اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں اللہ ربُّ العزت نے زندگی گزارنے کے تمام تر معاملات میں انسان کی راہنمائی ‏فرمائی اور جہاں دیگر کثیر احکام بیان فرمائے وہیں مہمان نوازی کو بھی ایک بنیادی وصف اور اعلیٰ خلق کے طور پر بتایا گیا ہے اور ‏مہمان کی تعظیم، خدمت اور ضیافت وغیرہ کا اہتمام میزبان پر اس کی حیثیت کے مطابق لازم قرار دیا۔ ذیل میں انہیں حقوق میں ‏سے پانچ حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:‏

(1)خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کرنا: مہمان کے حقوق میں سے ہے کہ ان کا پرتپاک استقبال کیا جائے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ ‏وسلَّم مختلف قبائل سے آنے والے وفود کے اِستقبال اور ان کی ملاقات کا خاص طورپر اہتمام فرمایا کرتے تھے اور ہر وفد کے آنے پر ‏آپ علیہ السّلام نہایت ہی عمدہ پوشاک زیب ِتن فرما کر کاشانۂ اقدس سے نکلتے اور اپنے خصوصی اصحاب رضی اللہُ عنہم کو بھی حکم دیتے ‏تھے کہ بہترین لباس پہن کر آئیں۔(صراط الجنان، 7/498)‏

(2)عزت و احترام سے پیش آنا: مہمان کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے ساتھ عزت و احترام والا معاملہ کیا جائے۔ ‏جیسا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جو اللہ پاک اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ مہمان کا ‏احترام کرے۔(بخاری، 4/136، حدیث: 6136)‏

اس حدیث مبارکہ کا مطلب یہ نہیں کہ جو مہمان کی خدمت نہ کرے وہ کافر ہے۔مطلب یہ ہے کہ مہمان کی خاطر تواضع کرنا ‏ایمان کا تقاضا اور مؤمن کی علامت ہے۔ (دیکھئے: مراٰۃ المناجیح، 6/52)‏

(3)اچھا کھانا کھلانا:مہمان کے بنیادی حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میزبان ان کے لئے اپنی حیثیت کے مطابق عمدہ و لذیذ ‏کھانے کا اہتمام کرے۔ قراٰنِ پاک میں جلیل القدر پیغمبر حضرت سیدنا ابراہیم خلیلُ اللہ علیہ السّلام کا اسی (ضیافت)کے ساتھ وصف ‏بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ جب آپ علیہ السّلام کے پاس فرشتے بصورتِ انسان تشریف لائے تو آپ نے بچھڑے کے بھنے ہوئے گوشت ‏سے ان کی ضیافت فرمائی۔ (صراط الجنان، 4/464)‏

(4)مہمان نوازی میں خود مشغول ہو اور کھانے میں شامل ہو: بہار شریعت میں ہے: میزبان کو چاہئے کہ مہمان کی خاطر داری ‏میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سنت ہے اگر مہمان تھوڑے ہوں تو ‏میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضائے مُروت ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی ‏خدمت اور کھلانے میں مشغول ہو۔(بہار شریعت، 3/394)‏

(5)رخصت کرنے کے لئے دروازے تک چھوڑنا: میزبان کو چاہئے کہ وہ اپنے مہمانوں کو رخصت کرنے کیلئے دروازے تک ‏چھوڑنے آئے۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا یہ سنت سے ہے کہ انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے ‏دروازے تک جائے۔(ابن ماجہ،4/52، حديث: 3358)‏

مہمان کو دروازے تک پہنچانے میں اس کا احترام ہے، پڑوسیوں کا اطمینان کہ وہ جان لیں گے کہ ان کا دوست عزیز آیا ہے کوئی ‏اجنبی نہیں آیا۔ اس میں اور بہت حکمتیں ہیں: آنے والے کی کبھی محبت میں کھڑا ہوجانا بھی سنت ہے۔(دیکھئے:مراٰۃ المناجیح، 6/67)‏

دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ مہمانوں کی تعظیم کرتے رہنے کی ‏توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم