کوئی بھی اچھی
خصلت اور روایت ایسی نہیں
جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں تعلیم نہ دی ہو اعلی اخلاقی اقدار اور روایات میں سے
ایک بہترین روایت مہمان
نوازی بھی ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابرہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی
کا قصہ بیان فرما کر اس فعل کو محمود قرار دیا ہے اور انکے اس فعل کی وجہ سے آپ علیہ
السلام کو ابوالضیفان کا لقب عطا کیا گیا عرب کے لوگوں کی اچھی عادات میں سے ایک
مہمان نوازی بھی ہے عرب کے لوگ باہر سے آنے والے مہمانوں کی ضیافت کرنا اور ان کی
ضروریات کا خیال رکھنے میں فخر کیا کرتے تھے مہمان نوازی کے بارے میں قرآن و حدیث
میں بہت سی تعلیمات موجود ہیں فقہاء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مہمان نوازی
کے آداب اور حقوق بیان کئیے ہیں اور اسے حقوق العباد میں سے قرار دیا ہے مہمان کے
حقوق میں سے چند ایک حقوق پیش خدمت ہیں ۔
مہمان کا استقبال کرنا :مہمان کا اچھے کلمات اور اچھے انداز میں استقبال کرنے سے
دلی مسرت حاصل ہوتی ہے اور باہمی پیار و محبت میں اضافہ ہوتا ہے مہمانوں کے
استقبال کو مستحب قرار دیا گیا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب عبد القیس کا وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا وفد کو خوش آمدید تم ہمارے پاس آنے پر رسوا ہونگے اور نہ ہی شرمندہ
۔ (صحیح البخاری ،جلد8،کتاب الادب،صفحہ 41،حدیث نمبر 6176)
مہمان کی اپنے ہاتھ سے خدمت کرنا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس مہمانوں
کی خدمت فرماتے اسی طرح حضرت ابرہیم علیہ السلام کے بارے قرآن مجید میں ہے ۔ فَقَرَّبَهٗۤ
اِلَیْهِمْ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ ترجمہ: پھر اُسے ان کے پاس رکھا کہا کیا تم کھاتے نہیں
۔ (الذاریات :آیت نمبر 27)
مہمان کے ساتھ گفتگو گپ شپ لگانا : امام بخاری رحم اللہ نے مہمان اور اہل خانہ کے
ساتھ رات کو عشاء کے بعد گفتگو کرنے کے نام سے ایک باب قائم کیا اور حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک حدیث ذکر کی ہے جس میں یہ ہےکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے پھر اپنے مہمانوں کے پاس
واپس آئے اور انکے ساتھ رات کا کھانا کھایا ۔ (صحیح البخاری: کتاب: مواقیت الصلاۃ
،،جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 24)
مہمان کو تکلیف دینے سے گریز کرنا : میزبان پر یہ فرض ہے کہ مہمان کی عزت و آبرو کا
لحاظ رکھے اسے قولی فعلی کسی بھی طریقے سے تکلیف دینے سے گریز کرے حتی کہ اس کے
سامنے ایسی احادیث اور اقوال کو بھی بیان نا کرے جس سے اسے شرمندگی ہواور کوشش کرے
کہ مہمان خوش و خرم رخصت ہو مثال کے طور
پر مہمان دستر خوان پر بیٹھا ہو اور میزبان یہ حدیث بیان کردے"کسی انسان نے
اپنے پیٹ سے بُرا برتن کبھی نہیں بھرا"یہ حدیث حکم کے لحاظ سے اگرچہ صحیح ہے
لیکن اس موقع پر بیان کرنا ناموزوں اور بے محل ہے ۔ (مسند احمد ،جلد28،صفحہ 422،حدیث 17186)
کھانا بڑوں سے شروع کرنا : اگر میزبان کے ہاں بہت سے مہمان ہوں اور ان کو
کھانا وغیرہ پیش کرے تو ان میں سے بڑوں کو فوقیت دے یہ تعلیم ہمیں بہت سی احادیث
مبارکہ سے ملتی ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے" حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو پانی پلاتے تو فرماتے بڑے
سے یا بڑوں سے شروع کرو"اور اگر عمر میں سب بڑے ہوں تو دائیں طرف سے شروع کرے۔
(مسند ابی یعلیٰ ،جلد4،صفحہ315، حدیث2425)
مہمان کو گھر کے دروازے پر الوداع کرنا : جس طرح مہمان کی آمد پر اسکا اچھی طرح استقبال
کرنا چاہئیے اسی طرح اس کو رخصت کرتے وقت خود ساتھ چل کر دروازے تک الوداع کرنا
چاہئیے جب حضرت ابو عبید القاسم امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی زیارت کے لئے تشریف
لے گئے تو ابو عبید القاسم فرماتے ہیں جب میں واپسی کےلیے کھڑا ہوا تو آپ بھی میرے
ساتھ کھڑے ہو گئے میں نے عرض کی حضور آپ زحمت نا فرمائیں تو امام احمد بن حنبل نے
فرمایا یہ بات مہمان کی تکریم میں سے ہے کہ گھر کے دروازے تک اس کے ساتھ چلے۔ (مناقب الامام احمد ،صفحہ 152)
اللہ تعالیٰ
ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام اور بزرگان دین کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتے ہوئے
مہمان نوازی کی توفیق عطا فرمائے اور ایک اچھا میزبان بننے کی سعادت نصیب فرمائے
آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم