محمد طلحہ محمود عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
مدینہ خانیوال ، پاکستان)
مکہ المکرمہ نہایت بابرکت اور صاحبِ
عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت
ہو تو یقینا ًدیدارِ مکۃ المکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔ قرآنِ کریم میں متعدد
مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا۔اللہ رب العزت نے بعض رسولوں کوبعض رسولوں
پرفضیلت عطاکی ہے۔اسی طرح دنوں میں سے جمعۃ المبارک کو،مہینوں میں سے ،ماہِ رمضان
المبارک کو،راتوں میں سے لیلۃ القدرکی رات کواسی طرح شہروں میں سے مکۃ المکرمہ
اورمدینہ منورہ کوفضیلت عطاکی ہے۔شہرِمکہ کی اللہ رب العزت نے قرآنِ پاک میں قسم
اٹھائی ہے۔اللہ رب العزت نے اس شہرکی قسم اٹھائی ہے، ترجمہ کنزا لعرفان: مجھے اِس
شہر کی قسم،جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔ (پارہ 30سورہ البلد)
اس مبارک زمین کو حرم اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ
تعالیٰ نے اس خطہ زمین کی بزرگی کی وجہ سے اس کی حدود میں ایسی بہت سی چیزیں حرام
قرار دی ہیں جو اور جگہ حرام نہیں ہیں۔ مثلاً حدود حرم میں شکار کرنا، درخت کاٹنا
اور جانوروں کو ستانا وغیرہ درست نہیں۔ !بعض علماء کہتے ہیں کہ زمین کا یہ حصہ حرم
اس طرح مقرر ہوا کہ جب حضرت آدم زمین پر اتارے گئے تو شیاطین سے ڈرتے تھے کہ مجھے
ہلاک نہ کر ڈالیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت و نگہبانی کے لئے فرشتوں کو
بھیجا ان فرشتوں نے مکہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا لہٰذا مکہ کے گرداگرد جہاں جہاں
فرشتوں نے کھڑے ہو کر حد بندی کی وہ حرم کی حد مقرر ہوئی اور اس طرح کعبہ مکرمہ
اور ان فرشتوں کے کھڑے ہونے کی جگہ کے درمیان جو زمین آ گئی، وہ حرم ہوئی۔
حرمِ مکہ کےآداب : (1)جب حرمِ مکہ کے پاس پہنچیں تو شرمِ عصیاں سے نگاہیں اورسر
جھکائے خشوع و خضوع سے حرم میں داخل ہوں۔ (2)حرمِ پاک میں لَبَّیْک و دُعا کی کثرت رکھیں۔ (3)مکۃُ المکرَّمہ میں ہر دَم رَحمتوں کی
بارِشیں برستی ہیں۔ (4) وہاں کی ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔ (5) وہاں
اس بات کا خاص اہتمام کرنا چاہئے کہ ہمارے کسی عمل سے کسی کو بھی کوئی تکلیف نہ
پہنچے، (6) حرم پاک کی ہر چیز حتیٰ کہ چیونٹیوں کی بھی تکریم کرنی چاہیئے۔
حرم مکہ کی فضیلت میں آقائے نامدار مدینے کے تاجدار کے کثیر فرامین موجود ہیں لیکن یہاں تین ذکر
کرتا ہوں:
1۔ بخاری شریف
میں ہے:جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر ِمبارک سات سال یا تیرہ سال
یا اس سے کچھ زائد ہوئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی
پیش کرنے کا حکم ہوا، اب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ربّ کے
حضور سر تسلیم خم کیا اور مکہ مکرمہ تشریف لائے اور بیٹے کی قربانی پیش کرنا چاہی،
مگر اللہ پاک نے جنت سے مینڈھا بھیجا،اسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے
فدیہ میں قربان کیا گیا،اس کے بعد اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ
السلام کو کعبہ شریف تعمیر کرنے کا حکم ارشاد فرمایا،چنانچہ حضرت
ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مل کر
کعبہ شریف کو دوبارہ سے تعمیر کیا۔( بخاری، احادیث الانبیاء، صفحہ 858 تا 860،
حدیث 336 خلاصہ)
2۔ حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، میں نے حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مقام ِحزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ
پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین سے بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام
زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔ خدا کی قسم! اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو
میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ، ج3، ص 518، حدیث 3108)
3۔ صحابی ابنِ
صحابی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: بنی اسرائیل کی
طرف تشریف لانے والے ایک ہزار انبیائے کرام علیہم السلام حج کے لئے مکہ
مکرمہ تشریف لائے اور یہ سبدو طویکے مقام پر اپنی نعلین شریف یعنی مبارک جوتے اتار
کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوا کرتے تھے۔(سبل الہدیٰ، جلد1، صفحہ 209 تا211 خلاصہ)
اعلیٰ حضرت
امام اہلسنت فرماتے ہیں :
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا موقع ہے او جانے والے