محمد ابو بکر عطّاری(درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ
فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور)
اسلام ایک
مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں اللہ ربُّ العزت نے زندگی گزارنے کے تمام تر معاملات میں
انسان کی راہنمائی فرمائی اور جہاں دیگر کثیر احکام بیان فرمائے وہیں مہمان نوازی
کو بھی ایک بنیادی وصف اور اعلیٰ خلق کے طور پر بتایا گیا ہے اور مہمان کی تعظیم،
خدمت اور ضیافت وغیرہ کا اہتمام میزبان پر اس کی حیثیت کے مطابق لازم قرار دیا۔ ذیل
میں انہیں حقوق میں سے پانچ حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:
(1)خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کرنا: مہمان کے حقوق میں
سے ہے کہ ان کا پرتپاک استقبال کیا جائے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم مختلف قبائل سے آنے والے وفود کے اِستقبال اور ان کی ملاقات کا خاص طورپر
اہتمام فرمایا کرتے تھے اور ہر وفد کے آنے پر آپ علیہ السّلام نہایت ہی عمدہ
پوشاک زیب ِتن فرما کر کاشانۂ اقدس سے نکلتے اور اپنے خصوصی اصحاب رضی اللہُ عنہم
کو بھی حکم دیتے تھے کہ بہترین لباس پہن کر آئیں۔(صراط الجنان، 7/498)
(2)عزت و احترام سے پیش آنا: مہمان کے حقوق میں یہ بھی
شامل ہے کہ ان کے ساتھ عزت و احترام والا معاملہ کیا جائے۔ جیسا کہ رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جو اللہ پاک اور آخرت کے دن
پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ مہمان کا احترام کرے۔(بخاری، 4/136، حدیث: 6136)
اس حدیث
مبارکہ کا مطلب یہ نہیں کہ جو مہمان کی خدمت نہ کرے وہ کافر ہے۔مطلب یہ ہے کہ
مہمان کی خاطر تواضع کرنا ایمان کا تقاضا اور مؤمن کی علامت ہے۔ (دیکھئے: مراٰۃ
المناجیح، 6/52)
(3)اچھا کھانا کھلانا:مہمان کے بنیادی حقوق میں سے ایک یہ
بھی ہے کہ میزبان ان کے لئے اپنی حیثیت کے مطابق عمدہ و لذیذ کھانے کا اہتمام
کرے۔ قراٰنِ پاک میں جلیل القدر پیغمبر حضرت سیدنا ابراہیم خلیلُ اللہ علیہ
السّلام کا اسی (ضیافت)کے ساتھ وصف بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ جب آپ علیہ السّلام
کے پاس فرشتے بصورتِ انسان تشریف لائے تو آپ نے بچھڑے کے بھنے ہوئے گوشت سے ان کی
ضیافت فرمائی۔ (صراط الجنان، 4/464)
(4)مہمان نوازی میں خود مشغول ہو اور کھانے میں شامل ہو:
بہار شریعت میں ہے: میزبان کو چاہئے کہ مہمان کی خاطر داری میں خود مشغول ہو،
خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سنت ہے اگر
مہمان تھوڑے ہوں تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضائے مُروت
ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں
مشغول ہو۔(بہار شریعت، 3/394)
(5)رخصت کرنے کے لئے دروازے تک چھوڑنا: میزبان کو چاہئے
کہ وہ اپنے مہمانوں کو رخصت کرنے کیلئے دروازے تک چھوڑنے آئے۔ اللہ پاک کے آخری
نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا یہ سنت سے ہے کہ انسان اپنے
مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔(ابن ماجہ،4/52، حديث: 3358)
مہمان کو
دروازے تک پہنچانے میں اس کا احترام ہے، پڑوسیوں کا اطمینان کہ وہ جان لیں گے کہ
ان کا دوست عزیز آیا ہے کوئی اجنبی نہیں آیا۔ اس میں اور بہت حکمتیں ہیں: آنے
والے کی کبھی محبت میں کھڑا ہوجانا بھی سنت ہے۔(دیکھئے:مراٰۃ المناجیح، 6/67)
دعا ہے کہ
اللہ پاک ہمیں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے
ہمیشہ مہمانوں کی تعظیم کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم