دینِ اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے، بلکہ احادیث میں یہاں تک ہے کہ حقوقُ اللہ پورا کرنے کے باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوں گے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے  روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا تم جانتے ہو کہ مُفلِس کون ہے؟صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی:ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور سازو سامان نہ ہو۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ (وغیرہ اعمال) لے کر آئے اور اس کا حال یہ ہو کہ اس نے(دنیا میں ) کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا تھا تو اِن میں سے ہر ایک کو ا ُس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اُن کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر اس کی نیکیاں (اس کے پاس سے) ختم ہوگئیں تو اُن کے گناہ اِس پر ڈال دئیے جائیں گے،پھر اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم، ص1394، الحدیث: 59 (2581)

مہمان نوازی نہ صرف ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ و سلَّم کی سُنّت مُبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیائے کِرام علٰی نَبِیِّنا وعلیہم الصلٰوۃ و السَّلَام کاطریقہ بھی ہے۔ چنانچہ ابوالضَّیفان حضرتِ سیِّدُنا اِبراہیم خلیلُ اللہ عليه السَّلام بہت ہی مہمان نواز تھےاور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے(یعنی نہ کھاتے) تھے۔فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جس گھر میں مہمان ہو اُس میں خیرو برکت اُونٹ کی کوہان سے گرنے والی چھڑی سے بھی تیز آتی ہے۔ (ابن ماجہ،ج4،ص51، حدیث: 3356)

مہمان نوازی کی نیّتیں:

رِضائے اِلٰہی کیلئے مہمان نوازی کرتے ہوئے پُر تَپاک ملاقات کے ساتھ ساتھ خوش دِلی سے کھانا یا چائے وغیرہ پیش کروں گا۔ مہمان سے خدمت نہیں لوں گا۔ اِتِّباعِ سُنّت میں مہمان کو دروازے تک رُخْصت کرنے جاؤں گا۔ (ثواب بڑھانے کے نسخے،ص11)

سنّتیں، آداب اور حکمتیں: جب مہمان آئے تو اُس کی خدمت کرے، فرمانِ مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:مہمان نوازی کرنے والے کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔(تمہید الفرش،ص18) مہمان نوازی میں جلدی کی جائے کہ یہاں جلدی کرنا شیطانی کام نہیں۔ (حلیۃ الاولیاء،ج8،ص82،رقم:11437)جب مہمان آئے تو اُس کی خدمت میں تنگ دِلی کا مُظاہَرہ نہ کرے کہ فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جب کسی کے یہاں مہمان آتا ہے تو اپنا رِزْق لے کر آتا ہے اور جب اُس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحِبِِ خانہ کے گُناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کنزالعمال، جز9، ج5،ص107،حدیث:25831)

جب مہمان کَم ہوں تو ميزبان كو چاہئے کہ مہمانوں کے ساتھ مل کر کھانا کھائے۔ حکمت: اِس سے اُن کی دل جوئی ہو گی۔قُوتُ الْقُلوب میں ہے: جو شخص اپنے بھائیوں کے ساتھ کھاتا ہے اُس سے حساب نہ ہو گا۔( قوت القلوب،ج2،ص 306) میزبان کے لئے مُسْتَحَب ہے کہ کھانے کے دوران کبھی کبھار بِلا اِصرار مہمان سےکہے:اور کھائیے! حکمت: یوں مہمان زیادہ رغبت اور مزے سے کھاتا ہے لیکن اِس میں اِصرار کرنا بُرا ہے۔ (بستان العارفین،ص61)

مہمان جب جانے کی اجازت مانگے تو میزبان اُسے روکنے کے لئے اِصرار نہ کرے۔ حکمت: ہو سکتا ہے مہمان کوئی ضَروری کام چھوڑ کر آیا ہو، زبردستی روک لینے کی صورت میں اُس کا نقصان ہوسکتا ہے۔حضرتِ سیِّدُنا اِمام محمدبن سِیْرین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتےہیں:اپنے بھائی کا اِحتِرام اِس طرح نہ کرو کہ اُسے بُرا معلوم ہو۔ (بستان العارفین،ص61)

میزبان پر لازم ہے کہ دعوت کی جگہ یا کہیں اور بھی گانے باجے وغیرہ کا اِہتِمام ہرگز ہرگز ہرگز نہ کرے کہ یہ گناہ کے ساتھ ساتھ مذہبی مہمانوں کی شِرکت میں بھی رُکاوٹ بنے گا۔ جب کھاکر فارغ ہوں تو مہمانوں کے ہاتھ دُھلائے جائیں۔ ایک ہی دسترخوان پر امیروں اور غریبوں کو ایک جیسا کھانا پیش کرنا چاہئے۔ مندرجہ ذیل چیزیں مہمانوں کے حقوق میں پیش نظر رکھنی چاہئیں:

مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔

مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار محبت دینا۔

اس کی عزت کرنا اور اس سے احترام کے ساتھ پیش آنا۔

اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا۔

اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا۔

اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا۔

مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔

مہمان نوازی کے فوائد:

مہمان نوازی کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ جیسا کہ مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔

مہمان نوازی سے معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ مل جل کر بیٹھنا، پاکیزہ گفتگو کرنا اور اکٹھے ہو کر محبت بھرے انداز میں کھانا کھانا۔ یہ سب معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔

مہمان نوازی اور ہمارا معاشرہ:

افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدریں اور ثقافت دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ گھر میں مہمان کی آمد اور اس کے قیام کو زحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مہمانوں کے لئے گھروں کے دستر خوان سکڑ گئے ہیں۔ حالانکہ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت اور فضیلت کا باعث ہے۔

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین