محمد طحہ جاوید ( درجہ ثانیہ جامعۃ
المدینہ فیضانِ بہارِ مدینہ اورنگی کراچی ، پاکستان)
اسلام ایک
مکمل ضابطۂ حیات ہے جو نہ صرف عقائد،عبادات اور معاملات کو سنوارتا
ہے بلکہ تربیتِ نفس اور حسنِ سلوک کی بھی بنیاد فراہم کرتا ہے۔نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ انسانیت کے لیے کامل نمونہ ہے جنہیں
اللہ تبارک و تعالٰی نے نہ صرف وحی کا حامل بنا
کر بلکہ ”معلّمِ انسانیت“ بنا
کر بھی مبعوث فرمایا ۔ فرمان مصطفی ﷺ ہے : اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلَّمًا
ترجمہ : بیشک
مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (سنن ابنِ ماجہ،کتاب السنہ، باب : فضل العلماء
والحث علی طلب العلم،حدیث نمبر: 229 ، صفحہ نمبر 75 )
آپ ﷺ کی تعلیمات میں مثالوں سے تربیت فرمانا ، ایک عظیم اسلوب ہے ،آپﷺ نے تعلیم و تربیت کا وہ حسین
و مؤثر انداز و اسلوب اپنایا جس میں نہ تو جبر تھا اور نہ ہی
سختی تھی بلکہ محبت ،تمثیل ،تشبیہ اور حکمتیں تھی آپ ﷺ نے معرفتِ خدا سے لیکر
زندگی گزارنے کے ہر پہلو کی مثالوں سے تربیت فرمائی تاکہ لوگوں کے قلوب و اذہان میں بات اتر جائےاور با آسانی
سمجھ آجائے۔ یہ مضمون انہی مثالی اندازِ تربیتِ نبویﷺ کی عکاسی کرے گا۔
(1)
ختم نبوت کی مثال : اسی طرح جب
آپ ﷺ نے انبیا اور اپنے آخری نبی ہونے کی تعلیم و تربیت فرمائی تو
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : میری اور مجھ سے پہلے تمام انبیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت و زیبائش سے اس کو آراستہ کیا لیکن
کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ
گئی اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے
گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑجاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر
ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔ (صحیح
بخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین ﷺ ، حدیث نمبر : 3535، صفحہ نمبر 1619 )
یہ
مثال واضح کرتی ہے کہ آپ ﷺ نے انبیائے کرام کی عمارت کو مکمل کرنے والی آخری اینٹ
کی حیثیت سے خود کو بیان فرمایا ۔یہ ختمِ نبوت کا بیان نہایت
خوبصورت تشریحی انداز ہے جو عقیدے کو واضح اور مضبوط بناتا ہے۔
(3)
رحمۃ للعالمین کی صفت کی مثال : اسی طرح جب آپ نے جہنم کی بات سمجھانی چاہی اور اپنی رحمت و شفقت کی تعلیم و تربیت
فرمائی تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: میری
اور لوگوں کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس نے آگ جلائی ،جب اس کے چاروں طرف روشنی
ہوگئی تو پروانے اور کیڑے مکوڑے جو آگ پر گِرتے ہیں اس میں گِرنے لگے اور آگ
جلانے والا انہیں اس میں سے نکالنے لگا لیکن وہ اس کے قابو میں نہیں آئے اور آگ میں
گرتے رہے اسی طرح میں تمہاری کمر کو پکڑ کر آگ سے تمہیں نکالتا
ہوں اور تم ہو کہ اسی میں گرتے جاتے ہو۔( صحیح البخاری،کتاب الرقاق، باب الانتھاء
عن المعاصی، حدیث نمبر: 6483، صفحہ نمبر 2866
)
اس
مثال میں نبی کریم ﷺ نے بتایا کہ جیسے ایک شخص آگ جلا کر کیڑے مکوڑے کو اس سے
بچانے کی کوشش کرے ویسے ہی آپﷺ لوگوں کو جہنم سے بچانے کے لئے روک رہے ہیں۔ یہ آپﷺ
کی رحمت و شفقت کی اعلی مثال ہے۔
(4)
مومن کی مثال : اسی طرح جب آپ نے
مومن کی صفات سمجھانی چاہی اور مومن کو کس طرح ہونا چاہئے اس
کی تربیت فرمائی تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا : مومن کی مثال پودے
کی پہلی نکلی ہوئی ہری شاخ جیسی ہے کہ جب بھی ہوا چلتی ہے اسے جھکا دیتی ہے پھر وہ
سیدھا ہو کر مصیبت برداشت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور بدکار کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ سخت ہوتا ہے اور سیدھا کھڑا
رہتا ہے یہاں تک اللہ تعالٰی جب چاہتا ہے اسے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ (صحیح
البخاری، کتاب المرضی، باب ما جاء فی کفارۃ المرض، حدیث نمبر : 5644، صفحہ نمبر 2548 )
یہ مثال مومن
کی صبر اور عاجزی کی تعلیم دیتی ہے کہ مومن آزمائشوں میں
جھکتا رہتا ہے مگر پھر اٹھتا ہے ، جیسے فصلیں جھکتی اور سنبھلتیں ہیں لیکن جو شخص
تکبر کرتا ہے بدکار ہوتا ہے تو اللہ اسے برباد کر دیتا ہے ۔
Dawateislami