ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مہمان نوازی کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ہمارے دین اسلام میں مہمان کے حقوق اور ان کی عزت افزائی پر بہت زور دیا  گیا ہے بلکہ مہمان نوازی کرنا حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کی خاص خصوصیت ہے کہ آپ سے پہلے کسی نے مہمان نوازی کا اتنا اہتمام نہ کیا جتنا آپ نے کیا ،آپ تو بغیر مہمان کھانا ہی نہیں کھاتے تھے۔(مراۃ المناجیح،ج6،حدیث نمبر:4488)لہذا ایک میزبان کو مہمان کے درج ذیل حقوق کا لحاظ رکھنا چاہیے۔

(1)مہمان کا اکرام کرے: جب کوئی مہمان آئے تو اس کا اکرام کرنا چاہیے،یہ خاص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کا انداز ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہیے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔(مسلم، باب الحث علی اکرام الجار، رقم الحدیث:77)

مفتی احمد یار خان نعیمی اس کے تحت فرماتے ہیں: مہمان کی خاطر تقاضاء ایمان ہے نیز مہمان کی خاطر (تواضع) مومن کی علامت ہے۔(مراۃ المناجیح،ج6،حدیث نمبر :4243)

(2) مسکراتے چہرے سے ملیں: میزبان اپنے مہمانوں کی خدمت اور ان کے لیے کشادگی کا اظہار کرے نیز ان سے خندہ پیشانی سے ملے۔ کہا گیا ہے کہ خندہ پیشانی سے ملنا مہمان نوازی سے بہتر ہے۔ ایک عربی شعر کا ترجمہ ہے: ہم مہمان کے ٹھہرنے سے پہلے ہی اس کی مہمان نوازی کردیتے ہیں کہ ہم اس سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتے ہیں۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ج1، ص 432)

(3)تکلف نہ کرے جو کچھ ہو پیش کردے : میزبان کو چاہیے کہ مہمانوں کی مہمان نوازی میں تاخیر نہ کرے اور کھانے کی کمی کے سبب مہمانوں کو منع نہ کرے بلکہ جو کچھ پاس ہو اسے مہمانوں کے سامنے پیش کردے۔ حضرت انس بن مالک اور دیگر صحابہ کرام علیھم الرضوان وہ خشک روٹی کے ٹکڑے اور ردِّی کھجوریں مہمان کے سامنے رکھ کر فرماتے:" ہم نہیں جانتے دونوں میں کس کا گناہ زیادہ ہے اس کا جو پیش کی گئی چیز کو حقیر جانے یا اس کا جو اپنے پاس موجود چیز پیش کرنے کو حقیر جانے۔" (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ج1، ص 436)

(4)مہمان نوازی خود کرے : میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ ا لصلوۃ والتسلیم کی سنت ہے۔

(5)میزبان مہمانوں کے پاس حاضر رہے: میزبان کو بِالکل خاموش نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ کھانا رکھ کر غائِب ہوجائے، بلکہ وہاں حاضِر رہے اور مہمانوں کے سامنے خادِم وغیرہ پر ناراض نہ ہو اور اگر صاحِبِ وُسْعَت ہو تو مہمان کی وجہ سے گھر والوں پر کھانے میں کمی نہ کرے۔ ( کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)

(6)میزبان ساتھ بیٹھ کر کھائے : اگر مہمان تھوڑے ہوں تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضائے مُروت ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں مشغول ہو۔ (بہار شریعت، ج3، حصہ 16،ص397)

(7)رات کا کچھ حصہ مہمانوں کے ساتھ گزارے:رات کو اپنے مہمانوں کے ساتھ کچھ وقت گزارے، انہیں اچھی باتیں اور دلچسپ و انوکھے واقعات سنا کر مانوس کرے اور مزاح سے بھرپور باتوں کے ذریعے ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرے (لیکن خلاف شرع اور حد سے زیادہ نہ ہوں ، دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ج1، ص434)

(8)گھر کے دروازے تک رخصت کرکے آئے: میزبان کو چاہیے کہ سنت پر عمل کرتے ہوئے مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ( ابن ماجہ،باب الضیافۃ،رقم الحدیث :3358)

مزید کچھ آداب:امام بہاء الدین محمد بن احمد مصری شافعی علیۃ الرحمن میزبان کے آداب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مہمان نوازی کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اپنے مہمانوں کے ساتھ ایسی گفتگو کرے جس کے سبب ان کا دل اُس کی طرف مائل ہو، ان سے پہلے نہ سوئے، ان کی موجودگی میں زمانے سے شکوہ نہ کرے اور جانے پر غمگین ہو اور ان کے سامنے ایسی بات نہ کرے جس سے یہ خوفزدہ ہوں۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ج1، ص 433)

اللہ پاک ! ہمیں اچھے انداز مہمان نوازی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)