مثال کی اہمیت اور حکمت: مثال کی اہمیت تعلیم و تربیت میں بہت بنیادی حیثیت رکھتی ہے، جب کوئی بات ذہنی طور پر مشکل ہو، تو مثال اسے سادہ اور قابلِ فہم بنا دیتی ہے۔مثال دینا تربیت کا نہایت حکیمانہ طریقہ ہے۔ یہ بات کو واضح کرتی ہے،یادگار بناتی ہے،سننے والے کی دلچسپی قائم رکھتی ہےاور دل و دماغ دونوں کو متاثر کرتی ہے۔انسانی دماغ تصویری یا عملی مثالوں کے ذریعے سمجھائی جانے والی بات کوجلدی سمجھتا اور زیادہ عرصہ یاد رکھتا ہے۔

حضور اکرم ﷺ کا اندازِ تربیت نہایت مؤثر اور محبت پر مبنی ہے، سرکار مدینہ ﷺ نے نرمی، مثالوں، سوال و جواب اور عملی نمونہ کے ذریعے لوگوں کی تربیت فرمائی۔ یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم و تربیت کے لیے مثال کے ذریعے سمجھانے کو کثرت سے استعمال فرمایا۔ ذیل میں احادیث مبارکہ سے کچھ حکمت آموز مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:

پہلی مثال : صحبت کا اثر : حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے برے ساتھی کی مثال مشک کے اٹھانے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے۔ مشک بردار یا تمہیں کچھ دے دے گا یا تم اس سے خرید لو گے اور یا تم اس سے اچھی خوشبو پالو گے۔ اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلادے گا اور یا تم اس سے بدبو پاؤ گے ۔ (بخاری، کتاب البیوع باب فی العطار وبيع المسک ۲/۲۰، الحدیث: (۲۱۰۱)

بیان کردہ حدیث مبارکہ کی تشریح وتوضیح کرتے ہوئے ، حکیم الامت مُفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:سُبْحٰنَ اللہ(عَزَّ وَجَلَّ)!کیسی پاکیزہ مثال ہے جس کے ذریعے سمجھایا گیا ہے کہ بُروں کی صحبت فائدہ اور اچھوں کی صحبت نُقصان کبھی نہیں دے سکتی،بھٹّی والے سے مُشک نہیں ملے گا گرمی اور دُھواں ہی ملے گا،مُشک والے سے نہ گرمی ملے نہ دھواں مُشک یا خوشبو ہی ملے گی۔(حدیثِ پاک کے اس حصے”مُشک والا یا تو تجھے مُشک ویسے ہی دے گا یاتُو اس سے خرید لے گا، اور کچھ نہ سہی تو خوشبو توآئے گی“ کی شرح میں مفتی صاحب فرماتے ہیں:)یہ اَدنیٰ نفع کا ذکر ہے ،مشک خرید لینا یا اس کا مُفت ہی دے دینا اعلیٰ نفع ہے جس سے ہمیشہ فائدہ پہنچتا رہے گا اور صرف خوشبو پالینا اَدنیٰ نفع ہے۔خیال رہے کہ ابُوجہل وغیرہ دشمنانِ رسول،حضور(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے پاس حاضر ہوئے ہی نہیں، وہاں حاضری مَحَبَّت سے حاصل ہوتی ہے۔(حدیثِ پاک کے اس حصے”اور وہ دوسرا تیرے کپڑے جلادے گا یاتُو اس سے بدبوپائے گا“کی وضاحت میں مفتی صاحب فرماتے ہیں:)اس فرمانِ عالی کا مقصد یہ ہے کہ حتَّی الْامکان بُری صحبت سے بچو کہ یہ دِین و دنیا برباد کردیتی ہے اور اچھی صحبت اختیار کرو کہ اس سے دِین و دُنیا سنبھل جاتے ہیں۔ سانپ کی صحبت جان لیتی ہے،بُرے یار کی صحبت ایمان برباد کردیتی ہے۔(مرآۃ المناجیح،۶/۵۹۱)

دوسری مثال : مسلمانوں کے حقوق اور اُن کی عظمت کا بیان: مسلم شریف میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَكىٰ مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعىٰ لَهٗ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى ترجمہ: مؤمنوں کی مثال ایک دوسرے کے ساتھ محبت، رحمت اور شفقت کرنے میں جسم کی طرح ہے، جب اس کا ایک حصہ بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم بےخوابی اور بخار میں اس کے ساتھ شریک ہوجاتا ہے۔ (مسلم، ص١٠٧١، باب تراحم المؤمنین وتعاطفھم وتعاضدھم،حدیث:٦٥٧٦)

عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : “ علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ بخار ایک حرارتِ غریبہ ہے جو دِل میں پیدا ہوتی ہےاور پورے بدن میں پھیل جاتی ہےجس سے پورے بدن کو تکلیف ہوتی ہے۔ اِس حدیث پاک میں مسلمانوں کے حقوق کی تعظیم ، ایک دوسرے کی مددکرنےاور ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کرنے کادرس دیاگیاہے۔‘‘

فقیہ اَعظم ، حضرت علامہ ومولانا مفتی شریف الحق اَمجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القوی فرماتے ہیں : ’’یعنی تکلیف اور راحت میں تمام اَعضاء آپس میں موافق ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو دُکھ میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔ اِس حدیث سے مسلمانوں کے حقوق کی عظمت ، اُن کی معاونت اور ایک دوسرے سے شفقت واضح ہوتی ہے۔ ‘‘ (فيضان رياض الصالحین جلد : ٣,باب حرمت مسلمین کی تعظیم کا بیان۔ حدیث نمبر : ٢٢٤)

تیسری مثال: گناہوں سے پاک ہونے کا آسان طریقہ : عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ كَمَثَلِ نَهْرٍ جَارٍ غَمْرٍ عَلَى بَابِ اَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ مِنْهُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنا جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ” پانچوں نمازوں کی مثال اس بھری ہوئی نہر کی طرح ہے جو تم میں سے کسی کے دروازے کے پاس سے گزر رہی ہواور وہ اس میں ایک دن میں پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو ۔ (فيضان رياض الصالحین جلد :٤, حدیث نمبر : ٤٢٩)

اس حدیث پاک میں فرمایا: ” کہ جو نہر تم میں سے کسی کے دروازے کے پاس سے گزر رہی ہو ۔ “یعنی جس طرح گھر کے دروازے پر موجود نہر تک تم با آسانی پہنچ سکتے اور اس میں نہاکر اپنا میل کچیل دُور کر سکتے ہو اِسی طرح نماز تک پہنچنے کے لیے تمہیں کوئی مشکل جھیلنے کی ضرورت نہیں ، تم باآسانی نماز پڑھ کر اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کر سکتے ہو ۔نماز یا دیگر عبادات سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں کبیرہ گناہ توبہ سے ہی معاف ہوتے ہیں ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پانچوں نمازیں باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ پہلی صف میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، نمازوں کی برکت سے ہمارے تمام صغیرہ کبیرہ گناہوں کو معاف فرمائے ۔

(نوٹ: اس موضوع پر کتب احادیث میں کئی اور مثالیں بھی موجود ہیں ۔جن میں حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے امت کی اصلاح و رہنمائی کے لیے مثال کے ساتھ تربیت فرمائی ہے۔)