علی شان (درجۂ ثانیہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ
جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
مہمان نوازی
کرنا سنت مبارکہ ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔یہاں
تک کہ فرمایا مہمان باعث خیر و برکت ہے۔جیسا کہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس گھر
میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس طرح تیزی سے دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان
پر چھری بلکہ اس سے بھی تیز۔(سنن ابن ماجہ ،الحدیث3356،جلد4،ص51)
اگر مہمان رات
گزارنے کے لیےآئے تومیزبان اسے قبلہ،قضائے حاجت اور وضو کی جگہ بتائےکہ حضرت سیدناامام
مالک علیہ الرحمہ نے حضرت سیدناامام شافعی علیہ الرحمہ کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا(احیاء
العلوم،جلد2،ص146)
کھانا حاضر
کرنے میں جلدی کی جائے کہ یہ مہمان کے اکرام میں سےہے چنانچہ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے۔جو اللہ عزوجل اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے
اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے(صحیح بخاری،جلد4،الحدیث:6135)
کھانا پیش کرنے کے کچھ آداب۔اسلاف کا طریقہ تھا کہ وہ تمام اقسام کے کھانے
اور پیالے ایک بار میں ہی دسترخوان پر رکھ دیا کرتے تھے تاکہ ہر شخص اپنی خواہش کے
مطابق کھائے۔ اگر ایک قسم کا کھانا ہو تو مہمانوں کو بتا دیا جاتا ہے کہ وہ اسی سے
سیرہوجائیں اور اس سے عمدہ کے انتظارمیں نہ رہیں۔
واپسی
کےآداب: مہمان کو رخصت کرنے کے لیے
دروازے تک جائے کہ یہ سنت ہے۔اس میں مہمان کا اکرام بھی ہے اور مہمان کے اکرام کا
حکم دیا گیا ہے۔(چنانچہ رسول عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عالی شان
ہے)،،مہمان نوازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میزبان مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے
تک جائے۔ (سنن ابن ماجہ،الحدیث3358)
مہمان کا پورا
اکرام یہ ہے کہ آتے جاتے اور دسترخوان پر اس کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملاقات کی
جائے اور اچھی گفتگو کی جائے۔حضرت سیدنا امام اوزاعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پوچھا گیا: کہ کون سا کام
مہمان کی تعظیم ہے؟ فرمایا خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا اور اچھی بات کرنا۔
مہمان کی
مہمان نوازی میزبان پر واجب ہے۔ایک دفعہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں مہمان حاضر ہوا تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے قرض لے کر اس کی مہمان
نوازی فرمائی۔ چنانچہ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا۔ فلاں یہودی سے کہو کہ مجھے آٹا قرض دےکہ میں رجب شریف کے
مہینے میں ادا کر دوں گا (کیونکہ ایک مہمان میرے پاس آیا ہوا ہے) یہودی نے کہا،جب
تک کچھ گروی نہیں رکھو گے،نہ دوں گا۔ حضرت سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں واپس آیا اور تاجدار
مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس
کا جواب عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا و اللہ ! میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوں۔ اگر وہ
دے دیتا تو میں ادا کر دیتا ۔ اب میری وہ زرہ لے جا اور گروی رکھ ۔ میں لےگیا اور
زرہ گروی رکھ کر لایا ) (المعجم الکبیر
الحدیث 989 ، ج 1، ص 331)
اے ہمارے پیارے
اللہ عزوجل ہمیں مہمانوں کی خوش دلی کے
ساتھ مہمان نوازی کی توفیق عطا فرما اور بار بار ہمیں میٹھے میٹھے مدینے کی مہکی
مہکی فضاؤں میں میٹھے میٹھے مدنی آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان بننے کی سعادت نصیب
فرما۔