محمد اسامہ عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق
اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
حرم زمین کے
اس قطعہ کو کہتے ہیں جو کعبہ اور مکہ کے گرداگرد ہے۔ ! اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی
عظمت کے سبب اس زمین کو بھی معظم و مکرم کیا ہے۔ اس زمین کو حرم اس لئے کہتے ہیں
کہ اللہ تعالیٰ نے اس خطہ زمین کی بزرگی کی وجہ سے اس کی حدود میں ایسی بہت سی چیزیں
حرام قرار دی ہیں جو اور جگہ حرام نہیں ہیں۔
مثلاً حدود
حرم میں شکار کرنا، درخت کاٹنا اور جانوروں کو ستانا وغیرہ جائز نہیں۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ حضرت آدم نے جب کعبہ بناتے وقت حجر اسود رکھا تو اس کی
وجہ سے چاروں طرف کی زمین روشن ہو گئی چنانچہ اس کی روشنی اس زمین کے چاروں طرف
جہاں جہاں تک پہنچی وہیں حرم کی حد مقرر ہوئی قرآن و حدیث کی روشنی میں حرم مکہ کے
کچھ حقوق بیان کرنے کی کوشش کروں گا پڑھیے اور علم وعمل میں اضافہ کیجئے
1)حرم امن کی
جگہ ہے لہذا حرم میں قتل وغارت کرنا حرام ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: وَ
اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ- ترجمہ کنزالایمان :اور یاد کروجب ہم نے اس گھر
کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا۔ (سورة بقره آیت نمبر 125)
تفسیر صراط
الجنان؛ امن بنانے سے یہ مراد ہے کہ حرم کعبہ میں قتل و غارت حرام ہے یا یہ کہ
وہاں شکار تک کو امن ہے یہاں تک کہ حرم شریف میں شیر بھیڑیے بھی شکار کا پیچھا نہیں
کرتے بلکہ چھوڑ کر لوٹ جاتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ مومن اس میں داخل ہو کر عذاب سے
مامون ہوجاتا ہے۔ حرم کو حرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل، ظلم اور شکار حرام
و ممنوع ہے، اگر کوئی مجرم بھی داخل ہوجائے تو وہاں اسے کچھ نہ کہا جائے گا۔(خازن،
البقرۃ، تحت الآیۃ: 125، 1 / 87 مدارک، البقرۃ، تحت الآیة125، ص77، ملتقطاً)
2)حرم کی
قربانیوں کا احترام کیا جائے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىٕرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ
الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآىٕدَ وَ لَاۤ ﰰ
مِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ
رِضْوَانًاؕ ترجمہ کنزالایمان : اے
ایمان والو حلال نہ ٹھہرا لو اللہ کے نشان اور نہ ادب والے مہینے اور نہ حرم کو بھیجی
ہوئی قربانیاں اور نہ جن کے گلے میں علامتیں آویزاں اور نہ ان کا مال آبرو جو عزت
والے گھر کا قصد کرکے آئیں اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشی چاہتے۔ (سورة مائدہ آیت
نمبر 2)
تفسیر صراط
الجنان؛ عرب کے لوگ قربانیوں کے گلے میں حرم شریف کے درختوں کی چھال وغیرہ سے ہار
بُن کر ڈالتے تھے تاکہ دیکھنے والے جان لیں کہ یہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں ہیں
اور ان سے چھیڑ خوانی نہ کریں۔ حرم شریف کی اُن قربانیوں کے احترام کا حکم دیا گیا
ہے۔
3)حرم میں
درخت ،گھاس وغیرہ نا کاٹے جائے بلکہ ان کا احترام کیا جائے۔ روایت ہے حضرت ابن
عباس سے فرماتے ہیں رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا اب
ہجرت نہ رہی لیکن جہاد اور نیت ہے اور جب جہاد کے لیے بلائے جاؤ تو نکل پڑو اور
فتح مکہ کے دن فرمایا کہ اس شہر کو اللّٰه نے اس دن ہی حرم بنا دیا جس دن آسمان و
زمین پیدا کیے لہذا یہ قیامت تک اللّٰه کے حرم فرمانے سے حرام ہے اور مجھ سے پہلے
کسی کے لیے اس شہر میں جنگ جائز نہ ہوئی ۵؎
اور مجھے بھی ایک گھڑی دن کی حلال ہوئی چنانچہ اب وہ تاقیامت اللّٰه کے حرام کئے
سے حرام ہے کہ نہ یہاں کے کانٹے توڑے جائیں اور نہ یہاں کاشکار بھڑکایا جائے اور
نہ یہاں کی گری چیز اٹھائی جائے ہاں جو اس کا اعلان کرے وہ اٹھائے اور نہ یہاں کی
خشک گھاس کاٹی جائے حضرت عباس نے عرض کیا یارسول اللّٰه اذخر کے سواء کہ وہ تو
ہاروں اور یہاں کے گھروں میں کام آتی ہے فرمایا سوائے اذخر کے (مسلم،بخاری)
شرح حدیث؛ یعنی
حرم کے خود رو درخت تو کیا کانٹے توڑنا بھی جائز۔ نہیں،اذخروکمائت کے سوا وہاں کی
سبز گھاس کاٹنا یا اس پر جانور چرانا بھی ہمارے ہاں ممنوع ہے
بعض شارحین نے
فرمایا کہ خلا ترگھاس کو کہتے ہیں اور حشیش خشک کو اور بعض کے ہاں اس کے برعکس
ہے۔مقصد یہ ہے کہ حرم شریف کی نہ تر گھاس کاٹی جائے نہ خشک کیونکہ خشک گھاس کانٹے
کے حکم میں ہے۔ اذخر ایک لمبی گھاس ہوتی ہے جو عرب میں بجائے لکڑی اور کوئلے کے
بھٹیوں میں بھی استعمال کی جاتی ہے اور گھر و قبر کی چھتوں میں بھی جیسے ہمارے ہاں
گاؤں میں سینٹے و سرکرے۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث
نمبر:2715)
4)حرم
میں بے دینی نہ پھیلائی جائے۔ روایت
ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے الله کی
بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں حرم میں بے دینی کرنے والا اسلام میں جاہلیت
کے طریقے کا متلاشی مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی کرے(بخاری)
شرح حدیث ؛ بدعقیدہ
اور گنہگار دونوں ملحد ہیں،یعنی حدود مکہ مکرمہ میں گناہ کرنے والا یا گناہ پھیلانے
والا یا بدعقیدگی اختیار کرنے والا یا رائج کرنے والا کہ اگرچہ یہ حرکتیں ہر جگہ ہی
بری ہیں مگر حرم شریف میں بہت زیادہ بری کہ اس مقام کی عظمت کے بھی خلاف ہے اور جیسے
حرم میں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ ایسے ہی ایک گناہ کا عذاب بھی ایک لاکھ ہے اسی
لیئے حضرت ابن عباس نے مکہ چھوڑکر طائف میں قیام کیا۔ ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:142)
5)حرم
میں غلہ نہ بند کیاجائے۔روایت ہے
حضرت یعلٰی ابن امیہ سے فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
حرم شریف میں غلہ بند رکھنا یہاں بے دینی کرنے کی طرح ہے (ابوداؤد)
شرح حدیث؛ حتکار
کے معنے ہیں بوقت ضرورت انسان یا جانوروں کی خوراک کو روکنا تاکہ زیادہ قحط پڑنے
پر فروخت کیا جائے،یہ حرکت ہر جگہ ہی جرم ہے کہ اس میں اللّٰه کی مخلوق کی ایذا
رسانی ہے مگر مکہ معظمہ میں ایسی حرکت بہت ہی سخت جرم ہے،وہاں احتکار کرنے والا
ابوجہل وغیرہ کفار کی طرح ہے جنہوں نے مسلمانوں کا بائیکاٹ کرکے انہیں ستایا اور
روزی ان پر تنگ کی،مکہ معظمہ کا غلہ روکنا ایسا سخت جرم ہے جیسے وہاں رہ کر بے دینی
کرنا۔ ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث نمبر:2723)