اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔

مہمانوں کے حقوق: مندرجہ ذیل چیزیں مہمانوں کے حقوق میں شامل ہیں:

مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار محبت دینا۔اس کی عزت کرنا اور اس سے احترام کے ساتھ پیش آنا۔اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا۔اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا۔اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا۔مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔

اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔([1])بخاری،ج4،ص105،

مہمان کے اِکرام سے کیا مُراد ہے!حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:مہمان (Guest) کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرےْ۔(مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص 52)

علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو۔(شرح البخاری لابن بطّال،ج4،ص11)

مہمان کیلئے آداب:(1)جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے (2)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو(3)صاحبِ خانہ کی اجازت کے بغیر وہاں سے نہ اُٹھے(4)جب وہاں سے جائے تو اس کے لئے دُعا کرے۔ ([10])

اللہ پاک ہمیں میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔بہارشریعت،ج3،ص394ملخصاً


اب ہم مہمان کے کچھ حقوق بیان کرتے ہیں اللہ پاک سے دعا ہے مجھے حق سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔جب مہمان ہمارے گھر آئے تو اس کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا خیال کیا جائے اس کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات سے فراغت  کے بعد جب اطمینان ہو جائے تو مہمان سے آنے کی تکلیف گوارا کرنے کی وجہ دریافت کی جائے کہ کیسے اور کس کام کے لئے آنا ہوا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے کھانوں سے فرمایا : ترجمہ۔ آپ لوگ کس مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں ۔

مہمانوں کی دل جوئی کے لئے خوش خلقی اور خندہ پیشانی سے بات چیت کرنی چاہیے اگر رات میں عشاء کے بعد گفتگو کا موقع ہو تو اس وقت بھی ان سے گفتگو کر سکتے ہیں بے کار بات چیت کر کے دماغ کو پریشان نہیں کرنا چاہیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس مکالمے سے یہی معلوم ہوتا ہے آپ نے باقدر ضرورت بامقصد گفتگو فرمائی بیجا باتوں میں ان کو نہیں الجھایا

مہمان کا ادب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا : مہمان کو اچھی جگہ ٹھرا کر فورا اس کے کھانے پینے کا انتظام کیا جائے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سلام کے بعد فورا کھانے کا سامان مہیا کیا ۔ (حدیث شریف میں ہے)

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالٰی اور قِیامت کو سچا مانتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کا جائز حق(حق مہمانی ) عزت کے ساتھ ادا کرے لوگوں نے عرض کیا: ( یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ والہ وسلم! ) جائز حق کیا ہے؟ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ایک دن ایک رات مہمانوں کی مہمانی تین دن تک ہے اس کے بعد مہمان کا حق نہیں بلکہ صدقہ ہو گا ۔( بخاری مسند احمد )

اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔

مہمان کے اِکرام سے کیا مُراد ہے:حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔

([2]) علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو ۔

مہمان نوازی کی فضیلت امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔

مہمان نوازی کی فضیلت پرتین احادیث : (1)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔ حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چُھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک پہنچ جاتی ہے ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد پہنچتی ہے۔

(2) نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔

(3) فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔

میزبان کے لئے آداب:

(1) کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے : (2) کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے ۔

(3) مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے ۔

(4) جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے۔

(5) مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔

مہمان کیلئے آداب:

(1)جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے (2)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو

(3) صاحبِ خانہ کی اجازت کے بغیر وہاں سے نہ اُٹھے

(4) جب وہاں سے جائے تو اس کے لئے دُعا کرے۔

اللہ پاک ہمیں میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ کے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔(بخاری،ج4،ص105، حدیث:6019)

مہمان کے اِکرام سے کیا مُراد ہے!حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان (Guest) کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص52)

علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو۔(شرح البخاری لابن بطّال،ج4،ص118)مہمان نوازی کی فضیلت:امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہماننوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔ (شرح النووی علی المسلم،ج2،ص18)

مہمان نوازی کی فضیلت پرتین احادیث:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔(ابن ماجہ،ج4،ص51، حدیث:3356)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چُھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک پہنچ جاتی ہےاس لئے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد پہنچتی ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص67)

2)نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء،ج2، ص33، حدیث:1641)

(3)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔(کنزالعمّال، جز9،ج 5،ص110، حدیث:25878)

میزبان کے لئے آداب: (1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2)کھانے میں اگر پھل (Fruit) بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ (Medical Point of View) سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے (3)مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ (Delicious)کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے (4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے(5)مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔(احیاء العلوم ،ج 2،ص21 تا 23 ملخصاً)

مہمان کیلئے آداب:(1)جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے (2)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو(3) صاحبِ خانہ کی اجازت کے بغیر وہاں سے نہ اُٹھے(4)جب وہاں سے جائے تو اس کے لئے دُعا کرے۔ (بہارشریعت، ج3،ص394ملخصاً)


آج ہم انشاءاللہ مہمان کے حقوق پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے لیکن پہلے اس سے ہم یہ نیت کرتے ہے کہ جو ہم پڑھے گئے اس پہ عمل کی بھی کوشش کریں گے (ان شاءاللہ )  اور پہلے چند اس کے فضائل پڑھتے ہے

(1)اللہ کے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔ (بخاری،ج4، ص105 ، حدیث:6019)

(2)نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء،ج2،ص33، حدیث:1641)

ان سے ہمیں پتہ چلا کہ ہمیں اس چیز کا کبھی بھی افسوس نہیں کرنا چاہے کہ اگر مہمان آئے گئے تو ہمارا کھانا کم ہو گا بلکہ وہ اپنا کھانا لیکر آتے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ۔ اب ہم مہمان کے چند حقوق پڑھنے اور سمجھنے کی سعادت حاصل کریں کرتے ہے ۔

(1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے ۔

(2)کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے۔

(3)مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو  عُمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے۔

(4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے۔

(5)مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔(احیاء العلوم ،ج 2،ص21 تا 23 ملخصاً)

انکے ساتھ ساتھ درج ذیل چند حقوق بھی ہے جو مہمان نوازی کے لئے بہت ضروری ہے وہ یہ کہ مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا یہ بھی مہمان کے حقوق میں شامل ہے۔

مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار محبت دینا یہ بھی مہمان کے حقوق میں شامل ہے ۔

اسی طرح اس کی عزت کرنا اور اس سے احترام کے ساتھ پیش آنا یہ بھی مہمان کے حقوق میں شامل ہے۔

اسی طرح اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا یہ بھی مہمان کے حقوق میں شامل ہے۔

اسی طرح اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا یہ بھی مہمان کے حقوق میں شامل ہے۔

اسی طرح اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا یہ بھی مہمان کے حقوق میں شامل ہے۔

اور اسی طرح مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا یہ بھی مہمان کے حقوق میں شامل ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو مہمان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین )


اسلامی معاشرے میں بھائی چارے کی فضا کو قائم کرنے کے لیے مہمان نوازی کے فضائل و اہمیت کو بہت فروغ دیا گیا ہے مہمان  کے اکرام کو عین اکرام خداقرار دیا گیا ہے مہمان نوازی اخلاق حسنہ اور مہذب آدمی کی نمایاں علامات اور اسلام کے آداب میں سے ہے مہمانوں کو دیکھ کر دل کو چھوٹا کرنے کی بجائے فراغ دلی کےساتھ ان کا استقبال کرنا چاہیے کیونکہ روایات کے مطابق وہ اپنا رزق خود لاتے ہیں اپنی استطاعت کے مطابق ان کے مکمل حقوق کا لحاظ رکھا جائے آئیے مہمان کے حقوق میں سے چند کا مطالعہ کرتے ہیں

1) خندہ پیشانی سے ملنا :میزبان کو چاہیے کہ مہمان سے پرجوش و گرم جوشی سے ملے تاکہ اس کے دل میں انسیت و الفت پیدا ہو جس طرح کے حضور علیہ السلام نے فرمایا مسلمان بھائی سے خوش ہو کر ملنا اس کے دل کی خوشی کا باعث ہے اور مومن کو خوش کرنا یہ عبادت ہے۔مرآۃالمناجیح 96/3)

2) مہمان کا عزت و وقار کرنا :مہمان کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی تعظیم و توقیر کی جائے اس کی تذلیل کرنے سے بچا جائے جس طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا من کان یؤمن باللہ والیوم الأخر فلیکرم ضیفہ تم میں سے جو کوئی اللہ اور یوم اخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے اپنے مہمان کی تعظیم کرے(بخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف...الخ136/4حدیث 6138)

3) تکلف نہ کرنا :مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے لیے تکلف نہ کریں یعنی اسے وہ کھلانا جو خود نہ کھائے بلکہ اس سے بھی عمدہ اور قیمتی کھانا کھلانے کا ارادہ کرے اور تکلف کرنے والے پر اللہ پاک نے لعنت فرمائی ہے (احیاء العلوم مترجم جلد دو صفحہ 37)

4) کھانا جلد حاضر کرنا :میزبان کو چاہیے کہ کھانا جلد سے جلد حاضر کرے بغیر مہمان کو انتظار کرائے جس طرح کے حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا جلد بازی شیطان کا کام ہے مگر پانچ چیزوں میں جلدی کرنا سنت ہے ان میں سے ایک مہمان کو کھانا کھلانا (طبقات الصوفیہ للسلمی الرقم11حاتم الاصم ص87)

5) کھانوں میں ترتیب : کھانوں میں بھی ترتیب کا خیال رکھنا چاہیے یعنی اگر پھل ہوں تو پہلے وہ پیش کیے جائیں کہ طبی لحاظ سے ان کا پہلے ہی کھانا زیادہ موافق ہے یہ جلد ہضم ہو جاتے ہیں لہذا ان کو معدے کے نیچلے حصے میں ہونا چاہیے ۔

6) کھانا اٹھانے میں جلدی نہ کرنا :جب تک تمام لوگ اپنی حاجت کے مطابق کھانا کھا کر فارغ نہ ہو جائیں تب تک دسترخوان کو سمیٹنا نہیں چاہیے ہو سکتا ہے کہ کسی کو ابھی تک کھانے کی حاجت ہو ۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو اگر ہم میں سے کسی کے پاس مہمان آجائیں تو دل کو تنگ کیے بغیر ان کو اللہ پاک کی نعمت سمجھیں اور ان کے حقوق کا لحاظ اور پاسداری کا خیال رکھیے اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مہمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


مہمان نوازی اچھے اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی علامت اور اسلام کے آداب میں سے ہے مہمان کی عزت و احترام اور اس کی خاطر تواضع کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اور اولیاء عظام کی خصلت ہے مہمان نوازی کے کچھ حقوق ملاحظہ ہوں ۔

1) مہمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اکرام کرے۔ (صراط الجنان جلد 2 صفحہ 201)

2) میزبان کے لیے آداب: 1) کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2) کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کیے جائیں کیونکہ طبی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ موافق ہے (3) مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھا لے (4) جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اٹھایا جائے (5) مہمانوں کے سامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مروت کے خلاف ہے اور ضرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ اور دکھلاوا ہے (احیاء العلوم ج 2 ص 21تا 23)

3) مہمانوں کی خاطرداری: میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اگر مہمان تھوڑے ہوں تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضہ مروت ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں مشغول ہو مہمانوں کے ساتھ ایسے کو نہ بٹھائے جس کا بیٹھنا ان پر گراں ہو۔ ( بہار شریعت ج 3 ص 394)

4) مہمان نوازی میں جلدی کرنا: میزبان کو چاہیے کہ وہ مہمان نوازی میں جلدی کرے اور مہمان کو اس کا علم نہ ہونے دے اس ڈر سے کہ کہیں وہ اسے مہمان نوازی سے نہ روک دے۔ ( فیضانِ ریاض الصالحین ج 6 ص 70)

5) مہمان کو دروازے تک چھوڑنا: مہمان کو دروازے تک پہنچانے میں اس کا احترام ہے اور پڑوسیوں کا اطمینان کے وہ جان لیں گے کہ ان کا دوست یا عزیز آیا ہے کوئی اجنبی نہ ایا تھا اس میں اور بہت حکمتیں ہیں انے والے کی محبت میں کبھی کھڑا ہو جانا بھی سنت ہے۔۔ (فیضان ریاض الصالحین ج 6 ص 76)


دینِ اسلام نے جس طرح والدین ،اولاد،اساتذہ وغیرہا کے حقوق بیان کیے ہیں ،اسی طرح مہمان کے حقوق بھی بیان کیے ہیں ـمہمان باعثِ برکت ہوتا ہے،اس کا خوش دلی سےاستقبال و احترام کرنا چاہیے۔ اسی متعلق (حدیثِ پاک ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس طرح دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان سے چْھری (تیزی سے گزرتی ہے)،بلکہ اِس سے بھی تیزـ (سنن ابنِ ماجہ ،باب الضیافۃ،الحدیث3356،ج4،ص51)

٭مہمان ، میزبان  کی بخشش کا سبب بنتاہےـ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ، جب  کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے ـ آئیے مہمان کے حقوق ملاحظہ کیجیئےـ

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو اللہ اور روزِ حشر پر ایمان رکھتا ہے  اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جواللہ اور روزِ حشر پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے  اور جو اللہ اور روزِ حشر پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے ـ   (متفق علیہ)  (صحیح بخاری ،باب الاکرام الضیف و خدمتہ ،صحیح مسلم ، باب الحث علی اکرام الجار و الضیف

٭حکیم الامت حضرتِ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پاک کے تحت مہمان کے حقوق بیان فرمائیں ہیں ـ

٭1:مہمان کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملنا ـ

٭2:مہمان کے لیے معمول سے ہٹ کر خاص کھانے کا  انتظام کرناـ

٭3: حتی الامکان اپنے ہاتھ سے مہمان کی خدمت کرنا ـ

٭4: مہمان کے آگے خود دسترخوان بچھانا ـ

٭5 : مہمان کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اگر مہمان حاضر ہو جائے اور آپ کے پاس اْس کی مہمان نوازی کے لئے مال نہ ہو تو قرض لے کر اس کی مہمان نوازی کی جائے۔ ایک دفعہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ایک مہمان حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لے کر اس کی مہمان نوازی فرمائی۔

٭ ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ فلاں یہودی سے کہو مجھے آٹا قرض دے ، میں رجب شریف کے مہینے میں ادا کردوں گا (کیوں کہ ایک مہمان میرے پاس آیا ہے)  یہودی نے کہا، جب تک کچھ گروی نہیں رکھو گے ، نہ دوں گا ـ حضرت سیدنا رافع  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں واپس آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کا جواب عرض کیاـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، و اللہ !میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوںـاگر وہ دے دیتا تو میں ادا کردیتا (اب میری وہ زرہ لے جاؤ اور گروی رکھ آؤـ تو میں زرہ گروی رکھ کر آٹا لے آیا(المعجم الکبیر ، الحدیث 989 ،ج1،ص331)

:مہمان کی خاطر و خدمت مومن کی  علامت ہے ـاللہ ہمیں حقوق کی ادائیگی کی توفیق  عطا فرمائے ـآمین بجا ہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم ـ


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اسلام حقوق العباد کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ حقوق العباد کی بہت ساری قسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم مہمان کے حقوق ہیں مہمان نوازی اچھا عمل ہے نیکیوں والا عمل ہے مگر افسوس ہمارے ہاں اس نیک کام کو اول تو نیکی سمجھ کر نہیں کیا جاتا دوسرا یہ کہ اس اچھے عمل کے آداب کا لحاظ بھی لوگ نہیں کرتے۔ جب مہمان کی آمد پر  حقوق و آداب کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تو طرح طرح کے مسئلے ہو جاتے ہیں بعض اوقات لڑائ جھگڑے بھی ہو جاتے ہیں ہماری شریعت کا خاصہ ہے کہ اس میں نیک اعمال کے فضائل ہی بیان نہیں کیئے جاتے بلکہ نیکیاں کرنے کے آداب اور اچھے انداز بھی سکھائے جاتے ہیں اس لئیے مہمان نوازی کے آداب و حقوق سیکھ لینے چاہیئے آئیے مہمان کے کچھ حقوق پڑھتے ہیں ۔ مہمان کے چند حقوق

1۔ مہمان کا استقبال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: جو اللّہ پاک اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کا احترام کرے۔

مفسر قرآن حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے خندہ پیشانی (مسکرا کر اچھی طرح)سے ملے ، اس کے لئیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(550 سنتیں اور آداب ص23)

2 کھانا جلدی حاضر کیا جائے :کھانا جلدی حاضر کیا جائے تاکہ مہمان انتظار نہ کرے یہ بھی مہمان کے حقوق میں سے ہے چنانچہ ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے جو اللّہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیئے کہ مہمان کی عزت کرے۔(احیاء العلوم جلد2, ص149)

3 نرم (اور (عمدہ و لذیذ) کھانا پہلے پیش کیا جائے): تاکہ کھانے والوں سے جو چاہے اسی میں سے سیر ہو جاۓ اور بعد میں زیادہ نہ کھاۓ- بعض مالدار لوگ سخت کھانا پہلے رکھتے ہیں تاکہ بعد میں نرم (لزیز) کھانا دیکھ کر دوبارہ خواہش پیدا ہو - یہ خلاف سنت اور زیادہ کھانے کا یہ ایک حیلہ (بہانا ہے) ہے ۔ (احیاء العلوم،جلد2،ص 151تا152)

4 کھانا اٹھانے سے جلدی نہ کی جائے:یعنی جب تک کھانے والے کھانے سے ہاتھ نہ کھینچ لیں(رک جائیں)تب تک دستر خوان نہ اٹھایا جاۓ کیونکہ ممکن ہے کسی کو بچے ہوئے کھانے کی خواہش باقی ہو یا کوئ ابھی مزید کھانا چاہتا ہو جلدی اٹھا لینے سے بد مزگی ہو گی بزرگوں کے قول "دستر خوان پر سب کو کھانا پہنچ جانا زیادہ کھانوں سے بہتر ہے" کا یہی مطلب ہے(برتن اٹھانے میں جلدی نہ کی جاۓ) یہ بھی احتمال ہے اس سے مکان کی وسعت (کشادہ جگہ) مراد ہو (تاکہ مہمان کو بیٹھنے میں کسی قسم کی تنگی نہ ہو) (احیاء العلوم جلد2،ص153تا154)

5 مہمان کی واپسی: مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جاۓ کہ یہ سنت ہے نیز اس میں اکرام(حق) بھی ہے اور مہمان کے اکرام کا حکم بھی دیا گیا ہے چناچہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مہمان نوازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میزبان مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جائے ۔


حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ    روایت کرتے ہےکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس گھر میں مہمان ہو بھلائی اس گھر کی طرف کوہان میں چھری چلنے سے بھی زیادہ تیز چلتی ہے (سنن ابن ماجہ کتاب الطعمۃ، باب الضیافہ جلد 4 رقم  3356 ص،51)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : ہمارا مہمان وہ ہے جو ہم سے ملاقات کے لیے باہر سے آئے خواہ اس سے ہماری واقفیت پہلے سے ہو یا نہ ہو۔ جو ہمارے اپنے ہی محلہ یا اپنے شہر میں سے ہم سے ملنے آئے دوچار منٹ کے لیے وہ ملاقاتی ہے مہمان نہیں اس کی خاطر تو کرو مگر اس کی دعوت نہیں ہے اور جو ناواقف شخص اپنے کام کے لیے ہمارے پاس آئے وہ مہمان نہیں جیسے حاکم یا مفتی کے پاس مقدمہ والے یا فتویٰ والے آتے ہیں یہ حاکم کے مہمان نہیں۔ (   کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح  جلد:6 , حدیث نمبر:4244)

(1)مہمان کو کھانا کھلانا : خاتم المرسلین رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بدتر شخص کے بارے میں نہ بتاؤں؟ یہ وہ شخص ہے جو خود تو کھائے مگر اپنے مہمان کو کھانے سے روک دے ۔(کنز العمال،الفصل الثامن،الحدیث،44038،ج16ص،40)

(2)مہمان نوازی میں جلدی کرنا : منقول ہے کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے مگر ان چھ کاموں میں جلدی کرنا شیطان کی طرف سے نہیں وہ یہ ہے ۔

(1)جب نماز کا وقت ہو جائے تو اس میں جلدی کرنا

(2) مہمان آئے تو اس کی مہمان نوازی کرنا

(3) کسی کے ہونے پر اس کی تجہیز و تکفین کرنا

(4) بچی کے بالغ ہونے پر اس کی شادی کرنا

(5) قرض کی ادائیگی کا وقت ا جائے تو اس سے جلدی جلدی ادا کرنا

(6) کوئی گناہ ہو جائے تو فورا توبہ کرنا ۔ (الرؤض الفائق مترجم ص،164،مکتبۃ المدینہ )

(3) مہمان پر اکرام کرنا : طبرانی نے کبیر میں  ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’جو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہے، وہ اپنے مال کی زکاۃ ادا کرے اور جو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہے، وہ حق بولے یا سکوت کرے یعنی بُری بات زبان سے نہ نکالے اورجو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہے، وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ ( المعجم الکبیر ‘‘ ، الحدیث :   13561 ، ج 12 ، ص324 )۔ 

 (4) مہمان کو رخصت کرنا :   ابن ماجہ نے ابوہریرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے روایت کی، رسول  اﷲ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم  نے فرمایاکہ ’’سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے۔(’’ سنن ابن ماجہ ‘‘ ،کتاب الأطعمۃ، باب الضیافۃ،الحدیث: 3358 ،ج 4 ،ص 52)

(5) جنت میں داخل ہوگا۔حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماسے روایت ہے کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور، دو جہاں کے تاجور ، سلطان نحر وبر صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا، جو نماز قائم کرے اور زکوة ادا کرے اور بیت اللہ کا حج کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور مہمان کی مہمان نوازی کرے جنت میں داخل ہوگا۔(المعجم الکبیر حدیث 12692،ج12،ص106)


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں و قرآن وحدیث میں مہمان کے حقوق کو بہت تفصیل سے بیان فرمایا، مہمان کی عزت و احترام اور اس کی خاطر تواضح کرنا انبیائے کرام علیہ السلام کی سنت ہے ۔ مہمان کو رخصت کرتے وقت کچھ دور پہنچانے جانا سنت ہے. جب کبھی مہمان آجائے تو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوش دلی کے ساتھ اُس کی خاطر مدار ت کرنی چاہیے: اللہ عزوجل ہمیں اخلاص کے ساتھ مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

مہمان کی تعریف :مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہمارا مہمان وہ ہے جو ہم سے ملاقات کے لیے۔ باہر سے آئے خواہ اُس سے ہماری واقفیت پہلے سے ہو یا نہ ہو جو ہمارے اپنے ہی محلے یا اپنے شہر میں سے ہم سے ملنے آئے دو چار منٹ کے لیے وہ ملاقاتی ہے مہمان نہیں ۔

(1) تکلف نہ کرنا : اللہ کے محبوب دانائے غیوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مہمان کے لیے تکلف نہ کرو کیونکہ ۔ اس طرح تم اُس سے نفرت کرنے لگوگے اور جو مہمان اسے نفرت کرتا ہے وہ اللہ عزوجل سے بغض کرتا ہے اور جو شخص اللہ سے بغض کرتا ہے اللہ اسے ناپسند کرتا ہے ( احیاء العلوم کا خلاصہ صفی سمبر 134)

(2) تعظیم کرنا : تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مہمان خدا کی طرف سے برکت ہے : اور اللہ تعالٰی کی نعمت ہے تو جس نے مہمان کی تعظیم کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا اور جس نے مہمان کی تعظیم نہ کی وہ مجھ سے نہیں ۔ (فیضان سنت ھی نمبر 830)

(3) دروازہ تک رخصت کرنا : حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سنت یہ ہے کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے ۔ ( فیضان سنت صفحہ نمبر 831)

(4) کھانا کھلانا : حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جلد باز شیطان کا کام ہے مگر پانچ چیزوں میں جلدی کرنی چاہے . (1) مہمان کو کھانا کھلانا (2) میت کو دفن کرنے میں (3) لڑکیوں کے نکاح میں (4) قرض ادا کرنے میں (5) گناہوں سے توبہ کرنے میں نیز دعوت ولیمہ میں جلدی کرنا ۔(فیضان سنت صفحہ نمبر 824)

(5) سوال نہ کرنا : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کے پاس مہمان بن کر جائے تو وہ اُسے جو کچھ کھلائیں پلائے وہ کھا پی لے اور اس کے متعلق نہ تو سوال کرے نہ فرمائش کرے اور نہ کوئی جستجو کرے ۔( ایمان کی شاخیں صفحہ نمبر 600)


جس گھر میں مہمان ملاقاتی لوگ کھانا کھاتے رہیں وہاں برکت رہتی ہے ورنہ خود کھانے والے تو ہر گھر میں ہی کھاتے ہیں جس گھر میں مہمان ہوتے ہیں اس گھر میں خیر و برکت جلدی پہنچتی ہے ائیے کچھ مہمانوں کے حقوق کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔

1)مہمان کی تعظیم کرنا : حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی تعظیم کرے اور جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ اور قیامت قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی کی بات کریں یا خاموش رہے۔ (صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 136 حدیث 2138)

2)جو مہمان نہ بنایا اس کا مہمان بنانا : روایت حضرت ابو الاحوص جشمی سے وہ اپنے باپ سے راوی فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ فرمائیے تو اگر میں کسی شخص پر گزروں تو نہ وہ میری مہمانی کرے اور نہ مجھے دعوت دے وہ مجھے پر اس کے بعد گزرے تو میں اسے مہمان بناؤں یا بدلہ فرمایا بلکہ میں مہمان بناؤ ۔ (مراۃ المناجیح جلد 6 صفحہ 71)

3)گھر کے دروازے تک جانا : روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔ (مراۃ المناجیح جی جلد 6 صفحہ 77)


مہمان نوازی کرنا سنت مبارکہ ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔یہاں تک کہ فرمایا مہمان باعث خیر و برکت ہے۔جیسا کہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس طرح تیزی سے دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان پر چھری بلکہ اس سے بھی تیز۔(سنن ابن ماجہ ،الحدیث3356،جلد4،ص51)

اگر مہمان رات گزارنے کے لیےآئے تومیزبان اسے قبلہ،قضائے حاجت اور وضو کی جگہ بتائےکہ حضرت سیدناامام مالک علیہ الرحمہ نے حضرت سیدناامام شافعی علیہ الرحمہ کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا(احیاء العلوم،جلد2،ص146)

کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے کہ یہ مہمان کے اکرام میں سےہے چنانچہ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے۔جو اللہ عزوجل اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے(صحیح بخاری،جلد4،الحدیث:6135)

کھانا پیش کرنے کے کچھ آداب۔اسلاف کا طریقہ تھا کہ وہ تمام اقسام کے کھانے اور پیالے ایک بار میں ہی دسترخوان پر رکھ دیا کرتے تھے تاکہ ہر شخص اپنی خواہش کے مطابق کھائے۔ اگر ایک قسم کا کھانا ہو تو مہمانوں کو بتا دیا جاتا ہے کہ وہ اسی سے سیرہوجائیں اور اس سے عمدہ کے انتظارمیں نہ رہیں۔

واپسی کےآداب: مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جائے کہ یہ سنت ہے۔اس میں مہمان کا اکرام بھی ہے اور مہمان کے اکرام کا حکم دیا گیا ہے۔(چنانچہ رسول عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے)،،مہمان نوازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میزبان مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جائے۔ (سنن ابن ماجہ،الحدیث3358)

مہمان کا پورا اکرام یہ ہے کہ آتے جاتے اور دسترخوان پر اس کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملاقات کی جائے اور اچھی گفتگو کی جائے۔حضرت سیدنا امام اوزاعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پوچھا گیا: کہ کون سا کام مہمان کی تعظیم ہے؟ فرمایا خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا اور اچھی بات کرنا۔

مہمان کی مہمان نوازی میزبان پر واجب ہے۔ایک دفعہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں مہمان حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لے کر اس کی مہمان نوازی فرمائی۔ چنانچہ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا۔ فلاں یہودی سے کہو کہ مجھے آٹا قرض دےکہ میں رجب شریف کے مہینے میں ادا کر دوں گا (کیونکہ ایک مہمان میرے پاس آیا ہوا ہے) یہودی نے کہا،جب تک کچھ گروی نہیں رکھو گے،نہ دوں گا۔ حضرت سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں واپس آیا اور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کا جواب عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا و اللہ ! میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوں۔ اگر وہ دے دیتا تو میں ادا کر دیتا ۔ اب میری وہ زرہ لے جا اور گروی رکھ ۔ میں لےگیا اور زرہ گروی رکھ کر لایا ) (المعجم الکبیر الحدیث 989 ، ج 1، ص 331)

اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل ہمیں مہمانوں کی خوش دلی کے ساتھ مہمان نوازی کی توفیق عطا فرما اور بار بار ہمیں میٹھے میٹھے مدینے کی مہکی مہکی فضاؤں میں میٹھے میٹھے مدنی آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان بننے کی سعادت نصیب فرما۔