پیارے پیارے اسلامی بھائیو کوئی بھی اچھی خصلت اور عادت ایسی نہیں جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں تعلیم نہ دی ہو دنیا کی تمام تہذیبی ثقافتی  تعلیمات اسلام میں موجود ہے۔

ان میں سے ایک بہترین خصلت مہمان نوازی بھی ہے مہمان کے کئی حقوق ہیں جن کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے لہذا مہمان نوازوں کے لیے اللہ تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔ (پارہ 28، سورہ حشر،آیت نمبر 9)

اس مبارک آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی : یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے بھوک لگی ہوئی ہے ۔آپ نے ازواجِ مُطَہّرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے پاس کسی کو بھیج کر معلوم کیا لیکن کھانے کی کوئی چیز نہ ملی ،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص آج رات اسے مہمان بنائے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے ۔انصار میں سے ایک شخص کھڑے ہوئے اور عرض کی : یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں حاضرہوں ۔چنانچہ وہ اس آدمی کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی زوجہ سے کہا: رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہمان آیا ہے ، لہٰذا تم نے اس سے کوئی چیز بچا کر نہیں رکھنی ۔ انہوں نے عرض کی :ہمارے پاس تو بچوں کی خوراک کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ فرمایا:جب عشاء کا وقت ہو جائے تو تم بچوں کو بہلا پھسلا کر سُلا دینا،پھر جب ہم کھانا کھانے بیٹھیں تو تم چراغ درست کرنے کے بہانے آ کر اسے بجھا دینا،اگر آج رات ہم بھوکے رہیں تو کیا ہو گا۔چنانچہ یہی کچھ کیا گیا اور جب صبح کے وقت وہ شخص نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے تمہاری کار گزاری کو بہت پسند فرمایا ہے ،پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب ویؤثرون علی انفسہم۔۔۔ الخ، 3 328 الحدیث: 2889)

اسی طرح مہمان نوازی کی فضیلت کے بارے میں ہے : آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کسی قوم کے پاس مہمان جاتا ہے تو اپنا رزق ساتھ لے کر جاتا ہے اور جب واپس اتا ہے تو ان کے گناہ بخشوا کے اتا ہے ( اتحاد ذوالمروت والانافه المتوفی 974 )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہمان کے انے پر دل میں یہ نہیں محسوس کرنا چاہیے کہ خرچہ ہوگا کیونکہ مہمان اپنا رزق ساتھ لے کر اتا ہے

( حدیث) اسی طرح بری قوم کے بارے میں ایک حدیث ہے اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بری قوم وہ ہے جن کے ہاں مہمان نہیں ٹھہرتے ( شعب الایمان 458 ) اسی طرح مہمان کے کچھ حقوق ہیں جن میں سے چند عرض کرتے ہیں:

(1):: مہمانوں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرا کر فورا اس کے کھانے پینے کا انتظام کرنا چاہیے؛(:2): اسی طرح کسی بہانے تھوڑی دیر کے لیے مہمانوں سے دور ہو جانا چاہیے تاکہ ان کو ارام کرنے اور دوسری ضروریات سے فارغ ہونے میں تکلیف نہ ہو ؛(:3): کھانا مہمانوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور ان کو کھانے کا حکم نہیں دینا چاہیے ہاں بلکہ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اپ کھانا کیوں نہیں کھا رہے

(؛4،) مہمانوں کے کھانے سے مسرور اور نہ خانے سے مغموم ہونا چاہیے کیونکہ جو لوگ بخیل ہوتے ہیں وہ کھانا تو مہمانوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں لیکن ان کے دل میں ایک خواہش ہوتی ہے کہ مہمان کھانا کم کھائے یا نہ کھائے تاکہ وہ ہمارے اہل و عیال کے کام ا جائے :(:5): مہمانوں کی دل جوئی کے لیے خوش خلقی اور خندہ پیشانی سے بات چیت کرنی چاہیے اور بیکار بات چیت کر کے دماغ کو پریشان نہیں کرنا چاہیے :::( 6) مہمانوں کی تکریم جز ایمان ہے اگر کوئی شخص ان سے اہانت امیز برتاؤ کرے تو میزبان پر فرض ہے کہ مہمان کی طرف سے مدافعت کرے (7) مہمانوں کے کھانے پینے کا انتظام پوشیدہ طور پر ان کی نگاہوں سے چھپا کر کرنا چاہیے اس لیے کہ اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے لیے کچھ کیا جا رہا ہے تو وہ ازرائے تکلف اس سے روکیں ( 8 ) اسی طرح مہمانوں کے انے پر ان سے خوش اخلاقی کے ساتھ ملنا چاہیے اور خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کہ اپ کے انے سے خوشی ہوئی

اللہ تعالی ہم سب کو مہمانوں کی خدمت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کی کوتاہیوں کو معاف فرمائے آمین بجاہ النبی الامین الکریم صلی اللہ علیہ وسلم