ذٰلِكَۗ-وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ-وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(30) (ترجمہ کنزالایمان:) بات یہ ہے اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کے لئے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے اور تمہارے لیے حلال کیے گئے بے زبان چوپائے سوا اُن کے جن کی ممانعت تم پر پڑھی جاتی ہے تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے۔(سورۃ الحج، آیت : 30)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کی تعظیم کرنے پر ابھارتے ہوئے فرمایا گیا کہ جو شخص ان چیزوں کی تعظیم کرے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عزت و حرمت عطا کی ہے تو یہ تعظیم اُس کے لئے بہتر ہے کہ اِس پر اللہ تعالیٰ اُسے آخرت میں ثواب عطا فرمائے گا۔( البحر المحیط، الحج، تحت الآیۃ: 30، 6 / 339، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: 30، 6 / 29، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد اللہ تعالیٰ کے اَحکام ہیں خواہ وہ حج کے مَناسِک ہوں یا ان کے علاوہ اور احکام ہوں اوران کی تعظیم سے مراد یہ ہے کہ جو کام کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا وہ کئے جائیں اورجن کاموں سے منع کیا انہیں نہ کیا جائے ۔ دوسراقول یہ ہے کہ یہاں حرمت والی چیزوں سے حج کے مناسک مراد ہیں اور ان کی تعظیم یہ ہے کہ حج کے مناسک پورے کئے جائیں اور انہیں ان کے تمام حقوق کے ساتھ ادا کیا جائے ۔تیسرا قول یہ ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں جیسے بیت ِحرام ، مَشْعَرِ حرام، بلد ِحرام اور مسجد ِحرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: 30، ص738، خازن، الحج، تحت الآیۃ: 30، 3 / 308، ملتقطاً)

مکہ مکرمہ کی بے حرمتی کرنے والے کا انجام: حضرت عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کاحق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کوضائع کردیں گے توہلاک ہوجائیں گے۔( سنن ابن ماجہ، کتاب المناسک، باب فضل مکّۃ، 3 / 519، الحدیث: 3110)

مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں ’’تجربہ سے بھی ثابت ہے کہ جس بادشاہ نے کعبہ معظمہ یا حرم شریف کی بے حرمتی کی ، ہلاک و برباد ہوگیا، یزید پلید کے زمانہ میں جب حرم شریف کی بے حرمتی ہوئی (تو) یزید ہلاک ہوا (اور) اس کی سلطنت ختم ہوگئی۔( مراۃ المناجیح، باب حرم مکہ حرسہا اللہ تعالٰی، تیسری فصل، 4 / 242-243، تحت الحدیث: 2605۔)

عام بول چال میں لوگ “ مسجدِ حرام “ کو حرم شریف کہتے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد حرام شریف حرم محترم ہی میں داخل ہےمگر حرم شریف مکہ مکرمہ سمیت اس کے اردگرد مِیلوں تک پھیلا ہوا ہے اور ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں۔ (رفیق الحرمین ، ص89)

داخلی حرم کے احکام:جب حرم مکہ کے متصل پہنچے سر جھکائے آنکھیں شرم گناہ سے بچی کیے خشوع و خضوع سے داخل ہو اور ہو سکے تو پیادہ ننگے پاؤں اور لبیک و دعا کی کثرت رکھے اور بہتر یہ کہ دن میں نہا کر داخل ہو، حیض و نفاس والی عورت کو بھی نہانا مستحب ہے۔

مکہ معظمہ کے گردا گرد کئی کوس تک حرم کا جنگل ہے، ہر طرف اُس کی حدیں بنی ہوئی ہیں، ان حدوں کے اندر تر گھاس اُکھیڑنا ، خودرو پیڑ کاٹنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ یہاں تک کہ اگر سخت دھوپ ہو اور ایک ہی پیڑ ہے اُس کے سایہ میں ہرن بیٹھا ہے تو جائز نہیں کہ اپنے بیٹھنے کے لیے اسے اُٹھائے اور اگر وحشی جانور بیرون حرم کا اُس کے ہاتھ میں تھا اُسے لیے ہوئے حرم میں داخل ہوا اب وہ جانور حرم کا ہو گیا فرض ہے کہ فوراً فورا چھوڑ دے۔ مکہ معظمہ میں جنگلی کبوتر (1) بکثرت ہیں ہر مکان میں رہتے ہیں، خبر دار ہرگز ہرگز نہ اڑائے ، نہ ڈرائے ، نہ کوئی ایذا پہنچائے بعض ادھر ادھر کے لوگ جو مکہ میں لیے کبوتروں کا ادب نہیں کرتے ، ان کی ریس(نقل) نہ کرے مگر برا جانے۔ انھیں بھی نہ کہے کہ جب وہاں کے جانور کا ادب ہے تو مسلمان انسان کا کیا کہنا! یہ باتیں جو حرم کے متعلق بیان کی گئیں احرام کے ساتھ خاص نہیں احرام ہو یا نہ ہو بہر حال یہ باتیں حرام ہیں۔(بہار شریعت جلد اول، حصہ 6، ص:1105٫1106)

(1) کہا جاتا ہے کہ یہ کبوتر اس مبارک جوڑے کی نسل سے ہیں، جس نے حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت غار ثور میں انڈے دیئے تھے، اللہ عزوجل نے اس خدمت کے صلہ میں ان کو اپنے حرم پاک میں جگہ بخشی ۔(المرجع السابق ص:1106)

خانۂ کعبہ کی زیارت و طواف ، روضۂ رسول پر حاضر ہو کر دست بستہ صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کی سعادت ، حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن کے دیگر مقدس و بابرکت مقامات کے پُرکیف نظاروں کی زیارت سے اپنی روح و جان کو سیراب کرنا ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے ، لہٰذا جس خوش نصیب کو بھی یہ سعادت میسر آئے تو اسے چاہئے کہ وہ ہر قسم کی خُرافات و فضولیات سے بچتے ہوئے اس سعادت سے بہرہ وَر ہو۔ ذیل میں حرمین طیبین کی حاضری کے بارے میں چند مدنی پھول پیش کئے جارہے ہیں ، جن پر عمل کرنے سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ زیارتِ حرمین کاخوب کیف و سرور حاصل ہوگا۔

حرمِ مکہ کےآداب: (1)جب حرمِ مکہ کے پاس پہنچیں تو شرمِ عصیاں سے نگاہیں اور سر جھکائے خشوع و خضوع سے حرم میں داخل ہوں۔ (2)اگر ممکن ہو تو حرم میں داخل ہونے سے پہلے غسل بھی کرلیں۔ (3)حرمِ پاک میں لَبَّیْک و دُعا کی کثرت رکھیں۔ (4)مکۃُ المکرَّمہ میں ہر دَم رَحمتوں کی بارِشیں برستی ہیں۔ وہاں کی ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ وہاں کا ایک گناہ بھی لاکھ کے برابر ہے۔ افسوس! کہ وہاں بدنِگاہی ، داڑھی مُنڈانا ، غیبت ، چغلی ، جھوٹ ، وعدہ خِلافی ، مسلمان کی دِل آزاری ، غصّہ و تَلْخ کلامی وغیرہا جیسے جَرائم کرتے وَقت اکثر لوگوں کویہ اِحساس تک نہیں ہوتا کہ ہم جہنَّم کا سامان کر رہے ہیں۔

مسجدالحرام کے آداب (5)جب خانۂ کعبہ پر پہلی نظر پڑے تو ٹھہر کر صدقِ دل سے اپنے اور تمام عزیزوں ، دوستوں ، مسلمانوں کے لئے مغفرت و عافیت اور بِلا حساب داخلۂ جنّت کی دُعا کرے کہ یہ عظیم اِجابت و قبول کا وقت ہے۔ شیخِ طریقت ، امیراہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں : چاہیں تو یہ دعا مانگ لیجئے کہ “ یااللہ میں جب بھی کوئی جائز دعا مانگا کروں اور اس میں بہتری ہو تو وہ قبول ہوا کرے “ ۔ علامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی نے فقہائے کرام رحمہم اللہ السَّلام کے حوالے سے لکھا ہے : کعبۃُ اللہ پر پہلی نظر پڑتے وقت جنت میں بے حساب داخلے کی دُعا مانگی جائے اور درود شریف پڑھاجائے۔ (ردالمحتار ، 3 / 575 ، رفیق الحرمین ، ص91)

(6)وہاں چونکہ لوگوں کا جمِّ غفیر ہوتا ہے اس لئے اِسْتِلام کرنے یا مقامِ ابراہیم پر یا حطیمِ پاک میں نوافل ادا کرنے کے لئے لوگوں کو دھکے دینے سے گُریز کریں اگر بآسانی یہ سعادتیں میسر ہو جائیں تو صحیح ، ورنہ ان کے حصول کے لئے کسی مسلمان کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں۔ (7)جب تک مکّۂ مکرمہ میں رہیں خوب نفلی طواف کیجئے اور نفلی روزے رکھ کر فی روزہ لاکھ روزوں کا ثواب لُوٹیے۔

اللہ کریم ہمیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی باادب حاضری نصیب فرمائے آمین ۔ حرم و حدود حرم کے آداب و احکام کے بارے میں مزید معلومات کیلئے بہار شریعت جلد اول سے حج کا بیان اور امیر اھلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب رفیق الحرمین کا مطالعہ نہایت مفید ہے ۔