ضرورت انسانی کو پورا کرنے کے لیے آپس میں گفتگو کرنے کی حاجت پیش آتی رہتی ہے ۔ گفتگو کا انداز ہر آدمی کا مختلف ہوتا ہے۔ بعض لوگ کلام کرتے ہیں تو فورا اُن کی بات سمجھ آجاتی ہے۔ بعض لوگ کلام کرتے ہیں لیکن فورا سمجھ نہیں آتی۔ چونکہ ہم مسلمان ہیں ہمارے لیے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ ہمارے پیارے آقا کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے امتیوں سےکلام فرماتے ہوئے مختلف مقام پر مثالوں سے تربیت فرمائی یہاں تک کہ کلام باری تھا جس میں اللہ تعالی نے بھی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ آئیں مثالوں سے تربیت فرمانے کی ایک جھلک احادیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں :

(1) اچھے اور برے دوست کی مثال : ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو جہاں کے تاجور ، سلطانِ بحرو بَر ﷺ نے ارشادفرمایا :اچھے اور برے دوست کی مثال مشک اٹھانے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے ، مشك اٹھانے والا تمہیں تحفہ دے گا یا تم اس سے خریدو گے یا تمہیں اس سے عمدہ خوشبو آئے گی جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں اس سے ناگوار بو آئے گی ۔ (بخاری کتاب الذبائح والصید و تسمیتہ علی الصید باب المسک ص 567 ج 3 حدیث 5534)

(2) آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال : حضرت سیدنا مستورد بن شداد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے پھر دیکھے کہ وہ کتنا پانی لے کر لوٹی ہے۔ (مسلم ،کتاب اللجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا ، باب فناءالدنیاوبیان الحشر یوم القیامیۃ، ص1529،حدیث،2757)

(3) سخی اور بخیل کی مثال : حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بخیل اور خرچ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جن پر ان کے سینے سے لے کر گلے تک لوہے کی زرہ ہو تو خرچ کرنے والا جب خرچ کرتا ہے تو وہ زرہ کھل جاتی ہے یا کشادہ ہو کر اس کے جسم پر آجاتی ہے یہاں تک کہ اس کی انگلیوں کے پورے بھی چھپ جاتے ہیں اور اس کے قدموں کے نشانات مٹا دیتی ہے لیکن بخیل جب کوئی چیز خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ کا ہر حلقہ اپنی جگہ چمٹ جاتا ہے اور وہ اسے کشادہ کرنا چاہتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتا ۔ (بخاری،کتاب الزکاۃ،باب مثل المتصدق والبخیل،1/486،حدیث:1443 بتغیر قلیل)

(4) علم سیکھنے اور سکھانے والے کی مثال : حضرت سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ عزوجل نے جس ہدایت اور علم کے ساتھ مجھے بھیجا ہے اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی تو زمین کے ایک عمدہ حصے نے اس پانی کو چوس کر گھاس اور بہت سبزہ اگایا اور زمین کا کچھ حصہ بنجر تھا جس نے اس پانی کو روک لیا تو اللہ عزوجل نے اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا اس طرح کے انہوں نے خود پیا،دوسروں کو پلایا اور کاشت کاری کی اور وہ بارش زمین کے ایک ایسے حصے کو پہنچی جو چٹیل میدان تھا،اس نے نہ پانی روکا اور نہ ہی گھاس اگائی ،(تو پہلی) اس شخص کی مثال ہے جس نے اللہ عزوجل کے دین کو سمجھا اور جس چیز کے ساتھ اللہ عزوجل نے مجھے بھیجا اس نے اسے نفع پہنچایا تو اس نے خود بھی علم حاصل کیا اور دوسروں کو بھی سکھایا۔(اور دوسری) اس شخص کی مثال ہے کہ جس نے اس علم کی طرف توجہ نہ دی (تکبر کی وجہ سے) اور اللہ عزوجل کی وہ ہدایت جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے اسے قبول نہ کیا۔ (مسلم،کتاب الفضائل،باب بیان مثل ما بعث النبی من الھدوالعلم،ص1253،حدیث: 2282)

(5) آخری نبی :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جس طرح ہارون کو حضرت موسی علیہ السلام سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،جلد 2،حدیث 4416)

پیارے اسلامی بھائیو! حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہماری مثالوں سے تربیت فرمائی کہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دی جائے،اچھے دوست بنانے چاہیے اور برے دوستوں سے دور رہنا چاہیے،سخاوت کرنی چاہیے،اور ہمیں ان مثالوں سے علم حاصل کرنا چاہیے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین