اسلام کی تعلیمات
میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی
دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔
کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی
چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات
کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔
مہمانوں
کے حقوق: مندرجہ ذیل چیزیں مہمانوں
کے حقوق میں شامل ہیں:
مہمان کی آمد
پر اسے خوش آمدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔مہمان
کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار محبت دینا۔اس کی عزت کرنا اور اس سے احترام کے
ساتھ پیش آنا۔اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا۔اس کی حفاظت کرنا
اور سلامتی کا خیال رکھنا۔اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا۔مہمان کو
جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔
اللہ کے پیارے
حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ عظیم ہے: مَنْ
کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا
ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔([1])بخاری،ج4،ص105،
مہمان کے
اِکرام سے کیا مُراد ہے!حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہفرماتے
ہیں:مہمان (Guest) کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی
(یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی
الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرےْ۔(مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص
52)
علّامہ ابنِ
بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور
اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس
سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو۔(شرح البخاری لابن بطّال،ج4،ص11)
مہمان کیلئے
آداب:(1)جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے (2)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر
خوش ہو(3)صاحبِ خانہ کی اجازت کے بغیر وہاں سے نہ اُٹھے(4)جب وہاں سے جائے تو اس
کے لئے دُعا کرے۔ ([10])
اللہ پاک ہمیں
میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔بہارشریعت،ج3،ص394ملخصاً