امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان  نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔(شرح النووی علی المسلم،ج2،ص18)

مہمان نوازی کی فضیلت پرپانچ احادیث

روایت ہے حضرت مقدام ابن معدیکرب سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا جوکسی قوم کا مہمان ہو پھر مہمان محروم رہے تو ہر مسلمان پر اس کی مدد کرنا لازم ہے یہاں تک کہ وہ اپنی مہمانی اس کے مال اور کھیت سے حاصل کرے ۔

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے اور جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے ایک روایت میں پڑوسی کے بجائے یوں ہے کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے (مسلم،بخاری۔ کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243)

روایت ہے حضرت ابوالاحوص جشمی سے وہ اپنے باپ سے راوی فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ فرمایئے تو اگر میں کسی شخص پرگزروں تو نہ وہ میری مہمانی کرے نہ مجھے دعوت دے پھر وہ مجھ پر اس کے بعد گزرے تو میں اسے مہمان بناؤں یا بدلہ لوں فرمایا بلکہ مہمان بناؤ۔(ترمذی کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4248)

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے ۔ (ابن ماجہ۔ کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4258 )

شرح حدیث مہمان ملاقاتی کو دروازے تک پہنچانے میں اسکا احترام ہے،پڑوسیوں کا اطمینان کہ وہ جان لیں گے کہ ان کا دوست عزیز آیا ہے کوئی اجنبی نہ آیا تھا۔(مرقات)اس میں اور بہت حکمتیں ہیں آنے والے کی کبھی محبت میں کھڑا ہوجانا بھی سنت ہے۔

مہمان نوازی کی فضیلت:

امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔( شرح النووی علی المسلم،ج2،ص18)

مہمان کے اِکرام سے کیا مُراد ہے! حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:مہمان کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔( مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص52)

علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی مہمانی کرو (شرح البخاری لابن بطّال،ج4،ص118)

نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔( کشف الخفاء،ج2،ص33، حدیث:1641)

میزبان کے لئے آداب: (1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2)کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے (3)مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے (4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے(5)مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔ ( احیاء العلوم ،ج 2،ص21 تا 23 ملخصاً)