فرمان نبوی ہے کہ اس شخص کے پاس خیر و برکت نہیں جس
میں مہمان نوازی نہیں۔ (مسند امام احمد، 2/142، حدیث:
17424)
مہمان کی فضیلت اور کھانا کھلانے کے بارے میں حدیث پاک
ملاحظہ ہو، چنانچہ حضور ﷺ سے حج مبرور کے متعلق پو چھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:
کھانا کھلانا اور شیر یں گفتاری۔ (معجم اوسط، 5/74، حدیث: 6618)
مہمان کی تلاش کے لئے نکل جایا کرتے: حضرت
ابراہیم علیہ السّلام جب کھانا کھانے کا ارادہ فرماتے تو میل دو میل مہمان کی تلاش
میں نکل جایا کرتے تھے آپ کی کنیت ابو الضیفان تھی اور آپ کی صدق نیت کی وجہ سے آج
تک ان کی جاری کردہ ضیافت موجود ہے، کوئی رات نہ گزرتی مگر آپ کے ہاں تین سے لے کر
10 اور 100 کے درمیان جماعت کھانا نہ کھاتی ہو۔
مہمان کی فضیلت پر شاعر نے کیا خوب کہا: میں مہمان
کو کیوں نہ محبوب سمجھوں اور اس کی خوشی سے راحت محسوس کیوں نہ کروں! کہ وہ میرے
پاس اپنا رزق کھاتا ہے اور اس پر میرا شکریہ ادا کرتا ہے۔
فرمان مصطفی ﷺ ہے: نیک کے کھانے کے علاوہ کسی کا
کھانا نہ کھاؤ اور نیک پرہیزگار کو کھلانے کے علاوہ کسی کو نہ کھلاؤ۔
دعوت قبول کرنا سنت موکدہ ہے، نبی کریم ﷺ ارشاد
فرماتے ہیں: اگر مجھے گائیں یا بکری کی پتلی سی پنڈلی کی بھی دعوت دی جائے تو میں
اسے قبول کر لوں گا اور اگر مجھے جانور کا دست ہدیہ کیا جائے تو میں قبول کر لوں
گا۔ (بخاری، 2/ 166، حدیث: 2567)
میزبانی کے آداب:
کھانا پیش کرنے میں جلدی کریں کیونکہ مہمان کی
تعظیم و خاطر میں شمار ہے اس میں اکرام بھی ہے اور اس میں اکرامِ ضیف کا حکم بھی
ہے کہ شاید وہ بھوکا ہو اور اسے کھانے کی ضرورت ہو۔
حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جلد بازی کا
کام شیطان کا ہے، لیکن پانچ چیزوں میں جلدی کرنا سنت ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہمان
کے لیے کھانا لانے میں جلدی کرنی چاہیے۔
کھانا دسترخوان پر بقدر ضرورت لائیں کہ ضرورت سے کم
لانا بخل میں داخل ہے۔
مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا سنت ہے، مہمان کو
دروازے تک رخصت کرنا میرے آقا کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے
جائے۔(ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)