اسلام ایک پرامن دین ہے ۔جو زندگی  کے ہر معاملے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر اچھے معاملے کا درس دیتا ہے۔ ۔انھیں معاملوں میں ایک معاملہ مہمان کے حقوق بھی ہیں۔مہمان کی خاطر(داری) ایمان کا تقاضاء ہے۔اور مہمان نوازی کرنا سنت انبیاء ہے،دین اسلام نے مہمان کے حقوق کو میزبان پر لازم قرار دیا۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی مہمان کے حقوق کا خیال رکھنے کی بہت  تاکید فرمائی۔  اور فرمایا: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ،یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔ (صحیح بخاري،433/2،حدیث:6138)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:مہمان کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔ (مراة المناجیع ، 52/6 )

سنت ابراہیم علیہ السلام ہے: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذ ([69])(ھود) ترجمۂ*کنز العرفان،اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ۔انہوں نے ’’سلام‘‘ کہا تو ابراہیم نے ’’سلام‘‘ کہا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔

  تفسیر خزائن العرفان میں ہے  ۔ سادہ رُو، نوجوانوں کی حسین شکلوں میں فرشتے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس حضرت اسحق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش کی خوشخبری لے کر آئے۔ فرشتوں نے سلام کہا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی جواب میں فرشتوں کو سلام کہا، پھر تھوڑی ہی دیر میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے اور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے ،اس وقت ایسا اتفاق ہوا کہ پندرہ روز سے کوئی مہمان نہ آیا تھا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا غم تھا ۔اور جب ان مہمانوں کو دیکھا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے لئے کھانا لانے میں جلدی فرمائی، چونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہاں گائے بکثرت تھیں اس لئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت سامنے لایا گیا۔ (خزائن العرفان ھود تحت الایۃ 69ص 413)

مہمان نوازی کی فضیلت پر دو احادیث:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ عیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اتنی تیزی سے اُترتی ہے۔جتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔  (مشکوۃ المصابیح 2 /457 حدیث4257)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث كے تحت فرماتے ہیں:اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے ۔اسے چُھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک پہنچ جاتی ہے۔اس لئے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد پہنچتی ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص67 )

(2)نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء،33/2، حدیث:1641 )

حضورصلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے مہمان نوازی کی: حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم   کے غلام تھے ۔ آپ فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مہمان آیا۔  حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے  مجھے فرمایا جاؤ!  فلاں یہودی   کے پاس  اور کہو کہ میرا مہمان آیا ہے۔ مجھے رجب کے مہینے تک کے لیے کچھ آٹا بھیج دے۔  یہودی یہ سن کر بولا ! بخدا میں ان کو کچھ  نہیں دوں گا مگر یہ کہ کچھ رہن رکھا  جاۓ۔  میں نے جاکر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خبر اس کی دی ۔آپ نے فرمایا بخدا!  میں آسمانوں  میں  امین ہوں، اور زمینوں میں امین ہوں،  اور اگر وہ مجھے دے دیتا تو میں ضرور اسے ادا کردیتا ،جاؤ میری زرہ لے جاؤ  اور اس کے پاس رہن  رکھ دو ۔( مسند البزار،315/ 9،حدیث: 3863)

مہمان کی خدمت خود کرے: حضرت سیدنا امام شافعی اپنے استاذ محترم حضرت امام مالک کے مہمان بنے تو امام مالک نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کے ہاتھ پر پانی ڈالا اور ان سے کہا یہ دیکھ کر تم گھبراؤنہیں بلکہ اس بات کو زہن نشین کر لو کہ مہمان کی خدمت کرنا میزبان پر لازم ہیں ۔   (دین و دنیا کی انوکھی باتیں،436/1)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں: میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں   خود مشغول ہو، خادموں   کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم   علیہ ا لصلوۃ والتسلیم کی سنت ہے اگر مہمان تھوڑے ہوں   تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضاء مُروت(اخلاق) ہے۔ اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں   مشغول ہو۔      (بہار شریعت، 3/ 397 )

مہمان کیلیے تکلف کرنا: حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم   نے ہمیں حکم دیا کہ ہم مہمان کے لیے تکلف نہ کریں کسی مہمان کے لیےاس چیز کا جو ہمارے پاس نہ  ہو   ہم وہی چیز پیش کریں ہمارے پاس موجود ہو ۔ ( در منثور، صٓ، تحت الایة :86 )

بعض بزرگ فرماتے ہیں تکلف یہ ہے  کہ تو اپنے بھائی کو وہ کھلائے جو تو خود نہیں کھاتا اور اس سے بھی عمدہ اور قیمتی  کھانا کھلانے کا ارادہ کرے۔  بلکہ جو اسے آسانی سے میسر آۓ وہی پیش کرے۔   ( احیاء العلوم،2/ 35 )

بخل نہ کرے :اور جو اپنے پاس ہے اس میں بخل نہ کرے۔ روایت ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہ میں نے نبی اکرم رصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ ہم کو بھیجتے ہیں بعض اوقات ہم ایسی قوم پر اترتے ہیں  وہ ہماری خدمت نہیں کرتے تو حضور کیا حکم ہے تب آپ نے فرمایا ۔جب تم کسی قوم پر اترو پھر تھمارے لیے وہ دیں جو مہمانی کیلے مناسب ہے تو اسے قبول کرلو۔اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا  وہ حق لے  لو جو مہمانی کیلے کافی ہو ۔ (ابو داوٗد،176/2حدیث :3752 )

حضور کا گزر ایسے شخض کے پاس سے ہوا جس کے پاس بہت سی گاۓ اور بکریاں تھی مگر اس نے مہمان نوازی نہ کی اور ایک ایسی عورت کے پاس سے آپ کا گزر جس کے پاس چھوٹی چھوٹی بکریاں تھی اور اس نے حضور کیلئے ایک بکری کو زبح کیا۔ تب آپ نے فرمایا ان دو کو دیکھو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں اخلاق ہے ۔ ( شعب الایمان،7/ 93، حدیث: 9597)

خلیل اللہ ہونے کی وجہ:حضرت  ابراہیم خلیل اللہ  علیہ السلام سے عرض کی گئی کہ آپ کو کس وجہ سے خلیل بنایا۔ ارشاد فرمایا تین وجوہات کی بنا پر :1،مجھے جب بھی دو چیزوں میں اختیار دیا  گیا۔ تو  میں نے غیر اللہ  کے مقابلے میں اسے اختیار کیا جو مجھ پر اللہ کے لیے ہو۔ 2،جس چیز کا زمہ اللہ نے میرے لئے کیا ہے میں نے کھبی اس کے لیے اہتمام نہیں کیا۔ 3,میں نے کھبی کھانا مہمان کے بغیر نہیں کھایا۔ ( دین و دنیا کی انوکھی باتیں431/ 1)                            

ایک بستر مہمان کے لیے: حضرت جابر سے روایت رسول  ﷲ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایاکہ ’’ایک بچھونا مرد کے لیے اور ایک اُس کی زوجہ کے لیے اور تیسرا مہمان کے لیے اور چوتھا شیطان کا ہو گا ۔ (صحیح مسلم، 2/ 202حدیث5452 )  

اس حدیث کے تحت مفتی احمد یار خان  نعیمی فرماتے ہیں ۔اہل عرب فخریہ طور پر بہت سے بستر  بناتے اور ان سے گھر سجاتے ۔(مراة المناجیع ،ج 6ج97 )یعنی گھر کے آدمیوں   اور مہمانوں   کے لیے بچھونے جائز ہیں اور حاجت سے زیادہ نہ چاہیے۔

مہمان کو رخصت کرنے: حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے روایت ہے، رسول  اﷲ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم  نے فرمایا ’’سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے۔‘‘     ( سنن ابن ماجہ،86/2، حدیث: 3358)

اللہ پاک ہمیں میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق  عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان  نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔(شرح النووی علی المسلم،ج2،ص18)

مہمان نوازی کی فضیلت پرپانچ احادیث

روایت ہے حضرت مقدام ابن معدیکرب سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا جوکسی قوم کا مہمان ہو پھر مہمان محروم رہے تو ہر مسلمان پر اس کی مدد کرنا لازم ہے یہاں تک کہ وہ اپنی مہمانی اس کے مال اور کھیت سے حاصل کرے ۔

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے اور جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے ایک روایت میں پڑوسی کے بجائے یوں ہے کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے (مسلم،بخاری۔ کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243)

روایت ہے حضرت ابوالاحوص جشمی سے وہ اپنے باپ سے راوی فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ فرمایئے تو اگر میں کسی شخص پرگزروں تو نہ وہ میری مہمانی کرے نہ مجھے دعوت دے پھر وہ مجھ پر اس کے بعد گزرے تو میں اسے مہمان بناؤں یا بدلہ لوں فرمایا بلکہ مہمان بناؤ۔(ترمذی کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4248)

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے ۔ (ابن ماجہ۔ کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4258 )

شرح حدیث مہمان ملاقاتی کو دروازے تک پہنچانے میں اسکا احترام ہے،پڑوسیوں کا اطمینان کہ وہ جان لیں گے کہ ان کا دوست عزیز آیا ہے کوئی اجنبی نہ آیا تھا۔(مرقات)اس میں اور بہت حکمتیں ہیں آنے والے کی کبھی محبت میں کھڑا ہوجانا بھی سنت ہے۔

مہمان نوازی کی فضیلت:

امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔( شرح النووی علی المسلم،ج2،ص18)

مہمان کے اِکرام سے کیا مُراد ہے! حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:مہمان کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔( مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص52)

علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی مہمانی کرو (شرح البخاری لابن بطّال،ج4،ص118)

نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔( کشف الخفاء،ج2،ص33، حدیث:1641)

میزبان کے لئے آداب: (1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2)کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے (3)مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے (4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے(5)مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔ ( احیاء العلوم ،ج 2،ص21 تا 23 ملخصاً)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو: مہمان کے آنے پر اس کا پرتپاک استقبال کرنا، اسے خوش آمدید کہنا اور اس کی خاطر مدارات کرنے کا رواج روزِ اوّل سے ھی اللہ و آخرت پر ایمان رکھنے والوں  کا شعار رھا ھے۔

ہر ملک، علاقے اور ہر قوم میں گو کہ مہمان نوازی کے انداز و اطوار مختلف ضرور ہیں لیکن اس بات میں کسی قوم کا بھی اختلاف نہیں کہ آنے والے مہمان کے اعزاز و اکرام میں اس کا پرتپاک استقبال کرنا، اسے خوش آمدید کہنا اور اس کی اپنی حیثیت کے مطابق بڑھ چڑھ کر ہر ممکنہ خدمت سر انجام دینا اس کا بنیادی حق ھے۔ اس لئے کہ دنیا کی ھر مہذب قوم کے نزدیک مہمان کی عزت و توقیر خود اپنی عزت و توقیر اور مہمان کی ذلت و توہین خود اپنی ذلت و توہین کے مترادف سمجھی جاتی ھے۔

لیکن ہمارے دینِ اسلام نے مہمان نوازی کے متعلق جو بہترین اصول و قواعد مقرر کئے ہیں یا جس خوب صورت انداز سے اسلام نے ہمیں مہمان نوازی کے آداب و ضوابط کا پابند بنایا ھے، دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں مہمان نوازی کی بڑی فضیلتیں وارد ھوئیں ھیں ان میں سے چند ایک پیشِ خدمت ہیں ۔۔

چنانچہ حضرتِ سیدنا ابوشریح خویلد بن عمرو الخزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اللہ تعالی اور اخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی جائزہ( کے طور پر )مہمان نوازی کرے لوگوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جائزہ سے کیا مراد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ایک دن اور ایک رات اہتمام کے ساتھ دعوت کرنا اور تین دن عام مہمان نوازی کرنا اس کے بعد اگر وہ مہمان نوازی کرے تو یہ اس کی طرف سے اس مہمان کے لئے صدقہ ھوگا۔

مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کسی مسلمان کے لئے یہ بات جائز نہیں ھے وہ اپنے بھائی کےپاس اتنا عرصہ رھے کہ اس سے گنہگار کر دے۔ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم وہ اسے گنہگار کیسے کرے گا اپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایاوہ اس کے پاس ٹھہرا رھے یہاں تک کہ اس میزبان کے پاس کوئی ایسی چیز نہ رھے کہ جو اس کے سامنے پیش کر سکے ۔(شرح ریاض الصالحین ص32 حدیث 710، بابُ اِکرَام الضَّیفِ، باب94مطبوعہ شبیربرادرز)

2) حضرت سَیِّدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : “ جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے اور جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یاخاموش رھے۔(فیضان ریاض الصالحین جلد:3 , حدیث نمبر:308،)

3)۔ایک انوکھی سی مہمان نوازی والا پیارا سا واقعہ سنتے ہیں۔ ایک دن حضرتِ سیِّدُناعثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نےحُضور نبیِّ کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعوت کی۔جب دونوں عالَم کےمیزبان حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے مکان پر رونق افروز ہوئے تو حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ آپ کےپیچھے چلتے ہوئے آپ کےقدموں کو گننے لگے اور عرض کیا:

یارسولَ الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!میرے ماں باپ آپ پرقربان! میری تمنا (Wish) ہےکہ حُضور کے ایک ایک قدَم کے عِوَض میں آپ کی تعظیم و تکریم کےلیےایک ایک غلام آزاد کروں۔چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُناعثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کےمکان تک جس قدَر حُضور علیه الصلوۃوالسلام کےقدَم پڑے تھے حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی نےاتنی ہی تعدادمیں غلاموں کو خرید کر آزاد کر دیا۔

حضرتِ سیِّدُناعلی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اس دعوت سے مُتَأثِّر ہو کر حضرتِ سیِّدَہ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سےکہا:اےفاطمہ!آج میرےدِینی بھائی حضرتِ سیِّدُناعثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نےحُضورِاَکرَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بڑی ہی شانداردعوت کی ہے اورحُضورِ اَکرَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےہرہرقدَم کےبدلےایک غلام آزاد کیاہے، میری بھی تمنّاہےکہ کاش!ہم بھی حُضورکی اسی طرح شانداردعوت کر سکتے۔

حضرتِ سیِّدَتُنافاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا نےاپنےشوہرِنامدارحضرتِ سیِّدُناعلیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللّٰہُ وجہہ الکریم کے اس جذبہ سے مُتَأثِرہوکرکہا: بَہُت اچھا،جائیے، آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بھی حُضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کواسی قسم کی دعوت دیتےآئیے!

ہمارے گھر میں بھی اسی قسم کا سارا اِنتِظام ہو جائےگا۔چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نےبارگاہِ رِسالت میں حاضِر ہوکر دعوت دے دی اور شہنشاہِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابۂ کرام کی ایک کثیر جماعت کو ساتھ لے کر اپنی پیاری بیٹی کے گھرمیں تشریف فرما ھو گئے۔حضرتِ سیِّدَہ خاتونِ جنّت تنہائی میں تشریف لےجاکر خداوندِ قُدُّوْس کی بارگاہ میں سربسجود ہوگئیں اور یہ دعامانگی:

یااللہ! تیری بندی فاطمہ نے تیرےمحبوب اور اَصحابِ محبوب کی دعوت کی ہے، تیری بندی کاصرف تجھ ہی پر بھروسا ہے، لہٰذااے میرےربّ! تُو آج میری لاج رکھ لےاور اس دعوت کےکھانوں کا تُو عالَمِ غیب(یعنی دوسرا جہاں جو چھپا ہوا ہے) سےاِنتِظام فرما۔یہ دُعا مانگ کر حضرتِ سیِّدَتُنا بی بی فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے ہانڈیوں کوچولہوں پرچڑھا دیا۔ اللہ کریم کادَرْیائے کرَم ایک دم جوش میں آگیااور(فوراً) ان ہانڈیوں کو جنّت کےکھانوں سےبھر دیا۔ حضرتِ سیِّدَتُنابی بی فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہانےان ہانڈیوں میں سےکھانا نکالنا شروع کر دیا اورحُضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابۂ کرام کے ساتھ کھانا کھانے سے فارِغ ہوگئے،لیکن خدا کی شان کہ ہانڈیوں میں سے کھانا کچھ بھی کم نہیں ہوا اور صحابۂ کرام ان کھانوں کی خوشبو اور لذّت سے حیران رہ گئے۔حُضورِاَکرم علیه الصلوۃوالسلام نے صحابَۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو حیران دیکھ کرفرمایا:

کیا تم لوگ جانتے ہوکہ یہ کھاناکہاں سے آیا ہے؟صحابَۂ کِرام نے عرض کیا: نہیں یَارَسُوْلَ الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!آپ نےارشاد فرمایا: یہ کھانا اللہ پاک نے ہم لوگوں کےلئےجنّت سے بھیجا ھے۔پھرحضرتِ سیِّدَتُنا فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا گوشۂ تنہائی میں جاکرسجدہ ریز ہو گئیں اوریہ دُعا مانگنے لگیں:

یااللہ!حضرتِ عثمان رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے تیرےمحبوب کےایک ایک قدَم کے عِوَض ایک ایک غلام آزاد کیا ھے ۔لیکن تیری

بندی فاطمہ کواتنی اِستِطاعت نہیں ہے، اے خداوند ِعالَم!جہاں تُونےمیری خاطِر جنّت سے کھانابھیج کر میری لاج رکھ لی ہے، وہاں تُو میری خاطِر اپنے محبوب کےان قدَموں کےبرابر جتنےقدَم چل کر میرے گھرتشریف لائے ہیں، اپنےمحبوب کی اُمَّت کے گنہگاربندوں کوجہنّم سے آزاد فرمادے۔

حضرتِ سیِّدَتُنافاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا جُوں ہی اس دعاسےفارِغ ہوئیں ایک دم حضرتِ سیِّدُناجبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام یہ بِشارت لےکر بارگاہِ رِسالت میں حاضر ہوئےکہ یارسولُالله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!حضرتِ فاطمہ(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا)کی دُعابارگاہِ الٰہی میں مقبول ہو گئی، اللہ کریم نےفرمایاھے کہ ہم نےآپ کے ہر قدَم کے بدلےمیں ایک ایک ہزار 1000گنہگاروں کو جہنّم سے آزاد کر دیا۔ (جامِعُ الْمُعْجِزات،ص۲۵۷ملخصاً)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو کوئی بھی اچھی خصلت اور عادت ایسی نہیں جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں تعلیم نہ دی ہو دنیا کی تمام تہذیبی ثقافتی  تعلیمات اسلام میں موجود ہے۔

ان میں سے ایک بہترین خصلت مہمان نوازی بھی ہے مہمان کے کئی حقوق ہیں جن کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے لہذا مہمان نوازوں کے لیے اللہ تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔ (پارہ 28، سورہ حشر،آیت نمبر 9)

اس مبارک آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی : یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے بھوک لگی ہوئی ہے ۔آپ نے ازواجِ مُطَہّرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے پاس کسی کو بھیج کر معلوم کیا لیکن کھانے کی کوئی چیز نہ ملی ،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص آج رات اسے مہمان بنائے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے ۔انصار میں سے ایک شخص کھڑے ہوئے اور عرض کی : یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں حاضرہوں ۔چنانچہ وہ اس آدمی کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی زوجہ سے کہا: رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہمان آیا ہے ، لہٰذا تم نے اس سے کوئی چیز بچا کر نہیں رکھنی ۔ انہوں نے عرض کی :ہمارے پاس تو بچوں کی خوراک کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ فرمایا:جب عشاء کا وقت ہو جائے تو تم بچوں کو بہلا پھسلا کر سُلا دینا،پھر جب ہم کھانا کھانے بیٹھیں تو تم چراغ درست کرنے کے بہانے آ کر اسے بجھا دینا،اگر آج رات ہم بھوکے رہیں تو کیا ہو گا۔چنانچہ یہی کچھ کیا گیا اور جب صبح کے وقت وہ شخص نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے تمہاری کار گزاری کو بہت پسند فرمایا ہے ،پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب ویؤثرون علی انفسہم۔۔۔ الخ، 3 328 الحدیث: 2889)

اسی طرح مہمان نوازی کی فضیلت کے بارے میں ہے : آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کسی قوم کے پاس مہمان جاتا ہے تو اپنا رزق ساتھ لے کر جاتا ہے اور جب واپس اتا ہے تو ان کے گناہ بخشوا کے اتا ہے ( اتحاد ذوالمروت والانافه المتوفی 974 )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہمان کے انے پر دل میں یہ نہیں محسوس کرنا چاہیے کہ خرچہ ہوگا کیونکہ مہمان اپنا رزق ساتھ لے کر اتا ہے

( حدیث) اسی طرح بری قوم کے بارے میں ایک حدیث ہے اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بری قوم وہ ہے جن کے ہاں مہمان نہیں ٹھہرتے ( شعب الایمان 458 ) اسی طرح مہمان کے کچھ حقوق ہیں جن میں سے چند عرض کرتے ہیں:

(1):: مہمانوں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرا کر فورا اس کے کھانے پینے کا انتظام کرنا چاہیے؛(:2): اسی طرح کسی بہانے تھوڑی دیر کے لیے مہمانوں سے دور ہو جانا چاہیے تاکہ ان کو ارام کرنے اور دوسری ضروریات سے فارغ ہونے میں تکلیف نہ ہو ؛(:3): کھانا مہمانوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور ان کو کھانے کا حکم نہیں دینا چاہیے ہاں بلکہ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اپ کھانا کیوں نہیں کھا رہے

(؛4،) مہمانوں کے کھانے سے مسرور اور نہ خانے سے مغموم ہونا چاہیے کیونکہ جو لوگ بخیل ہوتے ہیں وہ کھانا تو مہمانوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں لیکن ان کے دل میں ایک خواہش ہوتی ہے کہ مہمان کھانا کم کھائے یا نہ کھائے تاکہ وہ ہمارے اہل و عیال کے کام ا جائے :(:5): مہمانوں کی دل جوئی کے لیے خوش خلقی اور خندہ پیشانی سے بات چیت کرنی چاہیے اور بیکار بات چیت کر کے دماغ کو پریشان نہیں کرنا چاہیے :::( 6) مہمانوں کی تکریم جز ایمان ہے اگر کوئی شخص ان سے اہانت امیز برتاؤ کرے تو میزبان پر فرض ہے کہ مہمان کی طرف سے مدافعت کرے (7) مہمانوں کے کھانے پینے کا انتظام پوشیدہ طور پر ان کی نگاہوں سے چھپا کر کرنا چاہیے اس لیے کہ اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے لیے کچھ کیا جا رہا ہے تو وہ ازرائے تکلف اس سے روکیں ( 8 ) اسی طرح مہمانوں کے انے پر ان سے خوش اخلاقی کے ساتھ ملنا چاہیے اور خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کہ اپ کے انے سے خوشی ہوئی

اللہ تعالی ہم سب کو مہمانوں کی خدمت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کی کوتاہیوں کو معاف فرمائے آمین بجاہ النبی الامین الکریم صلی اللہ علیہ وسلم


اسلام حقوق العباد کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ حقوق العباد کی بہت ساری قسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم مہمان کے حقوق ہیں مہمان نوازی اچھا عمل ہے نیکیوں والا عمل ہے مگر افسوس ہمارے ہاں اس نیک کام کو اول تو نیکی سمجھ کر نہیں کیا جاتا دوسرا یہ کہ اس اچھے عمل کے آداب کا لحاظ بھی لوگ نہیں کرتے۔ جب مہمان کی آمد پر  حقوق و آداب کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تو طرح طرح کے مسئلے ہو جاتے ہیں بعض اوقات لڑائ جھگڑے بھی ہو جاتے ہیں ہماری شریعت کا خاصہ ہے کہ اس میں نیک اعمال کے فضائل ہی بیان نہیں کیئے جاتے بلکہ نیکیاں کرنے کے آداب اور اچھے انداز بھی سکھائے جاتے ہیں اس لئیے مہمان نوازی کے آداب و حقوق سیکھ لینے چاہیئے آئیے مہمان کے کچھ حقوق پڑھتے ہیں

مہمان کے چند حقوق

1۔ مہمان کا استقبال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: جو اللّہ پاک اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیئے کہ مہمان کا احترام کرے۔

مفسر قرآن حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے خندہ پیشانی (مسکرا کر اچھی طرح)سے ملے ، اس کے لئیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔ (550 سنتیں اور آداب ص23)

2 کھانا جلدی حاضر کیا جائے۔ کھانا جلدی حاضر کیا جاۓ تاکہ مہمان انتظار نہ کرے یہ بھی مہمان کے حقوق میں سے ہے چنانچہ ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: جو اللّہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیئے کہ مہمان کی عزت کرے۔ (احیاء العلوم جلد2, ص149)

3 نرم اور (عمدہ و لذیذ) کھانا پہلے پیش کیا جائے ) تاکہ کھانے والوں سے جو چاہے اسی میں سے سیر ہو جائے اور بعد میں زیادہ نہ کھاۓ- بعض مالدار لوگ سخت کھانا پہلے رکھتے ہیں تاکہ بعد میں نرم (لذیذ) کھانا دیکھ کر دوبارہ خواہش پیدا ہو - یہ خلاف سنت اور زیادہ کھانے کا یہ ایک حیلہ (بہانا ہے) ہے ۔(احیاء العلوم،جلد2،ص 151تا152)

4 کھانا اٹھانے سے جلدی نہ کی جائے : یعنی جب تک کھانے والے کھانے سے ہاتھ نہ کھینچ لیں(رک جائیں)تب تک دستر خوان نہ اٹھایا جاۓ کیونکہ ممکن ہے کسی کو بچے ہوئے کھانے کی خواہش باقی ہو یا کوئ ابھی مزید کھانا چاہتا ہو جلدی اٹھا لینے سے بد مزگی ہو گی بزرگوں کے قول "دستر خوان پر سب کو کھانا پہنچ جانا زیادہ کھانوں سے بہتر ہے" کا یہی مطلب ہے(برتن اٹھانے میں جلدی نہ کی جاۓ) یہ بھی احتمال ہے اس سے مکان کی وسعت (کشادہ جگہ) مراد ہو (تاکہ مہمان کو بیٹھنے میں کسی قسم کی تنگی نہ ہو) (احیاء العلوم جلد2،ص153تا154)

5 مہمان کی واپسی:مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جاۓ کہ یہ سنت ہے نیز اس میں اکرام(حق) بھی ہے اور مہمان کے اکرام کا حکم بھی دیا گیا ہے چناچہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مہمان نوازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میزبان مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جائے ۔

مہمان کا مکمل اکرام: 6 -مہمان کا پورا اکرام یہ ہے کہ آتے جاتے اور دسترخوان پر اس کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملاقات کی جائے اور اچھی گفتگو کی جائے ۔حضرت سیدنا امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: "کون سا کام مہمان کی تعظیم ہے ؟" فرمایا خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا اور اچھی بات کرنا یزید بن ابی لیلیٰ کا کہنا ہے کہ "میں جب بھی حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے اچھی بات کی اور عمدہ کھانا کھلایا" (احیاء العلوم جلد 2 ص 157)


پیارے اسلامی بھائیو اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔دنیا کے دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کے زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔کھانا پیش کرنا تو ایک ادنی پہلو ہے اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کی دیکھ بھال بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے

مہمان نوازی اور ہمارا معاشرہ: افسوس کہ اج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدر اور ثقافت دم توڑتی نظر ارہی ہے گھر میں مہمان کی امد اور اس کے قیام کو زحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے ایسے حالات میں مہمانوں کے لیے گھروں کے دسترخواہ سکڑ گئے ہیں۔

آئیے آج میں اپ کو مہمان کے حقوق بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ مجھے حق اور سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین

حدیث پاک 1 : فرمان اخری نبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ہے کہ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس تیزی سے اترتی ہے کہ جتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چھری پہنچتی ہے ۔ (ابن ماجہ 3356)

حدیث پاک 2: نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں اتا ہے تو اپنا رزق لے کر اتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے ۔ (کشف الخفا حدیث 1614) درج ذیل چیزیں مہمان کے حقوق میں شامل ہیں

1۔مہمان کی امد پر اسے خوش امدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتباک استقبال کرنا

2۔اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا

3۔اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا

4۔ہم مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ انے کی دعوت دینا

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے اداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم


کوئی بھی اچھی خصلت اور  روایت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں تعلیم نہ دی ہو دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں میں جو اچھی عادات و رسوم رواج ہیں اسلام میں ان کے بارے میں تعلیمات موجود ہیں۔ ایسی طرح مہمان نوازی اچھی ثقافتوں میں سے ایک ہے اسلام میں مہمان نوازی کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور اسے ایک اعلیٰ اخلاقی قدر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں مہمان نوازی کے بارے میں کئی احکام اور مثالیں ملتی ہیں

"مہمان" اردو زبان کا لفظ ہے جو کسی ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کسی کے گھر ، مقام یا تقریب میں مدعو کیا گیا ہو یہ عام طور پر اس شخص کی عزت اور خاطر مدارت کے ساتھ استقبال اور میزبانی کے لیے بولا جاتا ہے مہمان نوازی اردو اور پاکستانی ثقافت کا اہم حصہ ہے جہاں مہمان کو خصوصی توجہ، کھانا پینا، اور آرام کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی كا قصہ بیان فرما کر اس فعل کو محمود قرار دیاہے۔

اور انکے اس فعل کی وجہ سے ابوالضیفان كا لقب عطا کیاگیا۔

نبی اکرم علیہ سلام کے آباء و اجداد بھی اپنی سخاوت اور مہمان نوازی میں مشہورتھے حضرت عبدالمطلب خانہ کعبہ کے متولی تھے اور دور دراز سے آنے والے مہمانوں کے کھانے پینے كا انتظام کرتے تھے۔شریعت اسلامیہ میں مہمان نوازی کی بہت تعریف کی گئ ہے اور مہمان نواز شخص کو معاشرے کے بہترین لوگوں میں سے شمار کیا گیا ہے

1۔ حضرت ابراھیم علیہ سلام کی مہمان نوازی: آپ علیہ سلام کی مہمان نوازی کو اللہ کریم نے قرآن میں ارشاد فرمایا

هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَ ترجمۃ _ اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔(القرآن سورۃ زاریات آیات نمبر 24 تفسیر صراط الجنان)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہمان نوازی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے ۔

مہمان نوازی کے آداب :1 خوش آمدید کہنا۔ مہمان کو خوش آمدید کہنا اور اس کی خاطر مدارت کرنا

2 مہمان کی ضروریات کا خیال رکھنا:مہمان کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا

3 تکلیف نہ دینا:مہمان کو کسی بھی طرح کی تکلیف نہ دینا اور اس کی راحت کا پورا خیال رکھنا

4 ضرورت سے زیادہ نہ پوچھنا:مہمان کی نجی زندگی یا ضروریات کے بارے میں غیر ضروری سوالات نہ کرنا

اسلام میں مہمان نوازی کو ایک عظیم عبادت سمجھا جاتا ہے اور اس کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے مہمان کا اکرام دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

2_ ایک مرتبہ نبی کریم صلى اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا حضور! میں بھوک سے بے تاب ہوں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمہات المومنین رضی اللہُ عنہن میں سے کسی ایک کو اطلاع کرائی جواب آیا کہ یہاں تو پانی کے سوا کچھ نہیں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے گھر آدمی کو بھیجا وہاں سے بھی یہی جواب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا آج کی رات کون اسے قبول کرتا ہے ایک صحابی انصاری نے اس مہمان کی میزبانی كا شرف حاصل کرنے کی استدعا کی اور وہ انصاری مہمان کو اپنے گھر لے گئے ان کی بیوی نے کہا ہمارے پاس تو صرف بچوں کے لائق کھاناہے صحابئ رسول نے کہا بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو کسی بہانے چراغ بجھا دینا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جانا تا کہ اس کو یہ محسوس ہو کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں صبح ہوئی تو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کو رات فلاں اور فلانہ نے اپنے مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا ہے وہ خدا کو بہت پسند آیا ہے۔(صحيح البخار کتاب التفسیر القرآن باب قوله: {ويؤثرون على أنفسهم} 6ج،ص148، رقم الحديث:4889)

3۔ مہمان نوازی کا حکم:ابن عربی نے فرمایا: ضیافت فرض کفایہ ہے :( تفسير القرطبي، ج9،ص65) اور کچھ علماء نے کہا: یہ ان دیہاتوں میں واجب ہے ۔ جہاں نہ کھانے کے لئے کچھ ملتا ہو اور نہ ہی رہنے کے لیے کوئی جگہ ہو بخلاف شہروں کے جہاں رہنے كا انتظام بھی ہوتا ہے اور کھانے پینے کی بھی فراوانی ہوتی ہے اور اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ مہمان کریم ہوتا ہے اور مہمان نوازی کرنا اعزاز ہے۔

4_ مہمان کی عزت وتکریم کرنا :نبی کرم علیہ سلام نے واقف اور اجنبى، فقیر اور غنی كا فرق کیے بغیر مطلقا مہمان کی عزت و تکریم کو ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت قراردیا ہے۔

أبو شريح العدوی سے مروی ہے میرے ان كانوں نے سنا ہے اور میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرما رہے تھے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہم سایہ کی تکریم کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر (یعنی پہلے دن خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم کرے کسی نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جائزہ کیاہے!؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک دن رات ( مہمان كا خصوصی ) اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو وہ صدقہ شمار ہوتی ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پرایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔ (الأدب المفرد، لمحمد بن إسماعيل البخاري، ابو عبد الله (المتوفى:256هـ) ، بتحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، دار البشائر الإسلامية بيروت، الطبعة : الثالثة 1409-9198،ص 259)

مجموعی طور پر مہمان کے حقوق کا احترام اور ان کی فراہمی میزبان کی ذمہ داری ہے، جو معاشرتی تعلقات کو مضبوط کرنے اور خوشگوار ماحول پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔

اللہ کریم ہمیں اسلامی اصولوں پر اور شریعتِ اسلامی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


جہاں اسلام نے دیگر چیزوں کے حقوق کا خیال رکھا وہی مہمان کے حقوق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ۔ اللہ پاک قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔(پارہ نمبر 28، سورہ حشر، آیت نمبر 9)

اس آیت مبارکہ میں عظیم الشان مہمان نوازی کی طرف اشارہ ہے حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل و عیال کو خود کھانے کی خواہش تھی مگر وہی کھانا مہمان کو پیش کر دیا تو قرآن مجید نے ان کے اس فعل کی تعریف بیان کی ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی ذات پر مہمان کو ترجیح دیں

مہمان کے حقوق پر مشتمل ایک حدیث پاک پڑھیے:

عَنْ ابی ہریرۃ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ،فَلَايُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ ،وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا اَوْ لِيَسْكُتْ. ترجمہ : حضرت سَیِّدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : “ جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے اور جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یاخاموش رھے۔(فیضان ریاض الصالحین جلد:3 , حدیث نمبر:308،)

اس حدیث پاک سے پتہ چلا کہ میزبان کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی خدمت میں کوئی کمی نہ کرے۔آئیے چند حقوق مزید پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔

1 مہمانوں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرا کر فورا اس کے کھانے پینے کا انتظام کیا جائے

2 اسی طرح کسی بہانے تھوڑی دیر کے لیے مہمانوں سے دور ہو جانا چاہیے تاکہ ان کو ارام کرنے اور دوسری ضروریات سے فارغ ہونے میں تکلیف نہ ہو

3 کھانا مہمانوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور ان کو کھانے کا حکم نہیں دینا چاہیے ہاں بلکہ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اپ کھانا کیوں نہیں کھا رہے

4 مہمانوں کے کھانے سے مسرور اور نہ خانے سے مغموم ہونا چاہیے کیونکہ جو لوگ بخیل ہوتے ہیں وہ کھانا تو مہمانوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں لیکن ان کے دل میں ایک خواہش ہوتی ہے کہ مہمان کھانا کم کھائے یا نہ کھائے تاکہ وہ ہمارے اہل و عیال کے کام آ جائے

5 مہمانوں کی دل جوئی کے لیے خوش خلقی اور خندہ پیشانی سے بات چیت کرنی چاہیے اور بیکار بات چیت کر کے دماغ کو پریشان نہیں کرنا چاہیے

6 مہمانوں کی عزت و تکریم کرنی چاہیے اگر کوئی شخص ان سے اہانت امیز برتاؤ کرے تو میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی طرف سے مدافعت کرے

7 مہمانوں کے کھانے پینے کا انتظام پوشیدہ طور پر ان کی نگاہوں سے چھپا کر کرنا چاہیے اس لیے کہ اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے لیے کچھ کیا جا رہا ہے تو وہ ازرائے تکلف اس سے روکیں

8 اسی طرح مہمانوں کے انے پر ان سے خوش اخلاقی کے ساتھ ملنا چاہیے اور خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کہ آپ کے انے سے خوشی ہوئی

اللہ تعالی ہم سب کو مہمانوں کے حقوق کی پاسداری کرنے اور شریعت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین


اللہ کے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ

یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔(بخاری، ج4،ص105،حدیث:6019)

مہمان کے اِکرام سے کیا مُراد ہے!حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:مہمان (Guest) کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(مرآۃالمناجیح، ج6،ص52)

علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو۔(شرح البخاری لابن بطال،ج4،ص118)

مہمان نوازی کی فضیلت:امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔(شرح النووی علی المسلم، ج2،ص18)

مہمان نوازی کی فضیلت پرتین احادیث:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔(ابن ماجہ،ج4،ص51،حدیث:3356)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چُھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک پہنچ جاتی ہےاس لئے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد پہنچتی ہے۔(مرآۃالمناجیح، ج6،ص67)

(2)نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء، ج2،ص33، حدیث:1641)

3)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔(کنزالعمال، ج5،ص110،حدیث:25878)

میزبان کے لئے آداب: (1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2)کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے (3)مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے (4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے(5)مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔(احیاءالعلوم، ج2،ص21)

مہمان کیلئے آداب:(1)جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے (2)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو(3)صاحبِ خانہ کی اجازت کے بغیر وہاں سے نہ اُٹھے(4)جب وہاں سے جائے تو اس کے لئے دُعا کرے۔ (بہارشریعت، ج3،ص394)

اللہ پاک ہمیں میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مہمان کی مہمان نوازی کرنا انبیائے کرام کا طریقہ ہے۔ اسلامی معاشرے میں مھمان کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اسلامی معاشرے میں مہمان کی مہمان نوازی بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ اسلام میں جسطرح پڑوسیوں رشتہ داروں بزرگوں اور یتیموں کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ اسی طرح مہمانوں کے حقوق بھی ذکر کئے گئے ہیں ۔ موجودہ چیز پیشیں کرنا : حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ۔ پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جو چیز ہمارے پاس نہیں اس کے بارے میں ہم مہمان کے لیے تکلف نہ کریں اور جو کچھ موجود ہو پیش کر دیں.( التاريخ الكبير بالنحاري ، باب الحاء باب حسین ۳۷۵/۲ الرقم ۲۸۶ حسین بن الرماس العبدي )

مہمان نوازی کی اہمیت : ایک دفعہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے یہاں مہمان حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قرض لے کر اس کی مہمان نواز فرمائی چنانچہ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ابو رافع کہتے ہیں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کے فلاں یہودی سے کہو مجھے آٹا قرض دے رجب شریف میں ادا کر دوں گا۔ کیونکہ ایک مہمان میرے پاس آیا ہوا ہے۔ یہودی نے کھا جب تک کچھ گروی نہیں رکھو گئے نہ دوں گا۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں واپس آیا۔ اور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اس کا جواب عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے فرمایا ۔ واللہ ! میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوں اگر وہ دے دیتا تو میں ادا کر دیتا ۔ اب میری وہ زرہ لے جا اور گروی رکھ آ میں لے گیا اور زرہ گروی رکھ کر لایا ( کیمیائے سعادت)

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوست کون : سرکار مدینه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے دوست رکھے تو اسے چاہیے کہ مہمان کے ساتھ کھانا کھائے۔،،( درة الناصحين)

مہمان کا حق سنت سے ثابت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے ۔

حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ جس گھر میں مہمان نہیں آتا اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔( احیا العلوم 43 / م /2/ج)

دعوت کرنے والے کو چاہیے کہ نیک لوگوں کی دعوت کرے نہ کے فساق و فجار کی میزبان کو چاہیے کہ آگے بڑھ کر مہمان کو سلام کرے اور خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے۔

میزبان پر لازم ہے کہ مہمان کو اچھا کھانا کھلائے : میزبان اگر مہمان کو کھانا نا کھلانا چاہتا ہو تو ان کے سامنے کھانا ظاہر کرنا یا اس کے اوصاف بیان کرنا مناسب نہیں ۔ حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمہارا بھائی جب تم سے ملنے آئے تو اس سے یہ نہ پوچھو کہ کھانا کھاؤ گئے بلکہ کھانا پیش کر دو۔


مہمان نوازی اچھے اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی علامت اور اسلام کے اداب میں سے ہے مہمان کی عزت و احترام اور اس کی خاطر تواضع کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اور اولیاء عظام رحمہم اللہ تعالی کی خصلت ہے کیا نام ہے فتاوی رضویہ میں ہے،،مہمان کا اکرام عین اکرام خدا ہے،،جب کبھی مہمان آ جائے تو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوش دلی کے ساتھ اس کی خدمت کرنی چاہیے جس گھر میں مہمان اتا ہے اس گھر میں خیر و برکت اتنی تیزی سے اتی ہے جتنی تیزی سے چھری اونٹ کا کوہان کاٹ دیتی ہے الغرض مہمان کی عزت و تکریم میں فائدہ ہی فائدہ ہے اب ہم کچھ مہمان کے حقوق پیش خدمت کرتے ہیں 

کھانا حاضر کرنا :کھانا مہمان کے سامنے لا کر رکھنا چاہیے مہمان کو کھانے کی طرف نہیں بلانا چاہیے ۔ (تفسیر کبیر پارہ 26 جلد 10 صفحہ نمبر 177)

صلہ رحمی کرنا : سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی تعظیم کرے اور جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اور صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے۔ (بخاری شریف کتاب الادب جلد 4 صفحہ 136 حدیث 4138)

جانور ذبح کرنا : نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو اپنے مہمان کے لیے جانور ذبح کرے وہ جانور دوزخ سے اس کا فدیہ ہو جائے گا ۔ (جامع صغیر حرف المیم صفحہ 526 حدیث 8672)

مہمان کو کھانا کھلانا :سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کھانا کھلایا یہاں تک کہ وہ سیر ہو گیا اور پانی پلایا یہاں تک کہ وہ سیراب ہو گیا تو اللہ عزوجل اسے جہنم سے سات خندقوں کی مسافت دور کرے گا ہر دو خندقوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے ۔(المعجم الکبیر جلد 13 صفحہ 39 حدیث 135)

الوداع کے وقت ساتھ جانا : مہمان کو الوداع کے وقت کچھ دور پہنچانے جانا سنت ہے ۔ (مراۃ المناجیح جلد4 صفحہ 38)


الحمد لله ہم مسلمان ہیں اور اسلام ہماری ہر معاملے میں رہنمائی فرماتا ہے زندگی کیسے۔ اور کس طرح گزارنی ہے اس حوالے سے بھی ہماری رہنمائی فرماتا ہے جس طرح اسلام نے ہماری دیگر معاملات میں ہماری رہنمائی کی ہے وہیں پر مہمان کے حقوق کے بارے میں بھی ہماری رہنمائی کی ہے آئیں اس بارے میں کچھ احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں۔

(1) مہمان کی تعظیم: حضور نبی کریم صلى الله تعالى عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی تعظیم کرے۔ (فیضان ریاض الصالحین ، 72/6)

(2)مہمان کی خاطر داری کرنا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی،عزت، خاطر داری کرے۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جائز تہ کا کیا مطلب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دن اور ایک رات کی خدمت " جائزہ ہے اور تین دن کی خدمت ضیافت ہے اور اس سے زیادہ خدمت اس پر صدقہ ہے۔( ایمان کی شاخیں ، 598)

(3) مہمان کا استقبال: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی اپنے مہمان کا استقبال دروازے سے باہر نکل کر کرے اور رخصت کے وقت (مہمان کو )گھر کے دروازے تک پہنچائے۔ ( ایمان کی شاخیں ، 600 صفحہ) (4)

مہمان کو تکلیف نہ دیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے. اسے چاہیے کہ وہ مہمان کو ایذا نہ دے۔ ) (اکرام الضيف ، مترجم ، 21 / صفحہ جمیعت اشاعت اهلسنت پاکستان) (5)

مہمان سے اچھا سلوک: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوشخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے اسے چاہیے کہ ان (مہمان) کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ ( اکرام الضیف ، مترجم ، 20 صفحه جمیعت اشاعت اهلسنت پاکستان)

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مہمان کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین