محمدابوبکر عطّاری (درجۂ رابعہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر
ٹاؤن لاہور، پاکستان)
اللہ کے پیارے
حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ عظیم ہے: مَنْ
کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا
ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔(بخاری،ج4،ص105، حدیث:6019)
مہمان کے
اِکرام سے کیا مُراد ہے!حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:مہمان (Guest) کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی
(یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی
الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(مراٰۃ المناجیح،ج
6،ص52)
علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم
اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس
جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو۔(شرح البخاری لابن بطّال،ج4،ص118)مہمان نوازی کی فضیلت:امام
نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہماننوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔ (شرح
النووی علی المسلم،ج2،ص18)
مہمان
نوازی کی فضیلت پرتین احادیث:
(1)فرمانِ
مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو
برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔(ابن
ماجہ،ج4،ص51، حدیث:3356)
حکیمُ الاُمّت
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں
ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چُھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک پہنچ جاتی
ہےاس لئے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد پہنچتی ہے۔(مراٰۃ
المناجیح،ج 6،ص67)
2)نبیِّ پاک
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں
آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے
گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء،ج2، ص33، حدیث:1641)
(3)فرمانِ
مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور
اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج
دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی
مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفِرت کی
دُعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت
کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم
پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی
بادشاہی میں کھلائے۔(کنزالعمّال، جز9،ج 5،ص110، حدیث:25878)
میزبان کے لئے
آداب: (1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2)کھانے میں اگر پھل (Fruit) بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ (Medical Point of View) سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے (3)مختلف اقسام کے کھانے
ہوں تو عُمدہ اور لذیذ (Delicious)کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے
کھالے (4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے(5)مہمانوں
کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت
سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔(احیاء العلوم ،ج 2،ص21 تا 23 ملخصاً)
مہمان کیلئے
آداب:(1)جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے (2)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر
خوش ہو(3) صاحبِ خانہ کی اجازت کے بغیر
وہاں سے نہ اُٹھے(4)جب وہاں سے جائے تو اس کے لئے دُعا کرے۔ (بہارشریعت، ج3،ص394ملخصاً)