آداب طور طریقے یہ مہمان اور میزبان دونوں کے لیے
ضروری ہے۔
حکایت: امام غزالی
رحمۃ اللہ علیہ ایک حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ایک آدمی کسی کے گھر پر مہمان کے
طور پر گیا۔ وقت گزر گیا دن ڈھل گیا شام ہو گئی تارے نظر آ گئے لیکن میزبان نے
مہمان کو خاطر مدارت کے لیے کچھ بھی پیش نہ کیا۔ پھر میزبان نے مہمان سے کہا میں
آپ کو کچھ ساز سناتا ہوں کو نسا ساز سننا پسند کریں گے؟ میزبان کے اس سوال پر
مہمان نے جواب دیا مجھے گوشت کے بھوننے کی آواز بہت پسند ہے۔
مہمان کے حقوق:
(1) مہمان کو کھانا جلد پیش کرنا چاہیے۔ اس کی خاطر
مدارت میں کمی نہیں کرنی چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو سکے خدمت کرنی چاہیے۔ مہمان نوازی
کرنا ہمارے پیارے آقا ﷺ اور انبیائے کرام کی سنت ہے۔
(2) مہمان کا استقبال کھڑے ہو کر کرنا چاہیے مہمان
کی خدمت اپنے ہاتھوں سے کرنی چاہیے۔
(3) مہمان اور میزبان کے حقوق انسان اپنے بڑوں سے
سیکھتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی اپنے مہمان کا
استقبال گھر سے باہر نکل کر کرے اور رخصت کے وقت گھر کے دروازے تک پہنچائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث:3358)
(4) مہمان کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ رحم دلی کے
ساتھ پیش آنا چاہیے اگر مہمان سے غلطی سے کوئی نقصان ہو جائے تو میزبان کو صبر سے
کام لینا چاہیے۔ مہمان کے کھانے پینے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے فرمان
آخری نبی ﷺ ہے کہ جس گھر میں مہمان ہو تو اس گھر میں خیر و برکت اس تیزی سے اترتی
ہے جتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چھری پہنچتی۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)
(5) مہمان کی حفاظت کرنی چاہیے اور مہمان کی خدمت دل
و جان سے کرنی چاہیے۔ اپنی طرف سے پوری کوشش کرنی چاہیے کہ مہمان کی خدمت میں کوئی
کسر نہ رہے۔