اسلام میں مہمان کو اللہ کی رحمت قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے بیٹی کو بھی اللہ کی رحمت قرار دیا ہے اور ہم دعاؤں میں بھی اللہ کی رحمت کے طلبگار رہتے ہیں۔ مہمان کی عزت و احترام اور خاطر تواضع کرنا انبیائے کرام کی سنت ہے۔ اگرچہ میزبان اس سے واقف بھی نہ ہو۔ رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ مہمان کا احترام کرے۔  (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

آپ ﷺ خود بہت مہمان نواز تھے۔ آپ ﷺ اپنے مہمانوں سے بہت عزت سے پیش آتے۔ ان کی خوب خاطر مدارت کرتے۔ان کے ساتھ وقت گزارتے۔جاتے ہوئے انہیں تحفے تحائف دیتے اور انتہائی عزت سے انہیں رخصت فرماتے۔

ایک دفعہ ایک بھوکا شخص حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کھانے کے لیے درخواست کی۔آپﷺ نے تمام ازواج مطہرات سے پتا کروایا لیکن کھانے کے لیے کچھ میسر نہ تھا۔ آپ ﷺ کے حکم پر ایک صحابی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے پاس مہمان ٹھرالیا لیکن ان کے ہاں بھی کھانا بہت کم تھا۔یا تو مہمان کھا سکتا تھا یا حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے بچے لہذا انہوں نے بچوں کو بہلا کر سلا دیا اور کھانا مہمان کے سامنے رکھ دیا۔ ان کے کہنے پر ان کی بیوی نے کسی بہانے سے چراغ بجھا دی۔ اس سے میزبان تو خالی منہ ہلاتے رہے اور مہمان نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھالیا۔اگلی صبح حضورﷺ نے ابو طلحہ کو فرمایا کہ آپ کی میزبانی اللہ تعالی کو بے حد پسند آئی۔ (بخاری، 3/348، حدیث: 4889)

حضور ﷺ نے مہمان اور میزبان دونوں کیلیے احکامات ارشاد فرمائے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

مہمان ایک دن اور ایک رات یعنی 24 گھنٹے تک مہمان ہے۔اس دوران اس کی حتی المقدور خدمت کرنی چاہیے یعنی روٹین سے ہٹ کر اس کے لیے کچھ خاص کھانے کا بندوبست کیا جائے لیکن حضور ﷺ نے مہمان کے لیے اپنی حیثیت سے بڑھ کر یعنی اسراف کی حد تک خرچہ کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے اور ایسے میزبان کو دوزخ میں جانے کی وعید سنائی ہے۔

مہمان زیادہ سے زیادہ تین دن اور تین رات تک مہمان ہو گا لیکن پہلے دن کے بعد اس کو روٹین والا کھانا دیا جائے گا۔ تین دن کے بعد مہمان پر جو خرچ کیا جائے گا وہ صدقہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہمان کو عام حالات میں تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرنا چاہیے۔

مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کی جان، مال اور عزت کی ایسے ہی حفاظت کرے جیسے وہ اپنی کرتا ہے۔میزبان کو حکم ہے کہ مہمان کے ساتھ نہ چپکا رہے کیونکہ اس طرح مہمان کو آرام کرنے کا تو موقع ہی نہیں مل سکے گا۔

مہمان کو جاتے ہوئے کچھ (بے شک وہ قیمتی نہ ہو)بھی دیں تو اچھی بات ہے۔

جاتے ہوئے مہمان کو گھر کے دروازے تک یا کچھ دور تک ساتھ چھوڑنا بھی سنت ہے۔(ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

مہمان کو چاہیے کہ اپنے میزبان کے لیے دعائیں کرے۔