اسلام ایک مکمل دین ہے جو ہر شعبہ ہائے زندگی میں
ہماری رہنمائی فرماتا ہے۔جہاں دیگر معاملات میں اسلامی تعلیمات سے درس حاصل ہوتا
ہے وہیں ایک اہم موضوع حقوق العباد کا بھی ہے۔ اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کا فرمان ہے:
بے شک روز قیامت تمہیں اہلِ حقوق کو ان کے حق ادا کرنے ہوں گے حتٰی کہ بےسینگ والی
بکری کا سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔ (مسلم، ص 1394، حدیث: 2582)
مرآۃ میں ہے: جانور اگرچہ شرعی احکام کا مکلف نہیں
مگر حقوق العباد جانوروں کو بھی ادا کرنے ہوں گے۔ (مراۃ المناجیح، 6/674)
اے عاشقان رسول! حقوق العباد کی بہت اہمیت ہے ان
میں مہمانوں کے حقوق کے متعلق بھی ہمارا دین اسلام ہمیں تعلیمات ارشاد فرماتا۔ مہمانوں
کے حقوق کے متعلق بھی ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم مہمانوں کے حقوق کی ادائیگی میں
کہیں کوتاہی تو نہیں کررہے۔ مہمانوں کی خدمت ان کی مہمان نوازی تو سنتِ ابراہیمی
ہے۔ روایت ہے حضرت یحیی ابن سعید سے انہوں نے سعید ابن مسیب کو فرماتے سنا کہ رحمن
کے خلیل ابراہیم لوگوں میں پہلے وہ ہیں جنہوں نے مہمانوں کی مہمانی کی۔ (مراۃ
المناجیح، 6/329)
یہاں مہمانوں کے چند حقوق بیان کیے جاتے ہیں:
1۔ مہمان سے خوش دلی سے ملنا: مہمان
جب گھر پہ آئے تو اس کے ساتھ حسن سلوک کرے اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور منہ نہ
چڑھائے بلکہ مسلمان کا دل خوش کرنے کی نیت سے اس کے سامنے اظہارِ مسرت کرے کہ
مسلمان کا دل خوش کرنے کا بہت اجر ہے۔لہذا مہمان سے خوش دلی سے ملاقات کی جائے اور
اچھی جگہ بٹھایا جائے۔
2۔ مہمان کی خدمت کرنا: مہمان
نوازی میں مہمان کا حق یہ بھی ہے کہ جب مہمان گھر آئے تو اس کی اپنی طاقت کے مطابق
خاطر تواضع کرے کہ مہمان کی تعظیم و خاطر تواضع کو ایمان کی علامت و دلیل فرمایا
گیا ہے چنانچہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا
ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)
3۔ کھانا کھلانا: مہمان
کے حقوق میں ایک اہم حق اس کو کھانا کھلانا بھی ہے۔ اور مسلمان کو کھلانا بہت ثواب
کا کام ہے۔ روایت ہے حضرت ابو مالک اشعری سے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جنت میں
ایسے دریچے ہیں کہ جن کا باہر اندر سے اور اندر باہر سے دیکھاجاتا ہے یہ الله نے
ان کے لیئے بنائے جو بات نرم کریں اور کھانا کھلائیں۔ (مراۃ المناجیح، 2/471)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مبارک سنت تھی کہ جب
تک کوئی مہمان دستر خوان پر موجود نہ ہوتا آپ کھانا تناول نہ فرماتے۔
4۔ اچھی گفتگو کرنا: مہمان
سے اچھی گفتگو کرےایسی گفتگو نہ کرے جس سے اس کی دل آزاری ہو یا وہ کسی آزمائش میں
پڑے۔ جیسے اس کا کوئی عیب منہ پر بتاکر اصلاح کے بجائے اسے اس پہ شرمندہ کرنا۔ کسی
کی غیبت، چغلی اور برائی بیان کرکے خود کو اور مہمان کو بھی گناہوں کے کاموں میں
ڈالنا وغیرہ۔
اسے اس کی ضرورت کا پوچھنا اور پوری کرنا یہ بھی اس
کے حقوق میں ہیں اور اس لیے سوال کرنا کہ تاکہ اس کی ضرورت پوری کی جاسکے یہ بہت
اچھا ہے۔ مگر ہمارے ہاں بعض سوالات ایسے ہوتے ہیں جو مہمان کو جھوٹ جیسے برے اور
کبیرہ گناہ میں ڈال دیتے ہیں مثلاً پوچھنا کہ آپ کو ہمارا گھر کیسا لگا؟ کھانا
کیسا لگا؟ آپ نے پیٹ بھر کر کھایا؟ آپ کو کوئی سفر میں تکلیف تو نہیں ہوئی؟ وغیرہ اس
طرح کے فضول سوالات بے چارے مہمان کو آزمائش میں ڈال دیتے اور وہ مروت میں آکر
میزبان کی عزت کی خاطر بعض اوقات جھوٹ بول دیتا ہے۔ تو لہذا اس سے ہمیں بچنا چاہیے۔
5۔ مہمان کو دروازے تک چھوڑنا: مہمان
جب جانے لگے تو اس کے ساتھ دروازے یا گھر کی چوکھٹ تک جانا۔ اس سے مہمان کے دل میں
خوشی بھی داخل ہوگی اور سنت کی ادائیگی بھی ہوگی جی ہاں مہمان کو دروازے تک چھوڑنا
یہ سنت ہے چنانچہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ
گھر کے دروازے تک جائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)
اللہ پاک ہمیں بھی ان مبارک تعلیمات پر عمل کرتے
ہوئے مہمان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی برکتیں عطا فرمائے۔
آمین یارب العالمین