ابو عادل سانول (درجۂ خامسہ
جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
جہاں اسلام نے
دیگر چیزوں کے حقوق کا خیال رکھا وہی مہمان کے حقوق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ۔ اللہ
پاک قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ
یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔(پارہ نمبر 28، سورہ حشر، آیت نمبر
9)
اس آیت مبارکہ
میں عظیم الشان مہمان نوازی کی طرف اشارہ ہے حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ
اور ان کے اہل و عیال کو خود کھانے کی خواہش تھی مگر وہی کھانا مہمان کو پیش کر دیا
تو قرآن مجید نے ان کے اس فعل کی تعریف بیان کی ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی ذات پر
مہمان کو ترجیح دیں
مہمان کے حقوق
پر مشتمل ایک حدیث پاک پڑھیے:
عَنْ ابی ہریرۃ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ
وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ،فَلَايُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ
وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ ،وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ
وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا اَوْ لِيَسْكُتْ. ترجمہ : حضرت سَیِّدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے کہ
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : “ جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ
آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے اور جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ
آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان
رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یاخاموش رھے۔(فیضان ریاض الصالحین جلد:3 , حدیث
نمبر:308،)
اس حدیث پاک
سے پتہ چلا کہ میزبان کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی خدمت میں کوئی کمی نہ کرے۔آئیے
چند حقوق مزید پیش کرنے کی سعادت حاصل
کرتا ہوں۔
1 مہمانوں کے
حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرا کر فورا اس کے کھانے پینے کا
انتظام کیا جائے
2 اسی طرح کسی
بہانے تھوڑی دیر کے لیے مہمانوں سے دور ہو جانا چاہیے تاکہ ان کو ارام کرنے اور
دوسری ضروریات سے فارغ ہونے میں تکلیف نہ ہو
3 کھانا
مہمانوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور ان کو کھانے کا حکم نہیں دینا چاہیے ہاں بلکہ
اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اپ کھانا کیوں نہیں کھا رہے
4 مہمانوں کے
کھانے سے مسرور اور نہ خانے سے مغموم ہونا چاہیے کیونکہ جو لوگ بخیل ہوتے ہیں وہ
کھانا تو مہمانوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں لیکن ان کے دل میں ایک خواہش ہوتی ہے
کہ مہمان کھانا کم کھائے یا نہ کھائے تاکہ وہ ہمارے اہل و عیال کے کام آ جائے
5 مہمانوں کی
دل جوئی کے لیے خوش خلقی اور خندہ پیشانی سے بات چیت کرنی چاہیے اور بیکار بات چیت
کر کے دماغ کو پریشان نہیں کرنا چاہیے
6 مہمانوں کی
عزت و تکریم کرنی چاہیے اگر کوئی شخص ان
سے اہانت امیز برتاؤ کرے تو میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی طرف سے مدافعت کرے
7 مہمانوں کے
کھانے پینے کا انتظام پوشیدہ طور پر ان کی نگاہوں سے چھپا کر کرنا چاہیے اس لیے کہ
اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے لیے کچھ کیا جا رہا ہے تو وہ ازرائے تکلف اس سے
روکیں
8 اسی طرح
مہمانوں کے انے پر ان سے خوش اخلاقی کے ساتھ ملنا چاہیے اور خوشی کا اظہار کرنا
چاہیے کہ آپ کے انے سے خوشی ہوئی
اللہ تعالی ہم
سب کو مہمانوں کے حقوق کی پاسداری کرنے اور شریعت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
۔ امین