سید ابو امین محمد مبین رضا عطاری
جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور،
پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو: مہمان کے آنے پر اس کا پرتپاک استقبال کرنا، اسے خوش آمدید کہنا
اور اس کی خاطر مدارات کرنے کا رواج روزِ اوّل سے ھی اللہ و آخرت پر ایمان رکھنے
والوں کا شعار رھا ھے۔
ہر ملک، علاقے
اور ہر قوم میں گو کہ مہمان نوازی کے انداز و اطوار مختلف ضرور ہیں لیکن اس بات میں
کسی قوم کا بھی اختلاف نہیں کہ آنے والے مہمان کے اعزاز و اکرام میں اس کا پرتپاک
استقبال کرنا، اسے خوش آمدید کہنا اور اس کی اپنی حیثیت کے مطابق بڑھ چڑھ کر ہر
ممکنہ خدمت سر انجام دینا اس کا بنیادی حق ھے۔ اس لئے کہ دنیا کی ھر مہذب قوم کے
نزدیک مہمان کی عزت و توقیر خود اپنی عزت و توقیر اور مہمان کی ذلت و توہین خود
اپنی ذلت و توہین کے مترادف سمجھی جاتی ھے۔
لیکن ہمارے دینِ
اسلام نے مہمان نوازی کے متعلق جو بہترین اصول و قواعد مقرر کئے ہیں یا جس خوب
صورت انداز سے اسلام نے ہمیں مہمان نوازی کے آداب و ضوابط کا پابند بنایا ھے، دنیا
میں اس کی مثال نہیں ملتی۔قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں مہمان نوازی کی بڑی فضیلتیں
وارد ھوئیں ھیں ان میں سے چند ایک پیشِ خدمت ہیں ۔۔
چنانچہ حضرتِ سیدنا ابوشریح خویلد بن عمرو الخزاعی رضی
اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو یہ
ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اللہ تعالی اور اخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ
اپنے مہمان کی جائزہ( کے طور پر )مہمان نوازی کرے لوگوں نے دریافت کیا یا رسول
اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جائزہ سے کیا مراد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ
والہ وسلم نے فرمایا ایک دن اور ایک رات اہتمام کے ساتھ دعوت کرنا اور تین دن عام
مہمان نوازی کرنا اس کے بعد اگر وہ مہمان نوازی کرے تو یہ اس کی طرف سے اس مہمان
کے لئے صدقہ ھوگا۔
مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کسی مسلمان کے لئے یہ بات جائز
نہیں ھے وہ اپنے بھائی کےپاس اتنا عرصہ رھے کہ اس سے گنہگار کر دے۔ لوگوں نے عرض کی
یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم وہ اسے گنہگار کیسے کرے گا اپ علیہ
الصلوۃ والسلام نے فرمایاوہ اس کے پاس ٹھہرا رھے یہاں تک کہ اس میزبان کے پاس کوئی
ایسی چیز نہ رھے کہ جو اس کے سامنے پیش کر سکے ۔(شرح ریاض الصالحین ص32 حدیث 710،
بابُ اِکرَام الضَّیفِ، باب94مطبوعہ شبیربرادرز)
2) حضرت سَیِّدنا
ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : “
جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے
اور جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جواللہ
عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یاخاموش
رھے۔(فیضان ریاض الصالحین جلد:3 , حدیث نمبر:308،)
3)۔ایک انوکھی
سی مہمان نوازی والا پیارا سا واقعہ سنتے ہیں۔ ایک دن حضرتِ سیِّدُناعثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ
نےحُضور نبیِّ کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعوت کی۔جب دونوں
عالَم کےمیزبان حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے
مکان پر رونق افروز ہوئے تو حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ آپ
کےپیچھے چلتے ہوئے آپ کےقدموں کو گننے لگے اور عرض کیا:
یارسولَ الله
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!میرے ماں باپ آپ پرقربان! میری
تمنا (Wish) ہےکہ حُضور کے ایک ایک قدَم کے عِوَض میں آپ کی تعظیم و تکریم
کےلیےایک ایک غلام آزاد کروں۔چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُناعثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ
عَنْہ کےمکان تک جس قدَر حُضور علیه الصلوۃوالسلام کےقدَم پڑے تھے حضرتِ سیِّدُنا
عثمانِ غنی نےاتنی ہی تعدادمیں غلاموں کو خرید کر آزاد کر دیا۔
حضرتِ سیِّدُناعلی
کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اس دعوت سے مُتَأثِّر ہو کر
حضرتِ سیِّدَہ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سےکہا:اےفاطمہ!آج میرےدِینی
بھائی حضرتِ سیِّدُناعثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نےحُضورِاَکرَم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بڑی ہی شانداردعوت کی ہے
اورحُضورِ اَکرَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےہرہرقدَم
کےبدلےایک غلام آزاد کیاہے، میری بھی تمنّاہےکہ کاش!ہم بھی حُضورکی اسی طرح
شانداردعوت کر سکتے۔
حضرتِ سیِّدَتُنافاطمہ
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا نےاپنےشوہرِنامدارحضرتِ سیِّدُناعلیُّ المرتضٰی کَرَّمَ
اللّٰہُ وجہہ الکریم کے اس جذبہ سے مُتَأثِرہوکرکہا: بَہُت اچھا،جائیے، آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بھی حُضور صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کواسی قسم کی دعوت دیتےآئیے!
ہمارے گھر میں
بھی اسی قسم کا سارا اِنتِظام ہو جائےگا۔چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا علی کَرَّمَ
اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نےبارگاہِ رِسالت میں حاضِر ہوکر دعوت دے دی
اور شہنشاہِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے
صحابۂ کرام کی ایک کثیر جماعت کو ساتھ لے کر اپنی پیاری بیٹی کے گھرمیں تشریف
فرما ھو گئے۔حضرتِ سیِّدَہ خاتونِ جنّت تنہائی میں تشریف لےجاکر خداوندِ قُدُّوْس
کی بارگاہ میں سربسجود ہوگئیں اور یہ دعامانگی:
یااللہ! تیری
بندی فاطمہ نے تیرےمحبوب اور اَصحابِ محبوب کی دعوت کی ہے، تیری بندی کاصرف تجھ ہی
پر بھروسا ہے، لہٰذااے میرےربّ! تُو آج میری لاج رکھ لےاور اس دعوت کےکھانوں کا
تُو عالَمِ غیب(یعنی دوسرا جہاں جو چھپا ہوا ہے) سےاِنتِظام فرما۔یہ دُعا مانگ کر
حضرتِ سیِّدَتُنا بی بی فاطمہ رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے ہانڈیوں کوچولہوں پرچڑھا دیا۔ اللہ کریم کادَرْیائے کرَم ایک دم جوش میں آگیااور(فوراً)
ان ہانڈیوں کو جنّت کےکھانوں سےبھر دیا۔ حضرتِ سیِّدَتُنابی بی فاطمہ رَضِیَ
اللّٰہُ عَنْہانےان ہانڈیوں میں سےکھانا نکالنا شروع کر دیا اورحُضورصَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابۂ کرام کے ساتھ کھانا
کھانے سے فارِغ ہوگئے،لیکن خدا کی شان کہ ہانڈیوں میں سے کھانا کچھ بھی کم نہیں
ہوا اور صحابۂ کرام ان کھانوں کی خوشبو اور لذّت سے حیران رہ گئے۔حُضورِاَکرم علیه
الصلوۃوالسلام نے صحابَۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو حیران دیکھ کرفرمایا:
کیا تم لوگ
جانتے ہوکہ یہ کھاناکہاں سے آیا ہے؟صحابَۂ کِرام نے عرض کیا: نہیں یَارَسُوْلَ
الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!آپ نےارشاد فرمایا: یہ
کھانا اللہ پاک نے ہم لوگوں کےلئےجنّت سے
بھیجا ھے۔پھرحضرتِ سیِّدَتُنا فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا گوشۂ تنہائی میں
جاکرسجدہ ریز ہو گئیں اوریہ دُعا مانگنے
لگیں:
یااللہ!حضرتِ
عثمان رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے تیرےمحبوب کےایک ایک قدَم کے عِوَض ایک ایک غلام
آزاد کیا ھے ۔لیکن تیری
بندی فاطمہ
کواتنی اِستِطاعت نہیں ہے، اے خداوند ِعالَم!جہاں تُونےمیری خاطِر جنّت سے کھانابھیج
کر میری لاج رکھ لی ہے، وہاں تُو میری خاطِر اپنے محبوب کےان قدَموں کےبرابر
جتنےقدَم چل کر میرے گھرتشریف لائے ہیں، اپنےمحبوب کی اُمَّت کے گنہگاربندوں
کوجہنّم سے آزاد فرمادے۔
حضرتِ سیِّدَتُنافاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہا جُوں ہی اس دعاسےفارِغ ہوئیں ایک دم حضرتِ سیِّدُناجبریل امین عَلَیْہِ
السَّلَام یہ بِشارت لےکر بارگاہِ رِسالت میں حاضر ہوئےکہ یارسولُالله صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!حضرتِ فاطمہ(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا)کی
دُعابارگاہِ الٰہی میں مقبول ہو گئی، اللہ کریم نےفرمایاھے کہ ہم نےآپ کے ہر قدَم
کے بدلےمیں ایک ایک ہزار 1000گنہگاروں کو جہنّم سے آزاد کر دیا۔ (جامِعُ الْمُعْجِزات،ص۲۵۷ملخصاً)