مہمان باعثِ رحمت ہوتے ہیں کہ یہ میزبان کے گناہ
بخشواتے ہیں اور مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا کارِ ثواب ہے یہ بات بالکل درست ہے کہ
مہمان کے آنے سے پہلے اسکا رزق میزبان کے گھر پہنچ جاتا ہے اسے وہی کھاتا ہے کوئی
اور نہیں کھا سکتا۔ مشہور کہاوت ہے: دانے دانے پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام!
مہمان نوازی کے سلسلے میں ہمارے پیارے پیارے آقا ﷺ
نے ہمیں اسلامی تعلیمات سے نوازا ہے۔
مہمان کے حقوق:
1۔ جو شخص الله پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا
ہے اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی عزت کرے۔ (بخاری،
4/105، حدیث: 6018)
2۔ مہمان نوازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میزبان
مہمان کو رخصت کرنے کے لئے دروازے تک جائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث:3358)
3۔ جو الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ
اپنے مہمان کا احترام کرے اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور دعوت تین دن ہے اس کے
بعد وہ صدقہ ہے مہمان کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی کہ اسے تنگ کر
دے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)
4۔ جو مہمان نواز نہیں اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ (مسند
امام احمد، 2/142، حدیث: 17424)
5۔ ایک دفعہ سرکارِ مدینہﷺ کے یہاں مہمان حاضر ہوا۔
تو آپ نے قرض لے کر اس کی مہمانی نوازی فرمائی۔ (سنتیں اور آداب، ص 108)
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله ﷺ
خود بھی مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے اور انکے آرام کا خیال رکھتے تھے اور اپنے
اصحاب کو بھی اس کی نصیحت فرماتے تھے لہٰذا مہمان کی مہمان نوازی کرنا ہمارے مکی
مدنی مصطفیٰ ﷺ کی سنتِ مبارکہ ہے۔
مہمان کا پورا اکرام یہ ہے کہ آتے جاتے اور دستر
خوان پر اسکے ساتھ خندہ پیشانی سے ملاقات کی جائے اور اچھی گفتگو کی جائے، مہمان
کے آنے پر خوشی کا اظہار کیا جائے اور واپسی پر اسے دروازے تک چھوڑنے جائے۔