ظہور احمدعُمرانی (درجۂ سادسہ
جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
کوئی بھی اچھی
خصلت اور روایت ایسی نہیں
ہے جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں تعلیم نہ دی ہو دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں میں جو اچھی
عادات و رسوم رواج ہیں اسلام میں ان کے بارے میں تعلیمات موجود ہیں۔ ایسی طرح
مہمان نوازی اچھی ثقافتوں میں سے ایک ہے اسلام میں مہمان نوازی کو بہت اہمیت دی گئی
ہے اور اسے ایک اعلیٰ اخلاقی قدر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں مہمان
نوازی کے بارے میں کئی احکام اور مثالیں ملتی ہیں
"مہمان"
اردو زبان کا لفظ ہے جو کسی ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کسی کے گھر ، مقام
یا تقریب میں مدعو کیا گیا ہو یہ عام طور پر اس شخص کی عزت اور خاطر مدارت کے ساتھ
استقبال اور میزبانی کے لیے بولا جاتا ہے مہمان نوازی اردو اور پاکستانی ثقافت کا
اہم حصہ ہے جہاں مہمان کو خصوصی توجہ، کھانا پینا، اور آرام کی سہولتیں فراہم کی
جاتی ہیں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی كا
قصہ بیان فرما کر اس فعل کو محمود قرار دیاہے۔
اور انکے اس
فعل کی وجہ سے ابوالضیفان كا لقب عطا کیاگیا۔
نبی اکرم علیہ
سلام کے آباء و اجداد بھی اپنی سخاوت اور مہمان نوازی میں مشہورتھے حضرت عبدالمطلب
خانہ کعبہ کے متولی تھے اور دور دراز سے آنے والے مہمانوں کے کھانے پینے كا انتظام
کرتے تھے۔شریعت اسلامیہ میں مہمان نوازی کی بہت تعریف کی گئ ہے اور مہمان نواز شخص
کو معاشرے کے بہترین لوگوں میں سے شمار کیا گیا ہے
1۔
حضرت ابراھیم علیہ سلام کی مہمان نوازی: آپ علیہ سلام کی مہمان نوازی کو اللہ کریم نے قرآن میں ارشاد فرمایا
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ
الْمُكْرَمِیْنَ ترجمۃ _ اے محبوب
کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی
خبر آئی۔(القرآن سورۃ زاریات آیات نمبر 24 تفسیر صراط الجنان)
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہمان نوازی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے ۔
مہمان
نوازی کے آداب :1 خوش آمدید کہنا۔ مہمان
کو خوش آمدید کہنا اور اس کی خاطر مدارت کرنا
2
مہمان کی ضروریات کا خیال رکھنا:مہمان
کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا
3
تکلیف نہ دینا:مہمان کو کسی بھی
طرح کی تکلیف نہ دینا اور اس کی راحت کا پورا خیال رکھنا
4
ضرورت سے زیادہ نہ پوچھنا:مہمان کی
نجی زندگی یا ضروریات کے بارے میں غیر ضروری سوالات نہ کرنا
اسلام میں
مہمان نوازی کو ایک عظیم عبادت سمجھا جاتا ہے اور اس کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے
مہمان کا اکرام دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
2_ ایک مرتبہ نبی کریم صلى اللہ علیہ و سلم کی
خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا حضور! میں بھوک سے بے تاب ہوں
آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اُمہات المومنین رضی اللہُ عنہن میں سے کسی ایک کو اطلاع کرائی جواب آیا کہ یہاں تو پانی کے سوا کچھ نہیں ہے
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے گھر آدمی کو بھیجا وہاں سے بھی یہی جواب آیا
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابیوں کی
طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا آج کی رات کون اسے قبول کرتا ہے ایک صحابی انصاری نے اس
مہمان کی میزبانی كا شرف حاصل کرنے کی استدعا کی اور وہ انصاری مہمان کو اپنے گھر
لے گئے ان کی بیوی نے کہا ہمارے پاس تو صرف بچوں کے لائق کھاناہے صحابئ رسول نے
کہا بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو کسی
بہانے چراغ بجھا دینا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جانا تا کہ اس کو یہ محسوس
ہو کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں صبح ہوئی تو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کو رات فلاں اور فلانہ نے اپنے مہمان کے
ساتھ جو حسن سلوک کیا ہے وہ خدا کو بہت پسند آیا ہے۔(صحيح البخار کتاب التفسیر
القرآن باب قوله: {ويؤثرون على أنفسهم}
6ج،ص148، رقم الحديث:4889)
3۔
مہمان نوازی کا حکم:ابن عربی نے
فرمایا: ضیافت فرض کفایہ ہے :( تفسير القرطبي، ج9،ص65) اور کچھ علماء نے کہا: یہ
ان دیہاتوں میں واجب ہے ۔ جہاں نہ کھانے کے لئے کچھ ملتا ہو اور نہ ہی رہنے کے لیے
کوئی جگہ ہو بخلاف شہروں کے جہاں رہنے كا انتظام بھی ہوتا ہے اور کھانے پینے کی بھی
فراوانی ہوتی ہے اور اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ مہمان کریم ہوتا ہے اور مہمان نوازی
کرنا اعزاز ہے۔
4_
مہمان کی عزت وتکریم کرنا :نبی کرم
علیہ سلام نے واقف اور اجنبى، فقیر اور غنی كا فرق کیے بغیر مطلقا مہمان کی عزت و
تکریم کو ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت قراردیا ہے۔
أبو شريح
العدوی سے مروی ہے میرے ان كانوں نے سنا ہے اور میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرما رہے تھے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان
رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہم سایہ کی تکریم کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر
اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر (یعنی پہلے دن خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم
کرے کسی نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم جائزہ کیاہے!؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک دن رات ( مہمان كا خصوصی )
اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو
وہ صدقہ شمار ہوتی ہے اور جو شخص اللہ
تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پرایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اچھی بات کرے ورنہ
خاموش رہے۔ (الأدب المفرد، لمحمد بن إسماعيل البخاري، ابو عبد الله (المتوفى:256هـ) ، بتحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، دار البشائر الإسلامية
بيروت، الطبعة : الثالثة 1409-9198،ص 259)
مجموعی طور پر
مہمان کے حقوق کا احترام اور ان کی فراہمی میزبان کی ذمہ داری ہے، جو معاشرتی
تعلقات کو مضبوط کرنے اور خوشگوار ماحول پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔
اللہ کریم ہمیں
اسلامی اصولوں پر اور شریعتِ اسلامی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین