ہمارا پیارا مذہب اسلام انسان کے بنیادی حقوق کے
تحفظ کا ضامن اور علمبردار ہے۔ اسلام نے ہر انسان کے ہر حیثیت و رشتے کے لحاظ سے حقوق
و فرائض ایسے خوبصورت پیرائے/انداز میں بیان کیے کہ ہر شخص اپنے فرائض ادا کرے تو
دوسرے کےحقوق خود بخود ادا ہونے لگ جاتے ہیں۔ آج ہم انہی حقوق میں سے مہمان کے
حقوق اور دوسرے لفظوں میں میزبان کے آداب و فرائض قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے
اقوال و افعال کی روشنی میں جاننے کی سعادت حاصل کریں گے ان شاء اللہ
حدیث مبارکہ میں ہے: روایت ہے حضرت یحیی ابن سعید
سے انہوں نے سعید ابن مسیب کو فرماتے سنا کہ رحمن کے خلیل ابراہیم لوگوں میں پہلے
وہ ہیں جنہوں نے مہمانوں کی مہمانی کی۔ اس کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی مراۃ
المناجیح میں لکھتے ہیں: آپ سے پہلے کسی نے مہمان نوازی کا اتنا اہتمام نہ کیا
جتنا آپ نے کیا آپ تو بغیر مہمان کھانا ہی نہ کھاتے تھے۔(مراۃ المناجیح، 6/329)معلوم
ہوا کہ مہمان نوازی کرنا سنت ابراہیمی ہے۔
مہمان کے چند حقوق مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ مہمان کی عزت کرنا: رسول
اللہ ﷺ نے کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا
احترام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018) اس
کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے
خندہ پیشانی سے ملے اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے۔
اہل عرب کہتے ہیں کامل مہمان نوازی اول ملاقات میں
مہمان کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور کھاتے ہوئے مہمان کے ساتھ دیر تک گفتگو
کرنا ہے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ص 432)
2۔ مہمان کو دروازے تک چھوڑنا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ سنت سے ہے کہ انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے
تک جائے۔ اس کی شرح میں ہے کہ مہمان ملاقاتی کو دروازے تک پہنچانے میں اس کا
احترام ہے اور اس میں اور بہت سی حکمتیں ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)
3۔ مہمان کو کھانے کا کہنا: میزبان
کو چاہیے کہ مہمان سے وقتاً فوقتاً کہے کہ اور کھاؤ مگر اس پر اصرار نہ کرے، کہ
کہیں اصرار کی وجہ سے زیادہ نہ کھا جائے اور یہ ا س کے لیے مضر ہو،، میزبان کو
بالکل خاموش نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ کھانا رکھ کر غائب ہوجائے،
بلکہ وہاں حاضر رہے۔ (بہار شریعت، 3/394، حصہ: 16)
4۔ مہمانوں کو مانوس کرنا: مہمان
نوازی کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اپنے مہمانوں کے ساتھ ایسی گفتگو کرے کہ اس سے
ان کا دل اس کی طرف مائل ہو۔ ان سے پہلے نہ سوئے۔ (دین دنیا کی انوکھی باتیں، ص 433)
رات کو کچھ وقت اپنے مہمانوں کے ساتھ گزارے انہیں
دلچسپ واقعات سنا کر مانوس کرے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ص 434)
5۔ مہمان کو خوف زدہ نہ کرنا: میزبان
پر لازم ہے کہ مہمانوں کے دلوں کی رعایت کرے اور ان کے سامنے کسی پر غصہ نہ کرے ان
کے ہوتے ہوئے کوئی نا پسندیدہ کام نہ کرے اور ناخوشگواری اور بخل کا مظاہرہ نہ کرے۔
(دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ص 433)
اللہ پاک ہمیں بہترین میزبان بننے کی توفیق دے۔
آمین
آئیے ترغیب کے لیے ایک نظر صحابہ کرام علیہم
الرضوان اور بزرگان دین کی میزبانی پر ڈالتے ہیں کہ وہ کیسے میزبانی کے آداب کو
بجالاتے اور مہمان کا اکرام کرتے چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض
کی: یا رسول اللہ! مجھے بھوک لگی ہوئی ہے۔ آپ نے ازواج مطہرات کے پاس کسی کو بھیج
کر معلوم کیا لیکن کھانے کی کوئی چیز نہ ملی، حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو
شخص آج رات اسے مہمان بنائے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ انصار میں سے ایک
شخص کھڑے ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ چنانچہ وہ اس آدمی کو اپنے
گھر لے گئے اور اپنی زوجہ سے کہا: رسول اللہ ﷺ کا مہمان آیا ہے، لہٰذا تم نے اس سے
کوئی چیز بچا کر نہیں رکھنی۔ انہوں نے عرض کی: ہمارے پاس تو بچوں کی خوراک کے
علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ فرمایا:جب عشاء کا وقت ہو جائے تو تم بچوں کو بہلا
پھسلا کر سُلا دینا،پھر جب ہم کھانا کھانے بیٹھیں تو تم چراغ درست کرنے کے بہانے آ
کر اسے بجھا دینا،اگر آج رات ہم بھوکے رہیں تو کیا ہو گا۔چنانچہ یہی کچھ کیا گیا
اور جب صبح کے وقت وہ شخص نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد
فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہاری کار گزاری کو بہت پسند فرمایا ہے۔ (بخاری، 3/348،
حدیث: 3889)
بزرگان دین اور مہمان نوازی: حضرت
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاذ محترم حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے
مہمان بنے تو حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کے ہاتھوں
پر پانی ڈالا اور ان سے کہا: یہ دیکھ کر گھبراؤ نہیں بلکہ ذہن نشین کر لو کہ مہمان
کی خدمت کرنا میزبان پر لازم ہے۔