یہ بات صحیح ہے کہ ہر ملک ہر علاقے اور ہر قوم میں مہمان نوازی کے طور طریقے اور انداز مہمان نوازی قدر مختلف ہوتے ہیں لیکن کسی بھی قوم میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ آنے والے مہمان کا عزت و وقار کے ساتھ پرتپاک استقبال کرنا اسے خوش آمدید کہنا اور اپنی استطاعت کے مطابق اس کی خوب سے خوب خدمت کرنا ضروری ہےاس لیے کہ دنیا کی ہر مہذب قوم کے نزدیک مہمان کی عزت و توقیر خود اپنی عزت و توقیر اور مہمان کی ذلت و توہین خود اپنی ذلت و توہین کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔

مہمان کی تعریف: وہ شخص جو عارضی قیام کے لیے کسی کے گھر یا مہمان خانے میں آکر ٹہرے اور جلدی رخصت ہو جائے اس شخص کو مہمان کہا جاتا ہے ۔

مہمان کے حقوق: 1: حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: کہ "مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ ” جو شخص اللہ پر ایمان اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی دستور کے مطابق ہر طرح سے عزت کرے۔"

حضرت ابراھیم علیہ السلام کا نام ہمیں بڑے مہمان نوازوں میں ملتا ہے آپ علیہ السلام بغیر مہمان کے کبھی کھانا تناول نہیں فرماتے اور اگر کسی دن کوئی مہمان نہ آتا تو دروازے پر کھڑے ہوکر کسی بھی گزرنے والے کو مہمان بنا کر گھر میں لے آتے ایک دفعہ اسی طرح آپ علیہ السلام دروازے سے ایک شخص کو مہمان بنا کر لے آئے دسترخوان پر بٹھا کر کھانا سامنے رکھ کر فرمایا جی بسم اللہ کیجئیے تو اس نے کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوں میں بسم اللہ نہیں پڑھ سکتا تو آپ علیہ السلام کو غصہ آگیا اور فرمایا کہ جب تو میرے اللہ کو نہیں مانتا تو یہاں تیری ضرورت نہیں تو چلا جا وہ چلا گیا تو اللہ کی طرف سے ندا آئی کہ اے ابراہیم اس دنیا میں اب تک اس کو کون کھلاتا پلاتا رہا ہے اس کا تعلق کس مذہب سے ہے ؟ اس کے اعمال کیا ہیں ؟

اس کا فیصلہ بروز محشر ہوگا اس وقت وہ تیرا مہمان تھا لیکن ایک دن بھی تو اسے نہ کھلا سکا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کی بات سن کر گھبرا گئے اور اسے ڈھونڈنے کی غرض سے نکل گئے تھوڑی دور وہ مل گیا تو آپ علیہ السلام اسے دوبارہ گھر لے آئے اور معذرت کرتے ہوئے بڑے احترام و اکرام کے ساتھ اسے کھانا کھلایا جب وہ کھا چکا تو کہنے لگا کہ مجھے تعجب ہے کہ پہلے آپ غصہ ہوکر مجھے گھر سے نکل جانے کا حکم دیتے ہیں اور اب اتنی مہمان نوازی آخر ماجرہ کیا ہے ؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جس رب کو تو ماننے کے لئے تیار نہ تھا مجھے اسی رب نے تیری مہان نوازی کا حکم دیا تو اس شخص نے سوچا کہ جس کو میں رب نہیں مانتا مجھ پر اس کی اتنی بڑی مہربانی کہ اس نے اپنے نبی کو یہ حکم دیا اس نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ مجھے بھی اپنے دین میں داخل کردیجیے اور وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا یہ ہے مہمسان نوازی اس کی فضیلت اور اس کے حقوق۔( صحیح بخاری حدیث 6019)