اسلام ایک پرامن دین ہے ۔جو زندگی  کے ہر معاملے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر اچھے معاملے کا درس دیتا ہے۔ ۔انھیں معاملوں میں ایک معاملہ مہمان کے حقوق بھی ہیں۔مہمان کی خاطر(داری) ایمان کا تقاضاء ہے۔اور مہمان نوازی کرنا سنت انبیاء ہے،دین اسلام نے مہمان کے حقوق کو میزبان پر لازم قرار دیا۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی مہمان کے حقوق کا خیال رکھنے کی بہت  تاکید فرمائی۔  اور فرمایا: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ،یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔ (صحیح بخاري،433/2،حدیث:6138)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:مہمان کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔ (مراة المناجیع ، 52/6 )

سنت ابراہیم علیہ السلام ہے: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذ ([69])(ھود) ترجمۂ*کنز العرفان،اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ۔انہوں نے ’’سلام‘‘ کہا تو ابراہیم نے ’’سلام‘‘ کہا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔

  تفسیر خزائن العرفان میں ہے  ۔ سادہ رُو، نوجوانوں کی حسین شکلوں میں فرشتے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس حضرت اسحق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش کی خوشخبری لے کر آئے۔ فرشتوں نے سلام کہا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی جواب میں فرشتوں کو سلام کہا، پھر تھوڑی ہی دیر میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے اور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے ،اس وقت ایسا اتفاق ہوا کہ پندرہ روز سے کوئی مہمان نہ آیا تھا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا غم تھا ۔اور جب ان مہمانوں کو دیکھا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے لئے کھانا لانے میں جلدی فرمائی، چونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہاں گائے بکثرت تھیں اس لئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت سامنے لایا گیا۔ (خزائن العرفان ھود تحت الایۃ 69ص 413)

مہمان نوازی کی فضیلت پر دو احادیث:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ عیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اتنی تیزی سے اُترتی ہے۔جتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔  (مشکوۃ المصابیح 2 /457 حدیث4257)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث كے تحت فرماتے ہیں:اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے ۔اسے چُھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک پہنچ جاتی ہے۔اس لئے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد پہنچتی ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص67 )

(2)نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء،33/2، حدیث:1641 )

حضورصلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے مہمان نوازی کی: حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم   کے غلام تھے ۔ آپ فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مہمان آیا۔  حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے  مجھے فرمایا جاؤ!  فلاں یہودی   کے پاس  اور کہو کہ میرا مہمان آیا ہے۔ مجھے رجب کے مہینے تک کے لیے کچھ آٹا بھیج دے۔  یہودی یہ سن کر بولا ! بخدا میں ان کو کچھ  نہیں دوں گا مگر یہ کہ کچھ رہن رکھا  جاۓ۔  میں نے جاکر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خبر اس کی دی ۔آپ نے فرمایا بخدا!  میں آسمانوں  میں  امین ہوں، اور زمینوں میں امین ہوں،  اور اگر وہ مجھے دے دیتا تو میں ضرور اسے ادا کردیتا ،جاؤ میری زرہ لے جاؤ  اور اس کے پاس رہن  رکھ دو ۔( مسند البزار،315/ 9،حدیث: 3863)

مہمان کی خدمت خود کرے: حضرت سیدنا امام شافعی اپنے استاذ محترم حضرت امام مالک کے مہمان بنے تو امام مالک نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کے ہاتھ پر پانی ڈالا اور ان سے کہا یہ دیکھ کر تم گھبراؤنہیں بلکہ اس بات کو زہن نشین کر لو کہ مہمان کی خدمت کرنا میزبان پر لازم ہیں ۔   (دین و دنیا کی انوکھی باتیں،436/1)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں: میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں   خود مشغول ہو، خادموں   کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم   علیہ ا لصلوۃ والتسلیم کی سنت ہے اگر مہمان تھوڑے ہوں   تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضاء مُروت(اخلاق) ہے۔ اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں   مشغول ہو۔      (بہار شریعت، 3/ 397 )

مہمان کیلیے تکلف کرنا: حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم   نے ہمیں حکم دیا کہ ہم مہمان کے لیے تکلف نہ کریں کسی مہمان کے لیےاس چیز کا جو ہمارے پاس نہ  ہو   ہم وہی چیز پیش کریں ہمارے پاس موجود ہو ۔ ( در منثور، صٓ، تحت الایة :86 )

بعض بزرگ فرماتے ہیں تکلف یہ ہے  کہ تو اپنے بھائی کو وہ کھلائے جو تو خود نہیں کھاتا اور اس سے بھی عمدہ اور قیمتی  کھانا کھلانے کا ارادہ کرے۔  بلکہ جو اسے آسانی سے میسر آۓ وہی پیش کرے۔   ( احیاء العلوم،2/ 35 )

بخل نہ کرے :اور جو اپنے پاس ہے اس میں بخل نہ کرے۔ روایت ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہ میں نے نبی اکرم رصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ ہم کو بھیجتے ہیں بعض اوقات ہم ایسی قوم پر اترتے ہیں  وہ ہماری خدمت نہیں کرتے تو حضور کیا حکم ہے تب آپ نے فرمایا ۔جب تم کسی قوم پر اترو پھر تھمارے لیے وہ دیں جو مہمانی کیلے مناسب ہے تو اسے قبول کرلو۔اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا  وہ حق لے  لو جو مہمانی کیلے کافی ہو ۔ (ابو داوٗد،176/2حدیث :3752 )

حضور کا گزر ایسے شخض کے پاس سے ہوا جس کے پاس بہت سی گاۓ اور بکریاں تھی مگر اس نے مہمان نوازی نہ کی اور ایک ایسی عورت کے پاس سے آپ کا گزر جس کے پاس چھوٹی چھوٹی بکریاں تھی اور اس نے حضور کیلئے ایک بکری کو زبح کیا۔ تب آپ نے فرمایا ان دو کو دیکھو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں اخلاق ہے ۔ ( شعب الایمان،7/ 93، حدیث: 9597)

خلیل اللہ ہونے کی وجہ:حضرت  ابراہیم خلیل اللہ  علیہ السلام سے عرض کی گئی کہ آپ کو کس وجہ سے خلیل بنایا۔ ارشاد فرمایا تین وجوہات کی بنا پر :1،مجھے جب بھی دو چیزوں میں اختیار دیا  گیا۔ تو  میں نے غیر اللہ  کے مقابلے میں اسے اختیار کیا جو مجھ پر اللہ کے لیے ہو۔ 2،جس چیز کا زمہ اللہ نے میرے لئے کیا ہے میں نے کھبی اس کے لیے اہتمام نہیں کیا۔ 3,میں نے کھبی کھانا مہمان کے بغیر نہیں کھایا۔ ( دین و دنیا کی انوکھی باتیں431/ 1)                            

ایک بستر مہمان کے لیے: حضرت جابر سے روایت رسول  ﷲ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایاکہ ’’ایک بچھونا مرد کے لیے اور ایک اُس کی زوجہ کے لیے اور تیسرا مہمان کے لیے اور چوتھا شیطان کا ہو گا ۔ (صحیح مسلم، 2/ 202حدیث5452 )  

اس حدیث کے تحت مفتی احمد یار خان  نعیمی فرماتے ہیں ۔اہل عرب فخریہ طور پر بہت سے بستر  بناتے اور ان سے گھر سجاتے ۔(مراة المناجیع ،ج 6ج97 )یعنی گھر کے آدمیوں   اور مہمانوں   کے لیے بچھونے جائز ہیں اور حاجت سے زیادہ نہ چاہیے۔

مہمان کو رخصت کرنے: حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے روایت ہے، رسول  اﷲ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم  نے فرمایا ’’سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے۔‘‘     ( سنن ابن ماجہ،86/2، حدیث: 3358)

اللہ پاک ہمیں میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق  عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔