ابو ولی صفی الرحمٰن عطّاری
(درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
مہمان نوازی
نہ صرف ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنّت ِمُبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیائے کِرام علٰی نَبِیِّنا وعلیہم الصلٰوۃ و السَّلَام کاطریقہ بھی
ہےچنانچہ ابوالضَّیفان حضرتِ سیِّدُنا اِبراہیم خلیلُ اللہ علیہ السَّلام بہت ہی
مہمان نواز تھےاور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے(یعنی نہ کھاتے) تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا ذکر
قرآن پاک میں بھی ہے۔ چناچہ اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ
الْمُكْرَمِیْنَ ترجمہ کنز الایمان:
اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔ (الذّٰریٰت آیت نمبر 24) ایک اور مقام میں فرمایا۔
وَ نَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ ترجمہ کنز الایمان: اور انہیں احوال سناؤ ابراہیم کے مہمانوں کا۔ (الحِجر: آیت نمبر 51)
مفسرین فرماتے
ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے اور
بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے ،اس وقت ایسا اتفاق ہوا کہ پندرہ روز سے
کوئی مہمان نہ آیا تھا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا غم تھا اور
جب ان مہمانوں کو دیکھا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے لئے کھانا
لانے میں جلدی فرمائی، چونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہاں
گائے بکثرت تھیں اس لئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت سامنے لایا گیا ۔ (روح البیان،
ہود، تحت الآیۃ: ۶۹، ۴ / ۱۶۱، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۳۶۰-۳۶۱،
ملتقطاً)
مہمان کی تعریف: مہمان وہ ہے جو
ہم سے ملاقات کے لیے باہر سے آئے خواہ اس سے ہماری واقفیت پہلے سے ہو یا نہ ہو۔
جو ہمارے اپنے ہی محلہ یا اپنے شہر میں سے ہم سے ملنے آئے دوچار منٹ کے لیے وہ
ملاقاتی ہے مہمان نہیں اس کی خاطر تو کرو مگر اس کی دعوت نہیں ہے اور جو ناواقف
شخص اپنے کام کے لیے ہمارے پاس آئے وہ مہمان نہیں جیسے حاکم یا مفتی کے پاس مقدمہ
والے یا فتویٰ والے آتے ہیں یہ حاکم کے مہمان نہیں۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4244)
مہمان کے حقوق احادیث کی روشنی میں: مہمان نوازی ایک فطری و احسن عمل ہے اور متعدد
احادیث میں مہمانوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جن میں
سے کچھ فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کئے جاتے ہیں:-
(1)۔۔۔۔ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو
برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے.(ابن
ماجہ،ج4،ص51، حدیث:3356)
(2)۔۔۔۔ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو
اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے
جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء،ج2،ص33، حدیث:1641)
(3)۔۔۔۔ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتاہو
وہ اپنے مہمان کا احترام کرے اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور دعوت تین دن ہے اس کے بعد وہ صدقہ ہے مہمان
کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی کہ اسے تنگ کردے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح
شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث
نمبر:4244)
(4)۔۔۔۔ مہمان نوازی کرنے والے کو عرش کا سایہ
نصیب ہوگا۔ (تمہید الفرش،ص18)
(5)۔۔۔۔ آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے
بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ
پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح
و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے ( مہمان نواز )کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے
ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے
نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو
جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔
(کنزالعمّال، جز9،ج 5،ص110، حدیث:25878)
(6)۔۔۔۔ جوشخص اللہ عَزَّوَجَلَّ اور قِیامت کے
دن پراِیمان رکھتا ہےاسے چاہیے کہ وہ دستور کے مطابق اپنے مہمان کی خاطر تواضع
کرے۔عرض کی گئی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!
دستور کیاہے؟فرمایا:’’ایک دن اور ایک رات اور ضِیافت(مہمانی) تین دن ہےاورتین دن
کے بعد صَدَقہ ہے۔‘‘اورمُسْلِم کی رِوآیت میں ہے:کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اپنے
مسلمان بھائی کے یہاں اِتنا عرصہ ٹھہرے کہ
اُسے گُناہ میں مبتلا کر دے۔صحابہ ٔکِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عَرْض کی: یارسولَ
اللّٰہ!وہ اُس کو کیسے گُناہ میں مبتلا کرے گا؟اِرشاد فرمایا:’’وہ اُس شخص کے یہاں اِتنے وقت تک ٹھہرے کہ اُس کے
پاس مہمان نوازی کے لیے کچھ نہ رہے۔(کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)
مہمان نوازی کی مُدّت: عَلَّامَہ خَطَّابِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں:میزبان ایک دن رات
مہمان کے لیے(کھانے پینے کی چیزوں میں) تکلُّف کرےاور اُس کے ساتھ زِیادہ نیکی کرےاور بعد کے دو دن میں(بِلا تکلُّف
واِہْتِمام) اُس کے سامنے جو حاضِر ہو(یعنی گھر میں جو کھانا بنا ہو) پیش کردے اور
جب تین دن گزرجائیں تو مہمان کا حق گزر گیا اور جب اِس سے زِیادہ اُس کی ضِیافت
کرے گاتو وہ صَدَقہ ہوگی۔مرآۃ المناجیح میں ہے:پہلے دن مہمان کے لیے کھانے میں
تکلُّف کر،پھردو دن درمیانہ کھانا پیش کر،تین دن کی بھی مہمانی ہوتی ہے، بعد میں
صَدَقہ ہے۔(کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)
(7)۔۔۔۔ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان
رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243)
مہمان کے احترام سے مراد:- مفسّر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے
خندہ پیشانی سے ملے اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان
اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے،بعض حضرات خود مہمان کے آگے دسترخوان بچھاتے اس کے
ہاتھ دھلاتے ہیں یہ اسی حدیث پر عمل ہے،بعض لوگ مہمان کے لیے بقدر طاقت اچھا کھانا
پکاتے ہیں وہ بھی اس عمل پر ہے جسے کہتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع۔اس حدیث کا مطلب یہ
نہیں کہ جو مہمان کی خدمت نہ کرے وہ کافر ہے ۔مطلب یہ ہے کہ مہمان کی خاطر تقاضاء ایمان ہے جیسے باپ اپنے بیٹے سے کہے کہ
اگر تو میرا بیٹا ہے تو میری خدمت کر،مہمان کی خاطر مؤمن کی علامت ہے۔خیال رہے کہ
پہلے دن مہمان کے لیے کھانے میں تکلف کر،پھردو دن درمیانہ کھانا پیش کر،تین دن کی
بھی مہمانی ہوتی ہے بعد میں صدقہ ہے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243) احادیثِ مذکورہ اور ان
کی وضاحت سے ملنے والے10مدنی پھول:-
(1) مہمان
کی عزت و اِحتِرام اور اِس کی خاطِر تواضُع کرنا اَنبیائے کِرام عَلَیْہِمُ
السَّلَام کی سُنَّت ہے۔
(2) اسلام
میں مہمانوں کی مہمان نوازی کاحکم دیا گیاہے۔
(3) مہمان
آتا ہے تو اپنا رِزْق بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔
(4) حضرت
اِبراہیم عَلَیْہِ السَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے، بِغیر مہمان کے کھانا تَناوُل
نہ فرماتے ۔
(5) مہمان
وہ ہے جو مُلاقات کے لیے باہَر سے آئے خَواہ اُس سے ہماری جان پہچان پہلے سے ہو یا نہ ہو۔
(6) مہمان
کا اکرام یہ ہے کہ اُس سے خَنْدہ پَیشانی سے ملے،اُس کیلئےکھانے وغیرہ کا اہتمام
کرے۔
(7) ایک
دن رات مہمان کیلئے کھانے میں تکلُّف اُس
کے ساتھ زِیادہ نیکی کرےاور بعد کے دو دن میں بِلا تکلُّف اُس کے سامنے جو کھانا
حاضِر ہو پیش کردے ۔
(8) مہمان
کو چاہیے کہ وہ میزبان کے پاس تین دن سے
زِیادہ نہ ٹھہرے ۔
(9) میزبان
کی خواہش پرتین دن سے زِیادہ ٹھہرنے میں حرج نہیں۔
(10) مہمان کورخصت کرتے وَقت کچھ دُور پہنچانے جانا سُنَّت ہے۔
اب یہاں ضمنًا
مہمان و میزبان کے لئے کچھ آداب بیان کیے جاتے ہیں:-
"مہمان کے لیےآداب"
صَدْرُالشَّرِیْعَہ
بَدرُالطَّرِیْقَہ حضرتِ علامہ مولانامفتی محمدامجدعلی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’مہمان کو چار باتیں
ضَروری ہیں:(1)جہاں بِٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔(2) جو کچھ اُس کے سامنے پیش کیا جائے
اُس پر خوش ہو،یہ نہ ہو کہ کہنے لگے: اِس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا
ہوں یا اِسی قِسْم کے دُوسرے اَلفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپَس میں
کہا کرتے ہیں۔(3) بِغیر اِجازتِ صاحِبِ خانہ وہاں سے نہ اُٹھے۔(4)اور جب وہاں سے
جائے تو اُس کے لیے دُعا کرے۔ (بہارشریعت،ج3،ص394ملخصاً)
"میزبان کے لئے آداب"
(1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2)کھانے میں
اگر پھل (Fruit) بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ
طِبّی لحاظ (Medical Point of View) سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے (3)مختلف اقسام کے کھانے
ہوں تو عُمدہ اور لذیذ (Delicious)کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے
کھالے (4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے(5)مہمانوں
کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور
ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔ (احیاء العلوم ،ج 2،ص21 تا 23
ملخصاً)
(6) سنت یہ ہے
کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔
(ابن ماجہ کتاب الطعمۃ، باب الضیافۃ، الحدیث
3358 ،ج 4 ،ص 52)
اللہ عَزَّوَجَلَّ
ہمیں اخلاص کے ساتھ مہمانوں کے حقوق ادا کرنے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ