آدمی جب اللہ پاک کی رضا کے
لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا
تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے۔ جو پورے ایک سال تک اللہ
پاک کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث:1641)
2۔ روایت ہے حضرت عقبہ ابن عامر سے فرماتے ہیں میں
نے نبی کريم ﷺ سے عرض کیا آپ ہم کو بھیجتے ہیں ! تو ہم ایسی قوم پر اترے ہیں جو
ہماری مہمانی نہیں کرتی تو حضور کیا حکم دیتے ہیں؟ تب ہم سے فرمایا کہ اگر تم کسی
قوم پر اترو پھر وہ تمہارے لیے وہ دیں جو مہمانوں کے لیے مناسب ہے تو قبول کر لو
اگر نہ کریں تو ان سے مہمان کا وہ حق لے لو جو مہمانوں کو مناسب ہے۔
3۔ سنت یہ ہے کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے
جائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)
4۔ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق
لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا
سبب ہوتا ہے۔ (كشف الخفا، 2/33، حدیث: 1641)
مہمان باعثِ رحمت ہوتے ہیں کہ یہ میزبان کے گناہ
بخشواتے ہیں اور مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا کارِ ثواب ہے یہ بات بالکل درست ہے کہ
مہمان کے آنے سے پہلے اسکا رزق میزبان کے گھر پہنچ جاتا ہے اسے وہی کھاتا ہے کوئی
اور نہیں کھا سکتا۔ مشہور کہاوت ہے: دانے دانے پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام!
مہمان نوازی کے سلسلے میں ہمارے پیارے پیارے آقا ﷺ
نے ہمیں اسلامی تعلیمات سے نوازا ہے۔
مہمان کے حقوق:
1۔ جو شخص الله پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا
ہے اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی عزت کرے۔ (بخاری،
4/105، حدیث: 6018)
2۔ مہمان نوازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میزبان
مہمان کو رخصت کرنے کے لئے دروازے تک جائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث:3358)
3۔ جو الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ
اپنے مہمان کا احترام کرے اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور دعوت تین دن ہے اس کے
بعد وہ صدقہ ہے مہمان کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی کہ اسے تنگ کر
دے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)
4۔ جو مہمان نواز نہیں اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ (مسند
امام احمد، 2/142، حدیث: 17424)
5۔ ایک دفعہ سرکارِ مدینہﷺ کے یہاں مہمان حاضر ہوا۔
تو آپ نے قرض لے کر اس کی مہمانی نوازی فرمائی۔ (سنتیں اور آداب، ص 108)
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله ﷺ
خود بھی مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے اور انکے آرام کا خیال رکھتے تھے اور اپنے
اصحاب کو بھی اس کی نصیحت فرماتے تھے لہٰذا مہمان کی مہمان نوازی کرنا ہمارے مکی
مدنی مصطفیٰ ﷺ کی سنتِ مبارکہ ہے۔
مہمان کا پورا اکرام یہ ہے کہ آتے جاتے اور دستر
خوان پر اسکے ساتھ خندہ پیشانی سے ملاقات کی جائے اور اچھی گفتگو کی جائے، مہمان
کے آنے پر خوشی کا اظہار کیا جائے اور واپسی پر اسے دروازے تک چھوڑنے جائے۔
مہمان کی دلجوئی کرنا، اس کو کھلانا پلانایہ سب سنت
ہے اور اس کے بہت سارے فضائل ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت ہی مہمان نواز تھے
آپ اس وقت تک کھانا تناول نہ فرماتے جب تک کسی مہمان کو شریک نہ کر لیتے۔ جب کبھی
مہمان آ جائے تو دل تھوڑا نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوش دلی کے ساتھ اس کی خاطر داری
کرنی چاہیے مہمان آ تا ہے تو اپنا رزق بھی ساتھ لے کر آتا ہے اس کی خدمت میں سراسر
ہمارا ہی فائدہ ہے۔ آئیے احادیث مبارکہ کی روشنی میں مہمان کے حقوق ملاحظہ فرمائیں:
1۔ مہمان کی مہمان نوازی کیجیے۔ آقا ﷺ نے فرمایا:
جو شخص اللہ اور اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی جائز مہمان
نوازی کرے لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ جائز سے کیا مرادہے؟آپ نے فرمایا ایک
دن اور ایک رات(اہتمام کے ساتھ دعوت کرنا)اور تین دن عام مہمان نوازی کرنا۔ اسکے
بعد(اگر وہ مہمان نوازی کرے) تو یہ اسکی طرف سے اس کے مہمان کے لیے صدقہ ہو گا۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)
2۔ میزبان مہمان کو دروازے تک الوداع کرنے کے لیے
جائے اور دوبارہ آنے کی دعوت دے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی کا اپنے مہمان کے
ساتھ گھر کے دروازے تک جانا سنت ہے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)
3۔ جب مہمان آئے تو منہ نہ چڑھائے، مہمان کو دیکھ
کر تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کرے کہ اب مہمان آ گئے ہیں تو اخراجات کرنے پڑیں گے بلکہ
دل بڑا رکھے۔
جب کسی کے یہاں مہمان آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا
ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کنز
العمال، 5/107، حدیث: 25831)
4۔ مہمانوں کا استقبال کرنا چاہیے۔ مہمان کا
استقبال کرنا سنت سے ثابت ہے نبی ﷺ کے پاس جب عبد القیس کا وفد آیا تو آپ نے
فرمایا وفد کو خوش آمدید تم ہمارے ہاں آنے پر رسوا ہو گے نہ ہی شرمندہ۔ (بخاری، 4/41،
حدیث: 6176)
5۔ جو مہمان نواز نہیں اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ (مسند
امام احمد، 2/142، حدیث: 17424)
ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے یہاں مہمان حاضر ہوا تو آپ
نے قرض لے کر اس کی مہمان نوازی فرمائی۔ (سنتیں اور آداب، ص108)
اللہ پاک ہم سب کو مہمان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔
مہمان الله کی رحمت ہوتے ہیں، مہمان اپنا رزق لے کر
آتا ہے اور میزبان کے گناہ بخشوانے کا سبب بنتا ہے۔ مہمان نوازی کرنا صحابہ کرام
کی بھی سنت مبارکہ ہے۔ مہمان کے ساتھ تواضع تکریم کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ مہمان کی
حرمت بذات خود اپنے ہاتھوں سے کریں۔ مہمان کے آجانے پر اپنا دل تنگ نہ کریں کیونکہ
مہمان الله کی رحمت ہوتے ہیں۔ جس نے مہمان کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا اس پر جنت
واجب ہوگئی۔ مہمان کو کھانا کھلانے سے گھروں سے بیماریاں اور مصیبتیں ختم ہو جاتی
ہیں۔ الله مہمان کو کھانا کھلانے سے 70 حاجتوں کو پورا کرتا ہے۔ مسلمان کو کھانا
کھلانے سے گھر والوں کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ مہمان نوازی بڑی ہی پیاری
سنت ہے۔ چنانچہ
(1) تاجدار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں
مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس طرح دوڑتی ہے جیسے چھری اونٹ کی کوہان پر، بلکہ
اس سے بھی تیز۔ (ابن ماجہ 4/51، حدیث: 3356)
(2) مہمان آتا ہے تواپنا رزق لے کر آتا ہےاور جاتا
ہے تو میزبان کے لئے گناہ معاف ہونے کا سبب ہوتا ہے۔ (فردوس الاحبار، 2/41، حدیث:3711)
(3) سرکار مدینہ ﷺ نے حضرت براء بن مالک رضی اللہ
عنہ سے ارشاد فرمایا: اے براء! آدمی جب اپنے بھائی کی اللہ کے لئے مہمانی کرتا ہے
اور اس کی کوئی جزا اور شکر یہ نہیں چاہتا تو الله اس کے گھر میں دس فرشتوں کو
بھیج دیتا ہے جو پورے ایک سال تک اللہ کی تسبیح وتہلیل اور تکبیر پڑھتے ہیں اور اس
کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور جب سال پورا ہو جاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے
سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ کے ذمہ
کرم پر ہے کہ اس کو جنت کی لذیذ غذا ئیں جنۃ الخلد اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی
میں کھلائے۔ (کنز العمال، جز9، 5/110، حدیث:25878)
(4) مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا سنت ہے۔ چنانچہ
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: سنت یہ
ہے کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)
(5) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شحص اللہ اورآخرت کے
دن پرایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت افزائی کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)
مہمان اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت ہے مہمان کی
مہمان نوازی کرنا حقوق العباد میں سے ہے اور سب سے بڑی بات سنت رسول ﷺ اور انبیاء
کرام ہے اس لیے مہمان کے آجانے پر اپنا دل تنگ نہ کر ے کیونکہ مہمان اللہ تعالیٰ
کی رحمت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر رحمت نازل فرماتا ہے جس کو پسند کرتا ہے۔
مہمان نوازی پر فرامینِ مصطفیٰ:
(1)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی اللہ اور آخرت کے
دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور
آخرت کے دن پر ایمان رکھتا وہ اپنے مہمان کی عزت کرے جو اللہ اور آخرت کے دن پر
ایمان رکھتا ہے اس چاہیے کی اچھی بات بولے یا خاموش رہے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)
(2) مہمان اپنا رزق لے کر آتا ہے۔ صاحب خانہ کے
گناہ لے کر جاتاہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
(3) جس نے کسی مومن کی مہمان نوازی کی یا اس کی
حاجات میں سے کوئی حاجت پوری کر دی تو اللہ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ جنت میں اسے
خدام عطا کرے۔
(4) جس طرح چھری اونٹ کے کوہان میں تیزی سے جاتی ہے
اس سے کہیں زیادہ تیزی سے بھلائی اس گھر میں آتی ہے، جس گھر میں مہمان کثرت سے آتے
ہوں۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)
(5) جو کوئی اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان
رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور ان کی مہمان نوازی کا اہتمام
کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)
اور مہمان کے لیے پر تکلف و لذیذ کھانا تیار کرنا
سنت ہے۔ (مراة المناجیح، 5/140)
خیال رکھیں گھر آئے مہمان کو کھانے پینے کے لیے
پوچھنا، آدھا انکار ہے، بغیر پوچھے جو کچھ دستیاب ہو سامنے رکھیں۔ اس سے گھر میں
برکت بھی آئے گی اور اللہ بھی خوب راضی ہو گا۔ ان شاء الله یہ بھی سچ ہے کہ مہمان
اپنا رزق لے کر آتا ہے اور صاحب خانہ کے گناہ لے کر جاتا ہے۔
آداب طور طریقے یہ مہمان اور میزبان دونوں کے لیے
ضروری ہے۔
حکایت: امام غزالی
رحمۃ اللہ علیہ ایک حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ایک آدمی کسی کے گھر پر مہمان کے
طور پر گیا۔ وقت گزر گیا دن ڈھل گیا شام ہو گئی تارے نظر آ گئے لیکن میزبان نے
مہمان کو خاطر مدارت کے لیے کچھ بھی پیش نہ کیا۔ پھر میزبان نے مہمان سے کہا میں
آپ کو کچھ ساز سناتا ہوں کو نسا ساز سننا پسند کریں گے؟ میزبان کے اس سوال پر
مہمان نے جواب دیا مجھے گوشت کے بھوننے کی آواز بہت پسند ہے۔
مہمان کے حقوق:
(1) مہمان کو کھانا جلد پیش کرنا چاہیے۔ اس کی خاطر
مدارت میں کمی نہیں کرنی چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو سکے خدمت کرنی چاہیے۔ مہمان نوازی
کرنا ہمارے پیارے آقا ﷺ اور انبیائے کرام کی سنت ہے۔
(2) مہمان کا استقبال کھڑے ہو کر کرنا چاہیے مہمان
کی خدمت اپنے ہاتھوں سے کرنی چاہیے۔
(3) مہمان اور میزبان کے حقوق انسان اپنے بڑوں سے
سیکھتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی اپنے مہمان کا
استقبال گھر سے باہر نکل کر کرے اور رخصت کے وقت گھر کے دروازے تک پہنچائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث:3358)
(4) مہمان کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ رحم دلی کے
ساتھ پیش آنا چاہیے اگر مہمان سے غلطی سے کوئی نقصان ہو جائے تو میزبان کو صبر سے
کام لینا چاہیے۔ مہمان کے کھانے پینے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے فرمان
آخری نبی ﷺ ہے کہ جس گھر میں مہمان ہو تو اس گھر میں خیر و برکت اس تیزی سے اترتی
ہے جتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چھری پہنچتی۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)
(5) مہمان کی حفاظت کرنی چاہیے اور مہمان کی خدمت دل
و جان سے کرنی چاہیے۔ اپنی طرف سے پوری کوشش کرنی چاہیے کہ مہمان کی خدمت میں کوئی
کسر نہ رہے۔
بچپن سے ہم اپنے بڑوں سے سُنتے آئیں ہیں کہ مہمان الله
کی رحمت ہوتے ہیں اور اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ مہمان ہمارے گناہ بخشوانے اور
نیکیاں کمانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اور یہ الله کی رحمت ہی تو ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جب
مہمان آئیں تو خندہ پیشانی سے مسکراتے ہوئے اُن کا اِستِقبَال کریں۔
نیز اب مہمان کے حقوق پر مشتمل چند ہدایات و
ملفوظات پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
1۔ جو الله اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہے اُسے
چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)
2۔ مہمان اپنا رزق لے کر آتا ہے اور صاحبِ خانہ کے
گناہ لے کر جاتا ہے۔ (بحار الانوار، 75/461)
شکر کر الله کا بد دل نہ ہو مہمان سے
رزق کھاتا ہے وہ اپنا تیرے دستر خوان
سے
3۔ جس نے کسی مومن کی مہمان نوازی کی یا اُس کی
حاجات میں سے کوئی حاجت پوری کر دی تو الله کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ جنت میں اُسے
خُدام عطا کرے۔ (مکارم اخلاق، ص 345، حدیث:94)
4۔ مہمان کے لئے پُر تکلف لذیذ کھانا تیار کرنا سنت
ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5/140)
5۔ مہمان نوازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میزبان
مہمان کو رخصت کرنے کے لئے دروازے تک جائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث:3358)
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اسلام نے ہمیں
ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اپنی تعلیمات سے نوازا ہے اور زندگی کے آداب سکھائے ہیں۔
نیز دوسروں کا خیال رکھنا بھی سکھایا ہے۔ لہذا میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی پسند
اور نا پسند کا خیال رکھے۔ ہر معاملے میں مہمان کی پسندیدگی کو ترجیح دے۔
الله سے دعا ہے کہ ہمیں مہمانوں کا احسن انداز میں
خیال رکھنے اور انہیں خوش کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
اسلام ایک مکمل دین ہے جو ہر شعبہ ہائے زندگی میں
ہماری رہنمائی فرماتا ہے۔جہاں دیگر معاملات میں اسلامی تعلیمات سے درس حاصل ہوتا
ہے وہیں ایک اہم موضوع حقوق العباد کا بھی ہے۔ اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کا فرمان ہے:
بے شک روز قیامت تمہیں اہلِ حقوق کو ان کے حق ادا کرنے ہوں گے حتٰی کہ بےسینگ والی
بکری کا سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔ (مسلم، ص 1394، حدیث: 2582)
مرآۃ میں ہے: جانور اگرچہ شرعی احکام کا مکلف نہیں
مگر حقوق العباد جانوروں کو بھی ادا کرنے ہوں گے۔ (مراۃ المناجیح، 6/674)
اے عاشقان رسول! حقوق العباد کی بہت اہمیت ہے ان
میں مہمانوں کے حقوق کے متعلق بھی ہمارا دین اسلام ہمیں تعلیمات ارشاد فرماتا۔ مہمانوں
کے حقوق کے متعلق بھی ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم مہمانوں کے حقوق کی ادائیگی میں
کہیں کوتاہی تو نہیں کررہے۔ مہمانوں کی خدمت ان کی مہمان نوازی تو سنتِ ابراہیمی
ہے۔ روایت ہے حضرت یحیی ابن سعید سے انہوں نے سعید ابن مسیب کو فرماتے سنا کہ رحمن
کے خلیل ابراہیم لوگوں میں پہلے وہ ہیں جنہوں نے مہمانوں کی مہمانی کی۔ (مراۃ
المناجیح، 6/329)
یہاں مہمانوں کے چند حقوق بیان کیے جاتے ہیں:
1۔ مہمان سے خوش دلی سے ملنا: مہمان
جب گھر پہ آئے تو اس کے ساتھ حسن سلوک کرے اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور منہ نہ
چڑھائے بلکہ مسلمان کا دل خوش کرنے کی نیت سے اس کے سامنے اظہارِ مسرت کرے کہ
مسلمان کا دل خوش کرنے کا بہت اجر ہے۔لہذا مہمان سے خوش دلی سے ملاقات کی جائے اور
اچھی جگہ بٹھایا جائے۔
2۔ مہمان کی خدمت کرنا: مہمان
نوازی میں مہمان کا حق یہ بھی ہے کہ جب مہمان گھر آئے تو اس کی اپنی طاقت کے مطابق
خاطر تواضع کرے کہ مہمان کی تعظیم و خاطر تواضع کو ایمان کی علامت و دلیل فرمایا
گیا ہے چنانچہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا
ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)
3۔ کھانا کھلانا: مہمان
کے حقوق میں ایک اہم حق اس کو کھانا کھلانا بھی ہے۔ اور مسلمان کو کھلانا بہت ثواب
کا کام ہے۔ روایت ہے حضرت ابو مالک اشعری سے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جنت میں
ایسے دریچے ہیں کہ جن کا باہر اندر سے اور اندر باہر سے دیکھاجاتا ہے یہ الله نے
ان کے لیئے بنائے جو بات نرم کریں اور کھانا کھلائیں۔ (مراۃ المناجیح، 2/471)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مبارک سنت تھی کہ جب
تک کوئی مہمان دستر خوان پر موجود نہ ہوتا آپ کھانا تناول نہ فرماتے۔
4۔ اچھی گفتگو کرنا: مہمان
سے اچھی گفتگو کرےایسی گفتگو نہ کرے جس سے اس کی دل آزاری ہو یا وہ کسی آزمائش میں
پڑے۔ جیسے اس کا کوئی عیب منہ پر بتاکر اصلاح کے بجائے اسے اس پہ شرمندہ کرنا۔ کسی
کی غیبت، چغلی اور برائی بیان کرکے خود کو اور مہمان کو بھی گناہوں کے کاموں میں
ڈالنا وغیرہ۔
اسے اس کی ضرورت کا پوچھنا اور پوری کرنا یہ بھی اس
کے حقوق میں ہیں اور اس لیے سوال کرنا کہ تاکہ اس کی ضرورت پوری کی جاسکے یہ بہت
اچھا ہے۔ مگر ہمارے ہاں بعض سوالات ایسے ہوتے ہیں جو مہمان کو جھوٹ جیسے برے اور
کبیرہ گناہ میں ڈال دیتے ہیں مثلاً پوچھنا کہ آپ کو ہمارا گھر کیسا لگا؟ کھانا
کیسا لگا؟ آپ نے پیٹ بھر کر کھایا؟ آپ کو کوئی سفر میں تکلیف تو نہیں ہوئی؟ وغیرہ اس
طرح کے فضول سوالات بے چارے مہمان کو آزمائش میں ڈال دیتے اور وہ مروت میں آکر
میزبان کی عزت کی خاطر بعض اوقات جھوٹ بول دیتا ہے۔ تو لہذا اس سے ہمیں بچنا چاہیے۔
5۔ مہمان کو دروازے تک چھوڑنا: مہمان
جب جانے لگے تو اس کے ساتھ دروازے یا گھر کی چوکھٹ تک جانا۔ اس سے مہمان کے دل میں
خوشی بھی داخل ہوگی اور سنت کی ادائیگی بھی ہوگی جی ہاں مہمان کو دروازے تک چھوڑنا
یہ سنت ہے چنانچہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ
گھر کے دروازے تک جائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)
اللہ پاک ہمیں بھی ان مبارک تعلیمات پر عمل کرتے
ہوئے مہمان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی برکتیں عطا فرمائے۔
آمین یارب العالمین
اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کا فرمان عظیم ہے: جو اللہ اور
قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)حکیم الامت مفتی احمد
یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: مہمان کا احترام (اکرام) یہ ہے کہ
اسے خندہ پیشانی (یعنی مسکراتے چہرے) سے ملے، اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا
انتظام کرے حتی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔ (مراۃ المناجیح، 6/118)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان نوازی
کرنا آدابِ اسلام اور انبیاء و صالحین کی سنت ہے۔ (شرح النووی علی المسلم، 2/18)
نبی پاک ﷺ نے فرمایا: جب کوئی مہمان کسی مہمان کے
یہاں آ تا ہے تو اپنا رزق لےکر آ تاہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ
کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
مہمان کے حقوق: کھانا حاضر
کرنے میں جلدی کی جائے، جب تک مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے دسترخوان نہ اٹھایا
جائے، مختلف قسم کے کھانے ہوں تو عمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے تاکہ
کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھا لے، مہمان کے سامنے اتنا کھانا رکھا جائے
جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفایت سے کم کھانا رکھنا مروت کے خلاف ہے اور ضرورت سے
زیادہ کھانا رکھنا بناوٹ و ریاکاری ہے، کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش
کئے جائے کیونکہ طبی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مفید ہے۔
فرمان نبوی ﷺ: اس شخص کے پاس خیر و برکت نہیں جس
میں مہمان نوازی نہیں۔ (مسند امام احمد، 2/142، حدیث: 17424)
حضور ﷺ سے پوچھا گیا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا
کہ کھانا کھلانا اور سلام کرنا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 652)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس گھر میں
مہمان داخل نہیں ہوتے اس گھر میں فرشتے بھی داخل نہیں ہوتے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص652)
مہمان کی فضیلت اور کھانا کھلانے کے بارے میں بے
شمار احادیث وارد ہوئی ہیں نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر مجھے گائے یا بکری
کی پتلی سی پنڈلی کی بھی دعوت دی جائے تو میں قبول کر لوں کا اور اگر مجھے جانور
کا دست ہدیہ کیا جائے تو میں قبول کر لوں گا۔ (بخاری، 2/ 166، حدیث: 2567)
مہمان کے حقوق:
(1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے۔
(2)کھانے
میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے
کھانا زیادہ مُوافِق ہے۔
(3)مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ
کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے۔
(4)جب تک
کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے۔
(5)مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں
کافی ہو کیونکہ کفایت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ
رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔
اور یہ بھی مناسب ہے کہ اس شخص کو دعوت دے جس کے متعلق
معلوم ہو کہ وہ اسے قبول کر لے گا۔
ایک انسان کے دوسرے انسان پر بے شمار حقوق ہیں ان
حقوق کو ہی حقوق العباد کہتے ہیں۔ حقوق العباد کا مطلب ہے وہ وہ تمام تمام کام جو
بندوں کو ایک دوسرے کیلئے کرنے ضروری ہیں ان حقوق کو پورا کرنا انسان کے ذمہ ہوتا
ہے ہمسایوں کے حقوق رشتہ داروں کے حقوق اسی طرح مہمانوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں
میزبان کو چاہیے کہ ان کے حقوق کا خاص خیال رکھے۔
مہمان نوازی پر احادیث مبارکہ:
فرمانِ مصطفیٰ ہے: آدمی جب الله پاک کی رضا کیلئے
اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو
الله پاک اس کے گھر میں دس فرشتے بھیجتا ہے۔ جو پورے ایک سال تک اللہ ہاں کی تسبیح
اور تکبیر پڑھتے اور اس بندے کیلئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہو
جاتا ہے تو فرشتے کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ اعمال میں عبادت لکھ
دی جاتی ہے اوراللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہے کہ اسے جنت کی پاک غذائیں جنت الخلد اور
نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں سے کھلائے۔(کنز العمال، جز9، 5/110، حدیث:25878)
فرمایا: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت
اس تیزی سے اُترتی ہے جتنی تیزی سے اونٹ کی کو ہان تک چھری پہنچتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کی مہمان نوازی کرنے
والا بھی الله پاک کی رحمت و فضل سے خالی نہیں رہتا یہ الله پاک کا اپنے بندوں پر
احسان ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے بندوں کو اپنی رحمت سے نوازتا ہے اور اسے ان کی
مغفرت کا ذریعہ بناتا ہے۔
مہمانوں کے حقوق: مہمانوں
کے بے شمار حقوق ہیں ان میں سے کچھ بیان کیے جاتے ہیں: مہمان جب گھر میں داخل ہو
تو اچھے طریقے سے اس کا استقبال کیا جائے۔ اپنی حیثیت کے مطابق اُسے کھانا کھلائے،
مہمان کو بھی چاہیے کہ یہ نہ کہے کہ اس سے اچھا تو میں اپنے گھر میں کھا لیتا تھا۔
نیز میزبان اس کی عزت و آبرو کا خیال رکھے میزبان مہمان کی پسند کا خیال رکھے۔ مہمان
کے حقوق میں ایک حق یہ بھی ہے کے میزبان مہمان کی اچھی رہائش کا انتظام کرے۔ اسی
طرح میزبان کو چاہیے کہ وقت نکال کر مہمان کے پاس بیٹھے اور چپ کر کے نہ بیٹھا رہے
بلکہ اس آنے والے سے باتیں کرتا رہے۔ میزبان کھانا رکھ کر غائب نہ ہو جائے بلکہ
مہمان کے پاس بیٹھا رہے تاکہ اس کو کسی چیز کی ضرورت نہ رہے۔
مہمانوں کی خاطر داری کرنا میزبان کا فرض ہے کیونکہ
مہمان الله پاک کی رحمت ہوتے ہیں ان سے گھر میں برکت آتی ہے ان کی میزبانی کرنا
سنت ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو
اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا
ہے۔(کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
مہمان نوازی کے متعلق واقعہ: ایک
عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور اپنے شوہر کی شکایت کی کہ وہ دوستوں کو گھر میں
دعوت دیتا رہتا ہے اور مہمانداری میں وہ تھک جاتی ہے ان کی مہمانداری میں کھانا
بنا بنا کر۔ رسول الله ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ عورت چلی گئی۔ پھر کچھ دیر
بعد رسول کریم ﷺ نے اس عورت کے شوہر کو بلوایا اور فرمایا آج میں تمہارا مہمان
ہوں۔ وہ آدمی بہت خوش ہوا اور گھر جا کر اپنی بیوی کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے
آج مہمان ہیں اس کی بیوی بھی بے حد خوش ہوئی اور وقت لگا کر محنت کرکے اپنے معزز
مہمان کے لیے کھانا تیار کیا، اس پرتکلف دعوت کے بعد رسول کریم ﷺ نے اس شخص سے کہا
کہ اس اپنی بیوی سے کہنا کہ اس دروازے کو دیکھتی رہے جس سے میں جاؤں گا تو اس کی
بیوی نے ایسا ہی کیا اور دیکھتی رہی کہ کس طرح رسول اللہ ﷺ اس کے گھر سے نکلتے ہیں،
آپ ﷺ کے پیچھے بہت سے حشرات، بچھو اور بہت سے مہلک حشرات بھی گھر سے باہر نکل گئے
اور یہ منظر دیکھ کر وہ عورت بے ہوش ہوگئی اور جب ہوش آیا تو آپ ﷺ کے پاس آئی آپ
نے فرمایا کہ جب تمہارے گھر سے مہمان جاتا ہے تو ہر طرح کے مشکلات اور آزمائشیں
اور مہلک امراض گھر سے باہر لے جاتا ہے اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ تم محنت کر کے
اسکی خدمت مدارت کرتی ہو جس گھر میں مہمان آتے جاتے رہتے ہیں اللہ اس گھر سے محبت
کرتا ہے اس گھر سے بہتر کیا ہو کے جو ہر چھوٹے بڑے کیلئے کھلا ر ہے۔ ایسے گھر پر
اللہ کی خاص رحمتیں اور بخشش نازل ہوتی رہتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب الله کسی کی بھلائی چاہتا
ہے تو اسے نوازتا ہے انہوں نے پوچھا کس انعام سے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مہمان اپنا نصیب
خود لے کر آتا ہے جاتے ہوئے گھر والوں کے گناہ اپنے ساتھ لے جاتا ہے، (تنبیہات، ص 180)
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں مہمان ہو
اس گھر میں خیر و برکت اسی طرح دوڑتی ہے جیسے اونٹ کے کوہان پر چھری، بلکہ اس سے
بھی تیز۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)
چھری اونٹ کے کوہان پر رکھ دیں تو فوراً لڑھک کر
نیچے کی طرف آجاتا ہے مہمان کی وجہ سے خیر و برکت اس سے بھی تیزی سے نازل ہوتی ہے
مہمان میزبان کے گناہ معاف ہونے کا سبب ہوتا ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان نوازی
کرنا آدابِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنت ہے۔