ابو محمد محمد جنید عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ
لاہور، پاکستان)
اب ہم مہمان
کے کچھ حقوق بیان کرتے ہیں اللہ پاک سے دعا ہے مجھے حق سچ بیان کرنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین ثم آمین ۔جب مہمان ہمارے گھر آئے تو اس کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات
کا خیال کیا جائے اس کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات سے فراغت کے بعد جب اطمینان ہو جائے تو مہمان سے آنے کی
تکلیف گوارا کرنے کی وجہ دریافت کی جائے کہ کیسے اور کس کام کے لئے آنا ہوا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے
کھانوں سے فرمایا : ترجمہ۔ آپ لوگ کس مقصد
کے لیے تشریف لائے ہیں ۔
مہمانوں کی دل
جوئی کے لئے خوش خلقی اور خندہ پیشانی سے بات چیت کرنی چاہیے اگر رات میں عشاء کے بعد گفتگو کا موقع ہو تو
اس وقت بھی ان سے گفتگو کر سکتے ہیں بے
کار بات چیت کر کے دماغ کو پریشان نہیں کرنا چاہیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس مکالمے سے یہی
معلوم ہوتا ہے آپ نے باقدر ضرورت بامقصد گفتگو فرمائی بیجا باتوں میں ان کو نہیں الجھایا
مہمان
کا ادب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا : مہمان کو اچھی جگہ ٹھرا کر فورا اس کے کھانے
پینے کا انتظام کیا جائے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سلام کے بعد فورا
کھانے کا سامان مہیا کیا ۔ (حدیث شریف میں
ہے)
رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالٰی اور قِیامت کو سچا مانتا
ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کا جائز حق(حق مہمانی ) عزت کے ساتھ ادا کرے لوگوں نے عرض کیا: ( یا رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ والہ وسلم! ) جائز حق کیا ہے؟ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا
ایک دن ایک رات مہمانوں کی مہمانی تین دن تک ہے اس کے بعد مہمان کا حق نہیں بلکہ
صدقہ ہو گا ۔( بخاری مسند احمد )
اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم
ہے: مَنْ
کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا
ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔
مہمان
کے اِکرام سے کیا مُراد ہے:حکیمُ
الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے،
اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک
ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔
([2]) علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ
تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے
پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو ۔
مہمان
نوازی کی فضیلت امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔
مہمان نوازی کی فضیلت پرتین احادیث : (1)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے
اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔ حکیمُ
الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اونٹ کی کوہان میں ہڈی
نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چُھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک پہنچ
جاتی ہے ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد پہنچتی ہے۔
(2) نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر
آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا
ہے۔
(3) فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم ہے:آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے
لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا
تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک
کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں
اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے
نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو
جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔
میزبان
کے لئے آداب:
(1) کھانا حاضر کرنے میں
جلدی کی جائے : (2) کھانے میں
اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے ۔
(3) مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ
کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے ۔
(4) جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک
دسترخوان نہ اُٹھایاجائے۔
(5) مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو
انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا
رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔
مہمان
کیلئے آداب:
(1)جہاں بٹھایا
جائے وہیں بیٹھے (2)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو
(3) صاحبِ خانہ کی اجازت کے بغیر وہاں سے نہ اُٹھے
(4) جب وہاں سے جائے تو اس کے لئے دُعا کرے۔
اللہ پاک ہمیں
میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم