مہمان نوازی ہماری ثقافت اور مذہب دونوں میں ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام میں مہمانوں کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے، اور اس حوالے سے قرآن و حدیث میں متعدد احکامات اور روایات موجود ہیں۔ یہاں مہمانوں کے حقوق پر ایک مختصر مضمون پیش کیا گیا ہے:

مہمان نوازی کسی بھی معاشرے کا ایک اہم حصہ ہوتی ہے اور اس سے انسانیت اور اخلاقیات کا اندازہ ہوتا ہے۔ مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں مہمانوں کے حقوق اور ان کی عزت و تکریم پر زور دیا گیا ہے۔ خاص طور پر اسلام میں، مہمان نوازی کو ایک عظیم نیکی قرار دیا گیا ہے۔

اسلام میں مہمان نوازی: اسلامی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی قدر قرار دیا گیا ہے۔ اسلام میں مہمان کو خوش آمدید کہنا، اس کے آرام و سکون کا خیال رکھنا، اور اس کے لئے کھانے پینے کا انتظام کرنا صاحب خانہ کی ذمہ داری ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ وہ کیسے اپنے مہمانوں کے لئے بہترین انتظام کرتے تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے مہمان نوازی کی۔ ان کی مہمان نوازی کے واقعہ کو قرآن پاک میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ . ترجمہ : اے محبوب! کیا تمہارے پاس ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔ جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کہا، سلام ناشنا سا لوگ ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام فوراً ان کے کھانے پینے کے انتظام میں لگ گئے اور جو موٹا تازہ بچھڑا ان کے پاس تھا اس کا گوشت بھون کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کر دیا۔ (الذاریات 24)

مہمانوں کے حقوق: 1. استقبال اور عزت: مہمان کا استقبال خوشی اور مسکراہٹ کے ساتھ کرنا چاہئے اور اس کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔

2. راحت کا خیال: مہمان کو ہر ممکن آرام اور سکون فراہم کرنا چاہئے، جیسے کہ اسے صاف ستھرا بستر اور تازہ ہوا مہیا کرنا۔

3. کھانے پینے کا اہتمام: مہمان کے لئے مناسب اور لذیذ کھانے کا انتظام کرنا چاہئے، چاہے گھر کے معمولی وسائل ہی کیوں نہ ہوں۔

4. وقت کی قدر: مہمان کو ایسے وقت میں بلانا چاہئے جب میزبان کے لئے سہولت ہو، اور اس کی موجودگی سے میزبان کو تکلیف نہ ہو۔

5. مناسب رخصتی: مہمان کو رخصت کرتے وقت اس کی مزید ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہئے اور اسے عزت کے ساتھ الوداع کہنا چاہئے۔

آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض مرتبہ وفود کی مہمان نوازی کا فرض صحابہ کے سپرد فرماتے۔ ایک دفعہ قبیلہ قیس کا وقد آپ صلی اعلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی الم نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا، چناں چہ انصاران مہمانوں کو لے گئے۔ صبح وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی ہم نے دریافت فرمایا: تمہارے میزبانوں نے تمہاری کیسی خدمت کی ، انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی الیم بڑے اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے لیے نرم بستر بچھائے ، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔

انس بن مالک سے مروی ہے۔ کان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لا يأكل وحده رسول اللہ صلی علیم اکیلے کھانا تناول نہیں فرمایا کرتے تھے۔ (25 مكارم الأخلاق ومعاليها ومحمود طرائقها، لأبي بكر محمد بن جعفر الخرائطي السامري (المتوفى: 327هـ)، تقديم وتحقيق: أيمن عبد الجابر البحيري، دار الآفاق العربية، القاهرة، الطبعة: الأولى، 1419 هـ - 1999 م، باب ما جاء في إطعام الطعام وبذله للضيف وغيره من أبناء السبيل، ص 119)

نتیجہ:

مہمان نوازی ایک ایسی صفت ہے جو معاشرے میں محبت، بھائی چارے اور انسانیت کو فروغ دیتی ہے۔ یہ نہ صرف مہمان کے لئے بلکہ میزبان کے لئے بھی باعث برکت ہوتی ہے۔ اسلام نے مہمان نوازی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے، اور ہمیں چاہئے کہ ہم ان تعلیمات پر عمل کریں اور اپنے مہمانوں کی خدمت کو اپنے لئے اعزاز سمجھیں۔

مہمان نوازی کے یہ اصول نہ صرف ہمارے مذہبی فرائض ہیں بلکہ ایک بہتر اور پرامن معاشرے کی تشکیل کے لئے بھی ضروری ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے گھروں کو مہمانوں کے لئے ایک پناہ گاہ بنائیں اور ان کی خدمت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔