مہمان کی دلجوئی کرنا، اس کو کھلانا پلانایہ سب سنت
ہے اور اس کے بہت سارے فضائل ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت ہی مہمان نواز تھے
آپ اس وقت تک کھانا تناول نہ فرماتے جب تک کسی مہمان کو شریک نہ کر لیتے۔ جب کبھی
مہمان آ جائے تو دل تھوڑا نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوش دلی کے ساتھ اس کی خاطر داری
کرنی چاہیے مہمان آ تا ہے تو اپنا رزق بھی ساتھ لے کر آتا ہے اس کی خدمت میں سراسر
ہمارا ہی فائدہ ہے۔ آئیے احادیث مبارکہ کی روشنی میں مہمان کے حقوق ملاحظہ فرمائیں:
1۔ مہمان کی مہمان نوازی کیجیے۔ آقا ﷺ نے فرمایا:
جو شخص اللہ اور اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی جائز مہمان
نوازی کرے لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ جائز سے کیا مرادہے؟آپ نے فرمایا ایک
دن اور ایک رات(اہتمام کے ساتھ دعوت کرنا)اور تین دن عام مہمان نوازی کرنا۔ اسکے
بعد(اگر وہ مہمان نوازی کرے) تو یہ اسکی طرف سے اس کے مہمان کے لیے صدقہ ہو گا۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)
2۔ میزبان مہمان کو دروازے تک الوداع کرنے کے لیے
جائے اور دوبارہ آنے کی دعوت دے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی کا اپنے مہمان کے
ساتھ گھر کے دروازے تک جانا سنت ہے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)
3۔ جب مہمان آئے تو منہ نہ چڑھائے، مہمان کو دیکھ
کر تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کرے کہ اب مہمان آ گئے ہیں تو اخراجات کرنے پڑیں گے بلکہ
دل بڑا رکھے۔
جب کسی کے یہاں مہمان آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا
ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کنز
العمال، 5/107، حدیث: 25831)
4۔ مہمانوں کا استقبال کرنا چاہیے۔ مہمان کا
استقبال کرنا سنت سے ثابت ہے نبی ﷺ کے پاس جب عبد القیس کا وفد آیا تو آپ نے
فرمایا وفد کو خوش آمدید تم ہمارے ہاں آنے پر رسوا ہو گے نہ ہی شرمندہ۔ (بخاری، 4/41،
حدیث: 6176)
5۔ جو مہمان نواز نہیں اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ (مسند
امام احمد، 2/142، حدیث: 17424)
ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے یہاں مہمان حاضر ہوا تو آپ
نے قرض لے کر اس کی مہمان نوازی فرمائی۔ (سنتیں اور آداب، ص108)
اللہ پاک ہم سب کو مہمان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔