نعمان عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی
لاہور،پاکستان)
مہمان نوازی
اچھے اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی علامت ہے۔ اور اسلام کے آداب میں سے ہے مہمان کی
عزت و احترام اور اس کی خاطر تواضع کرنا انبیاء اکرام علیہم السلام کی سنت اور اولیاء
عظام رحمھم اللہ تعالی کی خصلت امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے تین چیزیں بڑی پیاری ہیں۔
1مہمانوں کی
خدمت
2 گرمی کے
روزے
3 تلوار سے
جہاد
فتاوی رضویہ
شریف میں ہے : مہمان کا اکرام عین اکرام خدا ہے جب کبھی آ جائے تو دل
چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوش دلی کے ساتھ اس کی خاطر مدارت کرنی ۔
1۔مہمان
نوازی سنت ابراھیمی :ترجمہ کنز الایمان
: اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراھیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی جب وہ اس کے پاس
آکر بولے سلام کہا سلام ناشنا سا لوگ ہیں پھر اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا
پھر اسے ان کے پاس رکھا کیا کیا تم کھاتے نہیں ۔ پ 26 الذاریات/آیت 26 تا 27)
تفسیر خزائن
العرفان میں ہے : مفسرین نے فرمایا کہ حضرت ابراھیم بہت ہی مہمان نواز تھے بغیر
مہمان کے کھانے تناول نہ فرماتے اس وقت ایسا اتفاق ہوا کے پندرہ روز سے کوئی
مہمانا نہ آیا تھا آپ اس غم میں ان مہمانوں کو دیکھتے ہی آپ نے ان کے لیے کھا نہ
لانے میں جلدی کی چونکہ آپ کے یہاں گائے بکثرت تھی اس لیے بچھڑے کا بھونا ہوا گوشت
سامنے لایا گیا، (تفسیر خزائن العرفان پ 12 آیت نمبر (29)
( 2مہمان کا اکرام) مہمان کے اکرام کا مطلب یہ ہے کہ خندہ پیشانی سے
اس کا خیبر مقدم کیا جائے اگر کھانے کا وقت ہو تو بقدر استطاعت کھانے سے اس کی
تواضع کی جائے بلکہ ایک حدیث کی رو سے یہ بھی مہمان کا حق ہے کہ اگر استطاعت ہو تو
پہلے دن اس کے لیے خصوصی کھانا تیار کیا جائے جس کو حدیث. میں (جائزہ) کے لفظ سے
تعبیر کیا گیا ہے۔ (صحیح بخاری عن ابی شریح رضی الله عنه)
البتہ ان تمام
باتوں میں محض رسمیات نام و نمور اور تکلفات سے پرہیز کرنا چاہیے- مہمان کے اکرام
کا سب سے اول مطلب یہ ہے کہ اس کو محض
آرام پہنچانے کی فکر کی جائے ۔ لہذا اگر
اسے کھانے سے تکلیف ہو تو محض رسم کی خاطر کھانے پر اصرار کرنا اکرام کے خلاف ہے
اس صورت میں اس کا اکرام یہی ہے کہ اس کے آرام اور منشا کو مد نظر رکھا جائے۔
( 3فرمان مصطفے صلی الله عليه وسلم)
اللہ کے محبوب
دانائے غیوب نے فرمایا : : مہمان کہ لیے تکلیف نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اس سے نفرت
کرنے لگو گے اورجو مہمان سے نفرت کرتا ہے۔ واللہ عزوجل سے بغض رکھتا ہے اور جو شخص
اللہ جل سے نفرت کرتا ہے اللہ عزوجل اسے ناپسند کرتا ہے (البحر زخار بمسند البراز
الحدیث 2513ج6)
فقیر و غنا کے لیے غنا قبول کرنا سنت ہے بعض
آسمانی کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک میل چل کر مریض کی عیادت کرو دو میل چل کر
جنازہ میں شریک ہوں تین مل جل کر دعوت قبول کرو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا اگر مجھے بکرے کے پائے کی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا (صحیح بخاری
کتاب الباب باب القلیل من الھبھ الحدیث
287ص202)
(4مہمان کی تعظیم ایمان کا تقاضا ) حضرت سیدنا ! ابو ہریرہ ر رضی
الله عنه سے روایت ہے کہ نبیِّ
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص الله عز وجل اور قیامت پر ایمان رکھتا
ہے ۔اسے چاہیے وہ مہمان کی تعظیم کرے اور جو شخص الله عز وجل اور قیامت پر ایمان
رکھتا ہے وہ صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ
اورقیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی کی۔بات کرے یا خاموش رہے . ) ) بخاری کتاب
الادب وباب اکرام الفيف الخ حدیث نمبر 6138)
(5 دوست کو کھانا کھلانے کی برکت ) حضرت سیدنا سلام بن مسكين عليه رحمة الله المتین حضرت سیدنا ثابت سے روایت فرماتے
ہیں ایک مرتبہ چند لڑکے لکڑیا کاٹنے کے لیے جنگل کی طرف جا رہے تھے۔ جب وہ حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کے قریب سے گزرے تو آپ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا : و اپسی
پر ان میں ایک لڑکا ہلاک ہو جائے گا جب ان کی واپسی ہوئی تو سب سلامت تھے اور کوئی
بھی ہلاک نہیں ہوا تھا حواریوں نے عرض کی یا نبی علیہ السلام اپ علیہ السلام نے
ارشاد فرمایا تھا کہ ان میں سے ایک لڑکا ہلاک ہو جائے گا لیکن اس سب بالکل سلامت ہیں
فرمایا ان لڑکوں کو میرے پاس بلاؤ جب وہ حاضر خدمت ہوئے تو اپ علیہ السلام نے فرمایا
اپنے سروں سے لکڑیوں کے گٹے اتار دو سب نے لکڑیاں نیچے اتار دی فرمایا اب انہیں
کھولو جب اکٹھے کھولے گئے تو اس میں سے ایک گٹے میں ایک بہت خوفناک مردہ اژدھا ایک
کانٹے سے الجھا ہوا تھا آپ علیہ السلام نے اس لڑکے سے پوچھا تم نے کون سی بڑی نیکی
کی ہے اس نے عرض کی میں نے اج کوئی بڑی نیکی نہیں کی ہاں اتنا ضرور ہے کہ اج ہمارے
دوستوں میں سے ایک دوست اپنے ساتھ کھانا نہیں لایا تھا تو میں نے اس سے اپنے ساتھ
کھانے میں شریک کر لیا لڑکے کے بعد سن کر اپ علیہ السلام زبان سے فرما رہے تھے بس
اتنی سی نیکی کی وجہ سے آج تو ہلاک ہونے سے محفوظ رہا۔ (عیون الحکایات جلد دوم
مترجم ص335،336 )