تبلیغِ  قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 96 صفحات پر مشتمل کتاب ”تکبر“ صفحہ 16 پر ہے: ”خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے“۔ چنانچہ رسول اکرم، نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ، حدیث : 91، ص61)

تکبر انتہائی مذموم وصف ہے اور اس کا تعلق دل سے ہے۔ انسان دل ہی دل میں خود کو دوسروں سے بہتر گمان کرتا اور اس آفتِ بد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اب چاہے خود کو دوسروں سے بہتر گمان کرنا لباس کی وجہ سے ہو یا خوش الحانی کے سبب، حسن وجمال کی وجہ سے ہو یا مال و دولت کی فراوانی کے سبب، زیادتئ علم کی وجہ سے ہو یا کثرتِ عبادات و ریاضات کے سبب، سب ہی تکبر کی صورتیں اور باعثِ ہلاکت ہیں۔

تکبر کا انجام بہت ہی بھیانک ہے کہ اس کے سبب آدمی کے لئے قبولِ حق بھی مشکل و دشوار ہو جاتا ہے۔ اسی تکبر کا نتیجہ ہے کہ ابلیس جو کہ بہت بڑا عابد و زاہد اور ملائکہ کا استاد تھا مردودِ بارگاہِ رب الانام ہوا۔ اسی کے سبب سے قارون کو اس کے مال و دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔

احادیثِ مبارکہ میں بھی تکبر کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے چنانچہ:

(1)حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: آدمی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اپنی ذات کو بلند سمجھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے تکبر کرنے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے، پھر اسے وہی عذاب پہنچے گا جو تکبر کرنے والوں کو پہنچا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الکبر، 3 / 403، حدیث: 2007)

(2)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہمَا سے روایت ہے، سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تکبر کرنے والے چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے، ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانپ لے گی، انہیں جہنم کے قید خانے کی طرف لے جایا جائے گا جس کا نام ’’بولس‘‘ ہے، آگ ان پر چھا جائے گی اور انہیں ’’ طِیْنَۃُ الْخَبَالْ ‘‘ یعنی جہنمیوں کی پیپ اور خون پلایا جائے گا۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ ، 4 / 221، حدیث: 2500)

(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا تو قیامت کے دن اللہ پاک اس کی طرف رحمت کی نظر نہ فرمائے گا۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب من جرّ ثوبہ من الخیلائ، 4 /46، حدیث: 5788)

(4) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہ ہو گا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص60، حدیث: 147(

(5)حضرت حذیفہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بد ترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث حذیفۃ بن الیمان عن النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 9 / 120، حدیث: 23517)

اللہ پاک ہمیں تکبر جیسے مذموم وصف سے محفوظ فرمائے اور عاجزی و انکساری عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


تکبر باطنی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے اور افسوس کے ساتھ یہ مرض ہم میں کثرت سے بڑھتا چلا جا رہا ہے کسی کو اپنے ہنر پر فخر و تکبر ہے اور دوسرے کو حقیر سمجھا جاتا ہے تو کسی کو اپنے مال و دولت پر ناز ہے تو کسی اپنی طاقت و قوت پر تکبر اور کوئی اپنے حسب و نسب پر اتراتا ہے تو کوئی اپنے منصب و مرتبہ پر فخر و تکبر کرتا دکھائی دیتا ہے اور تو اور کسی کو اپنی عبادت و ریاضت بڑا فخر و غرور ہے کسی کو اپنے علم پر ناز ہے اور دوسروں کو اپنے سے حقیر جانتا ہے یاد رکھئے میرے محترم اسلامی بھائیو !!متکبر شخص اللہ پاک کو ناپسند ہے اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:  اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23) اور  تکبر  کی تعریف کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں  کو حقیر سمجھنے کا نام ہے(مسلم، حدیث: 174)

آئیے تکبر کی مذمت پر پانچ روایات بیان کرتے ہیں:

(1)  فرمان نبوی ہے: جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہیں ہوگا اور جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برا بر ایمان ہوگا وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، حدیث: 148)

(2)  حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک فرماتا ہے کہ عظمت اور کبریائی میری چادر میں ہیں جوان میں سے کسی کا دعوی کرے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا ، مجھے کسی کی پروانہیں ہے۔(ابو داؤد، حديث :4090)

(3)  فرمان نبوی ہے کہ آدمی اپنے نفس کی پیروی میں برابر بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے متکبرین میں لکھا جاتا ہے اور اسے انہیں کے عذاب میں مبتلا کیا جائیگا۔(ترمذى،حديث :2007(

(4)  حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سرکش اور متکبروں کو قیامت کے دن چیونٹیوں جیسی جسامت میں پیدا کیا جائے گا اللہ پاک کے یہاں ان کی ناقدری کی وجہ سے لوگ انہیں روندتے ہوں گے۔(ترمذى، حديث: 2500)

5)  ) فرمان نبوی ہے کہ جہنم میں ایک محل ہے جس میں تمام متکبروں کو جمع کیا جائیگا اور پھر وہ محل ان پر گرا دیا جائے گا۔(شعب الإيمان،حديث:8187)

میرے پیارے اسلامی بھائیو! صادق و مصدوق نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے فرامین سے واضح ہوتا ہے تکبر انسان کے لئے دنیا و آخرت میں کس قدر ہلاکت و رسوائی کا سبب ہے مگر افسوس کہ آج ہم اپنے سے کم مرتبہ شخص کو کس قدر حقارت  سے دیکھتے ہیں اور ہمارے انداز اور طور طریقے کس قدر تقسیم ہو چکے ہیں کہ ہمارا  ایک امیر و مال و منصب و مرتبے والے سے ملنا کا گفتگو کرنے کا انداز اور ہے اور کسی نادار اور کم مال و دولت والوں سے ملنے اور گفتگو کرنے کا طور طریقہ مختلف ہے بڑے آدمی سے جھک کر سلام لیں گے، جبکہ عام شخص سے ہاتھ ملانا گوارہ نہ کریں گیں اور  بعض تو اپنے گھر کام کرنے والوں کو اپنے برابر یا پاس بیٹھنا گوارہ نہیں کرتے۔ یاد رکھئے محترم اسلامی بھائیو ! کبریائی اور بڑائی اللہ پاک کی ذات کے لیے ہے اور اللہ پاک متکبر شخص سے ناراض ہوتا ہے جس کا اعلان واضح طور پر اللہ پاک نے فرمایا: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23) جس کو اللہ پاک پسند نہیں فرماتا یقیناً ایسا شخص جہنم کا مستحق ہے اللہ پاک ہم سے راضی ہو جائے اور اللہ پاک ہمیں عاجزی و انکساری نصیب فرمائے اور تکبر جیسی بری بیماری سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیو ! جہنم میں لے جانے والے گناہوں میں سے ایک تکبر  بھی ہے جس کا علم سیکھنا فرض ہے۔ تکبر ایسا خطرناک باطِنی مرض ہے جس کی وجہ سے ’’معلم الملکوت یعنی فِرِشتوں کے اس تاذ ‘‘ کا رُتبہ پانے والے اِبلیس (شیطان) نے خدائے رحمٰن کی نافرمانی کی اور اپنے مقام ومَنصَب سے محروم ہوکر جہنمی قرار پایا۔

آئیے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ تکبر کسے کہتے ہیں:

تکبر کی تعریف: خود کو افضل، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ چنانچہ رسول اکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ، حدیث : 91، ص61)

اِس باطِنی گناہ کے کثیر دنیوی واُخرَوی نقصانات ہیں، رب کائنات عزوجل تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا جیسا کہ سورۂ نحل میں اِرشاد ہوتا ہے : اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا ۔ (پ14، النحل:23)

شہنشاہ خوش خصال، پیکر حسن وجمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے : اللہ پاک متکبرین (یعنی مغروروں) اور اترا کر چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،3/210، حدیث : 7727)

تکبر کی مذمت کے بارے میں اور بھی کئی آیات ہیں بہرحال ان پر اکتفا کرتے ہوئے اب احادیثِ مبارکہ سے اس کی مذمت بیان کی جائے گی۔

تکبرکی مذمت پر احادیثِ مبارکہ

(1)حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت، مصطفےٰ جان رحمت، شمع بزم ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا (یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147) حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری لکھتے ہیں : جنّت میں داخل نہ ہونے سے مُراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا بلکہ تکبر اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت میں داخل ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الآداب، باب الغضب والکبر ، 8/828، 829)

(2)تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا سامنا ہوگا: چنانچہ دو جہاں کے تاجور، سلطان بحرو بر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’بولس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آجائے گی، انہیں ’’طینۃ الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ‘‘ پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)

(3) رسول اکرم، شہنشاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : ایک شخص دو چادریں اوڑھے ہوئے جا رہا تھا، تکبر کے مارے اس کا تہبند لٹک رہا تھا تو اللہ پاک نے اسے زمین میں دھنسا دیا اب وہ قیامت تک اس میں دھنستا رہے گا۔(المطالب العالیۃ لابن حجر، باب الزجرعن الخیلاء ،4/568، حدیث: 5546)

(4)سرکار والا تبار، ہم بے کسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : اللہ پاک ان چار لوگوں کو قطعاً پسند نہیں فرماتا: (1) کثرت سے قسمیں کھانے والا تاجر (2) متکبر فقیر (3) بوڑھا زانی اور (4) ظالم حکمران۔(سنن النسائی، کتاب الزکاۃ، باب الفقیر المختال، حدیث: 2577،ص2254)

(5)رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے میں خبر نہ دوں۔ ہر ناحق جھگڑا کرنے والا، اَکڑ کر چلنے والا اور تکبر کرنے والا جہنمی ہے۔(مسلم،کتاب الجنۃ الخ،باب النار یدخلھا الجبارونالخ ،ص1527، حدیث : 2853) یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں میں ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے وہ ہمیں نیک اعمال کرنے، گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں تکبر جیسے موذی مرض سے نجات عطا فرمائے، جہنم سے آزادی اور جنّت میں داخلہ نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


تکبر کسے کہتے ہیں ؟:خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔ تکبر کرنے والوں کے بارے میں اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠(۶۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو میری عبادت سے اونچے کھنچتے(تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر ۔(پ24، المؤمن:60)

متعدد احادیث میں بھی تکبر کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ جن میں سے پانچ ملاحظہ فرمائے۔

(1)سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھ پر جہنم میں سب سے پہلے داخل ہونے والے تین افراد پیش کئے گئے جو یہ ہیں:(1) زبر دستی حکمران بننے والا،(2) اپنے مال سے اللہ پاک کا حق ادا نہ کرنے والا، (3) متکبر فقیر(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث39،ص235)

(2) حضرت سیدنا سلیمان بن داؤد علیٰ نبینا وعلیہما الصلوۃ والسلام نے ایک دن جن وانس،درندوں اور پرندوں کو باہر نکلنے کا حکم دیا تو دولاکھ انسان اور دولاکھ جن حاضر خدمت ہوگئے پھر آپ علیٰ نبینا وعلیہما الصلوۃ والسلام اتنے بلند ہوئے کہ آپ علیٰ نبینا وعلیہما الصلوۃ والسلام نے آسمانوں کے فرشتوں کی تسبیح کرنے کی آواز سن لی۔ پھر آپ علیٰ نبینا وعلیہما الصلوۃ والسلام نیچے تشریف لائے ۔یہاں تک کہ آپ علیٰ نبینا وعلیہما الصلوۃ والسلام کے قدم مبارک سمندر سے مل گئے کہ اچانک آپ علیٰ نبینا وعلیہما الصلوۃ والسلام نے ایک آواز سنی ”اگر تمہارے ساتھی کے دل میں رائی کے دانے جتنا تکبر ہوتا تو میں اسے اس سے بھی دور تک زمین میں دھنسا دیتا جتنا اسے بلندی پر لے گیا تھا“۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث54،ص237)

(3) مدینے کےتاجدار ہم بے کسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے کہ ظالم اور متکبر لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح اٹھائے جائیں گے ۔لوگ انہیں اللہ پاک کے معاملے کو ہلکا جاننے کی وجہ سے اپنے قدموں تلے روندتے ہوں گے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، حدیث13 : ، ص 231)

(4) سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کا فرمان عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ”بُولَس “نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ”طِیْنَۃُ الْخَبَّالِ “یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ ۔(جہنم میں لےجانے والے اعمال،حدیث12،ص231(

(5)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے۔ جو کوئی ان میں سے کسی ایک کے بارے میں کبھی بھی مجھ سے جھگڑے گا تو میں اس جہنم میں ڈال دو گا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد،حدیث،4174)

اللہ پاک ہمیں ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


تکبر کسے کہتے ہیں ؟: خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اَلْکِبْرُ بَطرُ الْحَقِّ و غَمطُ النَّاسِ ترجمہ تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔

یاد رہے کہ تکبر کرنے والا مؤمن ہو یا کافر، اللہ پاک اسے پسند نہیں فرماتا اور تکبر سے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات ،ص:276)

قرآن و حدیث میں تکبر کرنے والوں کا بہت برا انجام بیان کیا گیا ہے ،چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (پ14،النحل:23) متعدد احادیث میں بھی تکبر کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ جن میں سے پانچ ملاحظہ فرمائیں۔

(1)ایک شخص اپنی چادر اوڑھے اکڑ کے چل رہا تھا اور اسے اپنا آپ بڑا پسند آیا اللہ پاک نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک دھنستا رہے گا۔(مسلم باب جرالثوب خیلا،الخ حدیث،2058)

(2)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔ اور وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوا۔(مسلم کتاب الایمان،باب تحریم الکبر،حدیث،148)

(3) سب سے آخری نبی مُحَمَّد مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جنّت اور جہنم کے درمیان مکالمہ ہوا تو جہنم نے کہا کہ مجھے متکبروں اور ظالموں سے ترجیح دی گئی ہے۔ جنّت نے کہا کہ مجھے کیا ہے کہ مجھ میں کمزور ،عاجز اور گرے پڑے لوگ داخل ہونگے۔ اللہ پاک نے جنّت سے ارشاد فرمایا کہ تو میری رحمت ہے۔ میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا اور جہنم سے ارشاد فرمایا کہ تو میرا عذاب ہے تیرے ذریعے میں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا عذاب دوں گا اور تم دونوں کو بھر دوں گا۔(مسلم کتاب الجنہ باب النار، حدیث،2846)

(4)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بدتر ہے وہ شخص جو تکبر کرے اور حد سے بڑھے اور سب سے بڑے جبار عزوجل کو بھول جائے۔(سنن الترمذی کتاب الصفۃ القیامۃ،ص،203تا204،حدیث ،2456)

(5) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے۔ جو کوئی ان میں سے کسی ایک کے بارے میں کبھی بھی مجھ سے جھگڑے گا تو میں اس جہنم میں ڈال دو گا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد،حدیث،4174)

اللہ پاک ہمیں ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے تکبر سے بچنے اور عاجزی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


تکبر کبیرہ گناہوں میں سے ایک ایسا گناہ ہے کہ جس کی وجہ سے بندے کئی گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور کفر بھی کر بیٹھتے ہیں۔  لیکن پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تکبر کہتے کسے ہیں چنانچہ خود کو افضل، دوسروں کو حقیرو ذلیل جاننے کا نام تکبر ہے اور شیطان جو کہ معلِّم المَلَکوت یعنی فرشتوں کا استاذ تھا وہ بھی اللہ پاک کی بارگاہ اقدس سے اس تکبر کی وجہ سے مردود ہوا۔ جیسا کہ اللہ پاک نے جب شیطان کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کر ، تو اس نے سجدہ نہیں کیا اور کافروں میں سے ہوگیا، پھر اللہ پاک نے اس سے پوچھا کہ تو نے سجدہ کیوں نہیں کیا تو اس نے کہا : اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲)ترجمہ کنزالایمان: میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اس ے مٹی سے بنایا (پ8،الاعراف:12) اور یہ ایسا گناہ ہے جس کی قراٰن و حدیث میں بہت مذمت آئیں ہیں اور قراٰن پاک میں اللہ پاک ایسے شخص کی یوں مذمت فرمائی: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23) جسے اللہ پاک نا پسند کرتا ہو تو اس شخص کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہیں اور ایسے شخص کو رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی پسند نہیں فرماتے۔ چنانچہ متکبر شخص کی مذمت کے بارے میں 5 فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں:۔

(1) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِرحمت نہ فرمائے گا۔(صحیح البخاری،4/46،حدیث:5788)

(2) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم،حدیث:147،ص60)

( 3) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک متکبرین(یعنی تکبر کرنے والے)اور اترا کر چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔(کنزالعمال،3/210،حدیث:7727)

(4)حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور لوگ ان کو روندیں گے کیوں کہ اللہ پاک کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ہوگی(رسائل ابن ابی دنیا،التواضع و الخمول،578،حدیث224)

(5) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تکبر سے بچتے رہو کیونکہ اسی تکبر نے شیطان کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرے(ابن عساکر،حرف القاف ذکر من اسمہ قابیل،49/40)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہمیشہ تکبر سے بچائے رکھے اور اپنی رضا کے لئے عاجزی اختیار کرنے کی توفیق دے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


تکبر ایک باطنی مرض ہے، جس کی وجہ سے انسان بہت ساری برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اچھائیوں سے محروم ہوجاتا ہے، تکبر کی وجہ سے معلم الملکوت (یعنی فرشتوں کے استاد) کا رتبہ پانے والے ابلیس نے خدا رحمن کی نافرمانی کی اور اپنے مقام و منصب سے محروم ہو کر جہنمی قرار دیا۔

تکبر کی تعریف:

تکبر کے لغوی معنی بڑائی چاہنا، اصطلاح میں تکبر سے مراد خود کو افضل، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (المفردات الراغب، 698)

تکبرکا نقصان:

تکبر لذّتِ نفس وہ بھی چند لمحوں کے لئے، جب کہ انسان اس کے نتیجے میں اللہ اور رسول پاک و صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ناراضگی، مخلوق کی بیزاری، میدانِ محشر میں ذلت و رسوائی ہے، ربّ پاک کی رحمت اور انعاماتِ جنت سے محرومی اور جہنم کا رہائشی بننے جیسے بڑے بڑے نقصانات کا سامنا ہے۔

اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ چند لمحوں کی لذت چاہئے یا ہمیشہ کے لئے جنت، میدانِ محشر میں عزت چاہئے یا ذلت، یقیناً ہم خسارے میں نہیں رہنا چاہیں گے تو ہم کو چاہئے کہ ہم اس مرض کو اندر سے ختم کریں، اس مرض کو ختم کرنے کے لئے کوشاں رہیں، اس مرض کو ختم کرنے کے لئے اپنا محاسبہ کریں۔

تکبر کے مرض پر ابھارنے والے اسباب:

اس مرض پر ابھارنے والے آٹھ ا سباب ایسے ہیں، جو اس کو تکبر پر ابھارتے ہیں، ٭ علم، ٭عبادت، ٭مال و دولت، ٭حسب و نسب، ٭عہدہ و منصب، ٭کامیابیاں، ٭حسن و جمال، ٭طاقت و قوت۔

تکبر کی مذمت پر 5 فرامین مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:

1۔ حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ روایت فرماتے ہیں، حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص60، حدیث148)

2۔شہنشاہِ خوش خصال، پیکرِ حسن و جمال صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اللہ پاک متکبرین کی طرح چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ (کنزالعمال الاخلاق، قسم الاقوال، جلد 3، صفحہ 210، حدیث8828)

3۔اللہ کے محبوب دانائے غیوب منزہ عن ا لعیوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب من جرثوبہ من الخیلاء، جلد 4، صفحہ 46، حدیث 5788)

4۔سیّد المرسلین، خاتم النبیین، جناب رحمۃ اللعالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس کو یہ خوشی ہو کہ لوگ میری تعظیم کیلئے کھڑے رہیں، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔ (جامع ترمذی، کتاب الادب، ج4، ص348، حدیث2864)

5۔ نبی اکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نےفرمایا:ربّ پاک فرماتا ہے ہے کہ کبریائی میری چادر ہے، لہٰذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑا کرے گا، میں اسے پاش پاش کر دوں گا۔ (مرآۃ المناجیح، ج6، ص659)

اس حدیث مبارکہ میں ربّ تعالیٰ کا کبریائی کو اپنی چادر فرمانا، ہمیں سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر کو دو نہیں اوڑھ سکتے، یوں ہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لئے نہیں ہوسکتی۔

اس باطنی مرض سے بچنے کے لئے اپنا محاسبہ کیجئے کہ کل جب حشر ہوگا اور ہر ایک اپنے کئے کا حساب دے گا تو مجھے بھی حساب اپنے ربّ پاک کی بارگاہ میں اپنے اعمال کا دینا پڑے گا، اس وقت میں انتہائی عجز، ذلت اور بے بسی کی جگہ پر ہوں گا، اگر میرا ربّ مجھ سے ناراض ہوا تو میرا کیا ہوگا، اگر تکبر کے سبب مجھے جہنم میں پھینک دیا گیا تو وہ ہولناک عذاب کیوں کر برداشت کر پاؤں گا؟

اس طرح تصور میں عذاب کو یاد کرنے کی وجہ سے انکساری پیدا ہوگی، ان تمام باتوں کو سوچ کر ان شاءاللہ تکبر دور ہو جائے گا اور بندہ خود کو اللہ پاک کی بارگاہ میں فقیر اور عاجز خیال کرے گا۔

گناہوں کی عادت چھڑا یا الہی

مجھے نیک انسان بنا یا الہی

اللہ پاک ہمیں اس مرض سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تکبر بہت ہی بُری اور قبیح چیز ہے، جو کوئی کسی سے تکبر کرتا ہے تو اس وجہ سے کرتا ہےکہ خود کو دوسرے سے بہتر اور کمال کی صفت سے موصوف سمجھتا ہے، تکبر انسان کو ذلیل و رُسوا کردیتا ہے اور دنیا والوں کی نظروں میں متکبر کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں رہتا۔

نفس کی بلندی اور برتری کے خیال کو کِبْر کہتے ہیں اور اسی سے تکبر پیدا ہوتا ہے، یعنی تکبر کے معنی یہ ہیں کہ انسان خود کو دوسروں سے بہتر اور فائق سمجھے اور اس خیال سے اس کے دل میں غرور پیدا ہو، اسی غرور کا نام تکبر ہے۔

یہ غرور آدمی میں پیدا ہوتا ہے تو دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھتا ہے اور ان کو چشمِ حقارت سے دیکھتا ہے، بلکہ ان کو اپنی خدمت کے لائق بھی نہیں سمجھتا، رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک سے دعا فرماتے:اَعُوْذُبِک من نفحۃ الکبر۔ الہی میں تکبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں! اللہ پاک کے بندوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، ان کو کم تر جاننا، تو بات کو نہ ماننا ہی تکبر ہے، اس ضمن میں 5 فرامین مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم درج ذیل ہیں:

1۔حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:سرکش اور متکبروں کو قیامت کے دن چیونٹیوں جیسی جسامت میں پیدا کیا جائے گا، اللہ پاک کے یہاں ناقدری کی وجہ سے لوگ انہیں روند رہے ہوں گے۔ (مکاشفۃ القلوب، باب 42، ص(325

وضاحت: تکبر کرنے والے اپنے چہرے اور قد قامت کے اعتبار سے چھوٹے اور حقیر ہونے میں چیونٹیوں کی طرح ہوں گے۔

2۔ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ دوزخ میں ایک غار ہے اس غار کو ہب ہب کہتے ہیں ، اللہ پاک مغروروں اور متکبروں کو اس میں ڈالے گا۔ (کیمیائے سعادت، اول نہم، ص653)

3۔رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:عظمت میرا تہبند ہے اور کبریائی میری چادر ہے، تو جو ان دونوں کے بارے میں مجھ سے جھگڑے، میں اسے آگ میں ڈال دوں گا۔ (مسلم، کتاب البروالصلہ، باب تخریم الکبر، ص1412)

وضاحت: یہ اوصاف اللہ پاک کے ہیں، جیسا کہ بندوں کے لئے تہبند اور چادر ہیں، پس جو کوئی ان دو وصفوں میں اللہ پاک سے جھگڑے، اس طرح کہ اپنی ذات میں تکبر کرے یا اللہ پاک کے ساتھ اس کی ذات و صفات میں کسی طرح شرکت کی کوشش کرے تو اللہ پاک اسے آگ میں داخل فرمائے گا۔

4۔حضور نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کے دل میں زرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم کتاب الایمان، باب تخریم الکبر، ص(60

5۔فرمان نبوی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:کہ جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اِترا کر چلتا ہے، وہ اللہ پاک سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ پاک اس پر ناراض ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب، باب 42، ص331)

ہمیں چاہئے کہ ہم خود پر غور کریں، کیونکہ دنیا میں شاید ہی کوئی شخص ہو جو تکبر سے بچا ہوا ہو، کہیں نہ کہیں سے تکبر دل میں آہی جاتا ہے، لیکن جب ان فرامینِ مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر غور کریں تو ان میں متکبرین کی مذمت اور سزائیں بیان کی گئی ہیں، جب ان پر غور کرتے ہوئے اپنا محاسبہ کریں تو تکبر سے بچا جاسکتا ہے جس میں تکبر کی عادت ہو اسے چاہئے کہ اللہ پاک کو پہچانے، تاکہ اس کو معلوم ہو کہ بزرگی و عظمت صرف اس کی صفات ہیں، پھر خود کو پہچانے، تاکہ ظاہر ہو جائے کہ اس سے زیادہ ذلیل و خوار اور کمینہ کوئی دوسرا نہیں، ان شاءاللہ پاک یہ طریقہ اس بیماری کی جڑ کو باطن سے نکال باہر کرے گا، ہم سب کو خود پر 1 بار غور ضرور کرنا چاہئے!

اللہ پاک ہمیں تکبر جیسی آفت سے محفوظ فرمائے اور کبھی یہ بیماری ہمارے قریب بھی نہ آئے، جو اس میں مبتلا ہیں انہیں راہِ ہدایت عطا فرمائے۔ آمین 

خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے، چنانچہ رسولِ اکرم نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:الکبر بطرالحق وغمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، الحدیث 91، ص61)

امام راغب اصفہانی علیہ رحمۃ اللہ الغنی لکھتے ہیں:ذلک ان یری الانسان نفسہ اکبر من غیرہ۔ یعنی تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (المفردات للراغب، ص697)

تکبر کی تعریف کے بعد اب آئیے، تکبر کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ کیجئے:

1۔سرکار مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک قیامت کے دن تم میں سے میرے سب سے نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہوگا، جو تم میں سے اَخلاق میں سب سے زیادہ اچھا ہوگا اور قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ ہوں گے، جو واہیات بکنے والے، لوگوں کا مذاق اڑانے والے اور متفیہق ہیں، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! بے ہودہ بکواس بکنے والوں اور لوگوں کا مذاق اڑانے والوں کو توہم نے جان لیا، مگر یہ متفیہق کون ہیں؟ تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔ (جامع ترمذی، الحدیث 2025، ج3، ص410)

نہ اٹھ سکے گا قیامت تلک خدا کی قسم

کہ جس کو تُو نے نظر سے گِرا کے چھوڑ دیا

2۔ اللہ پاک کے محبوب دانائے غیوب، منزہ عن العیوب پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔ (صحیح بخاری، حدیث5788، ج4، ص46)

3۔ہمارے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا(یعنی تھوڑا سا (بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم، حدیث147، ص60)

4۔ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند زمین سے گھسیٹتا ہوا جارہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا اور اب وہ قیامت تک یوں ہی زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ (صحیح بخاری، حدیث3485)

5۔حضرت حارثہ بن وہب کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سنا ہے، فرماتے ہیں کہ میں تمہیں جنت والوں کی خبر نہ دوں، صحابہ کرام نے عرض کیا، جی ہاں فرمائیے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایاہر کمزور آدمی جسے کمزور سمجھا جاتا ہے، اگر وہ اللہ پر قسم کھالے تو اللہ پاک اس کی قسم پوری فرما دے، پھر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر نہ دوں، صحابہ کرام نے عرض کیا: جی ہاں ضرور فرمائیے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا ہر جاہل، اَکھڑا مزاج تکبر کرنے والا دوزخی ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث 7177)

اللہ پاک ہمیں تکبر جیسی صفتِ مذمومہ سے محفوظ فرمائے اور ہمیں عاجزی کا پیکر بنائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْ خُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاْخِرِیْنَ۔(سورۃ غافر، آیت20) ترجمہ:جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، جلد ہی وہ رسوا ہوکر دوزخ میں داخل ہوں گے۔

فرامینِ مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:

1۔ بدترین شخص:

تکبر کرنے والے کو بد ترین شخص قرار دیا گیا، چنانچہ حضرت سیدنا حذیفہ رضی الله عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ،نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کیا تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے۔ (المسند الامام احمد بن حنبل، الحدیث 23517، ج9، ص120)

2۔قیامت میں رسوائی:

تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا سامنا ہوگا، چنانچہ حضور اکرم، نور مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی، انہیں جہنم بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا، انہیں طِیْنَۃُ الَخبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، الحدیث250، ج4، ص221)

3۔ مدنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا متکبر کے لئے اظہارِنفرت:

سرکار مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ ہوں گے، جو واہیات بکنے والے، لوگوں کا مذاق اڑانے والے اور مُتَفَیْھِقْ ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بے ہودہ بکواس بکنے والوں اور لوگوں کا مذاق اڑانے والوں کو تو ہم نے جان لیا، مگر یہ مُتَفَیْھِقْ کون ہیں؟ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔ (جامع الترمذی، ابواب البر والصلۃ، الحدیث 2020، ج3، ص410)

4۔ جنت میں داخل نہ ہو سکے گا:

حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت، شمع بزمِ ہدایت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا )یعنی تھوڑا سا (بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبرو بیانه، الحدیث 147، ص60)

5۔آباء و اجداد پر فخر مت کرو:

تاجدارِرسالت، شہنشاہِ نبوت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنے والی قوموں کو باز آجانا چاہئے، کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں یا وہ قومیں اللہ پاک کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہو جائیں گی، جو اپنی ناک سے گندگی کو کریدتے ہیں، اللہ پاک نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے آباء پر فخر کرنا ختم فرما دیا ہے، اب آدمی متقی و مؤمن ہوگا یا بدبخت و بدکار، سب لوگ حضرت آدم علیہ الصلٰوۃ و السلام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الحدیث 3981، ج5، ص497)

صرف لفظ ”مَیں“ ہی تکبر کی علامت نہیں، بلکہ کئی نشانیاں ہیں، امیر کا غریب کو حقیر جاننا امیر کے دل میں تکبر لاتا ہے، اعلیٰ شخصیت کا عام آدمی کو اپنے سے کم تر سمجھنا، اعلیٰ شخصیت میں تکبر لاتا ہے، اللہ پاک ہمیں تکبر جیسی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ عاجزی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


تکبر ایک ہلاک کر دینے والی باطنی بیماری ہے شیطان جو راندۂ درگاہ الہی ہوا اس کا ایک اہم سبب تکبر ہے، تکبر کہتے کسے ہیں  چنانچہ آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:

تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔

تکبر کے نقصانات قرآن و حدیث میں ذکر کیے گئے ہیں، چھ فرامین مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ذکر کیے جاتے ہیں

(1) کبریائی رب کی چادر: نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا

رب پاک ارشاد فرماتا ہے: کبریائی میری چادر ہے لہٰذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا میں اسے پاش پاش کر دوں گا۔ (المستدرک للحاکم کتاب الایمان باب اہل الجنۃ ۔۔۔الخ الحدیث 210، ج 1، ص 235)

رب تعالیٰ کا کبریائی کو اپنی چادر فرمانا ہمیں سمجھانے کے لیے ہے جیسے ایک چادر کو دو نہیں اوڑھ سکتے یونہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لیے نہیں ہو سکتی۔ (ماخوذ از مراۃ المناجیح ج 4، ص 459)

(2) اللہ پاک کا نا پسندیدہ بندہ:حدیث مبارکہ میں ہے

اللہ پاک متکبرین اور اترا کر چلنے والوں کو نا پسند فرماتا ہے (کنز العمال کتاب الاخلاق قسم الاقوال الحدیث 7727 ج 3 ص 210)

(3) قیامت میں رسوائی: تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا سامنا ہوگا۔۔۔ فرمان آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی انہیں جہنم کے بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گااور بہت آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گ۔ انہیں طینۃ الخبال پلائی جائے گی (جامع الترمذی کتاب القیامۃ باب ماجاء فی شدہ۔۔۔الخ الحدیث 2500 ج 4 ص 221)

(4) جنت میں داخل نہ ہو سکے گا: فرمان مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا (صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریمۃ الکبر و بیانہ الحدیث 147 ص 60)

اس سے مراد یہ کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنت میں داخل نہ ہوگابلکہ تکبر اور ہر بری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک کے عفو و کرم پاک و صاف ہو کر جنت میں داخل ہوگا (مرقاۃ المفاتیح ج 8 ص 829)

(5) رب تعالیٰ نظر رحمت نہیں فرمائے گا: فرمان آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظر رحمت نہ فرمائے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب اللباس الحدیث 5788، ج ۔۔۔)

تکبر کی کچھ علامات بھی ہیں جیسے کسی کی نصیحت قبول نہ کرنا۔۔۔ دوسروں کو حقیر جان کر حقوق پورے نہ کرنا۔۔۔ سلام میں پہل نہ کرنا وغیرہ۔

تکبر سے چھٹکارا پانے کے لیے انسان اپنی کمزوری اور رب تعالیٰ کی قدرت پر غور کرے ان شاء اللہ چھٹکارا ملے گا۔

مزید معلومات کے لیے تکبر پڑھیے۔

تکبر کی تعریف:

رسول اکرم، نور مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اَلْکِبْرُ بَطَرْالْحَقِ وَغَمْطْ النَّاسِ۔ یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبرو بیانہ، ص61، حدیث 147)

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے، جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔ (مفردات الفاظ القرآن، کبر، ص697، باطنی بیماریوں کی معلومات)

1۔ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی، انہیں جہنم کے بُوْلَس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں طِیْنَۃُ الْخَبَّال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ج4، ص 221، حدیث 2500)

2۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنے فوت شدہ آباء و اَجْدَاد پہ فخر کرنے والی قوموں کو باز آجانا چاہئے کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں یا وہ قومیں اللہ پاک کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہوجائیں گی، جو اپنی ناک سے گندگی کریدتے ہیں، اللہ پاک نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے آباء پر فخر کرنا ختم فرما دیا ہے، اب آدمی متقی و مؤمن ہوگا یا بدبخت وبدکار، سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل الشام والیمن، ج5، ص497، حدیث 3981)

3۔ مخزنِ جودو سخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:جو شخص تکبر، خیانت اور دَین(یعنی قرض وغیرہ) سے بری ہوکر مرے گا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (جامع الترمذی، کتاب السیر، باب ماجاء فی الفلول، الحدیث158، ج3، ص208)

4۔ تکبر کرنے والے کی مثال ایسی ہے، جیسے کہ کوئی غلام بغیر اجازت بادشاہ کا تاج پہن کر اس کے شاہی تخت پر بیٹھ جائے، تو جس طرح یہ غلام بادشاہ کی طرف سے سخت سزا پائے گا بالکل اسی طرح صفت کبر میں شرکت کی مذموم کوشش کرنے والا شخص اللہ پاک کی جانب سے سزا کا مستحق ہوگا، چنانچہ نبی اکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:ربّ پاک فرماتا ہے:کبریائی میری چادر ہے، لہذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا، میں اُسے پاش پاش کر دوں گا۔ (المستدرک للحاکم، کتاب الایمان، باب اھل الجنۃ لمفلورون ۔۔ الخ، الحدیث 210، ج1، ص235)

ربّ پاک کا کبریائی کو اپنی چادر فرمانا، ہمیں سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر کو دو نہیں اوڑھ سکتے، یونہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لئے نہیں ہوسکتی۔ (ماخوذ اَز مراۃ المناجیح، ج6، ص659)

ربّ کائنات تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا،جیسا کہ سورہ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ۔ (پ14، النحل: 23) ترجمہ:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔

تکبر کا نقصان:

شہنشاہ ِخوش خصال، پیکر حُسن و جمال صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:اللہ پاک متکبرین (یعنی مغروروں) اور اترا کر چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ (کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الحدیث 7727، ج3، ص210)

5۔ رحمتِ الٰہی سے محروم:

رحمت الٰہی سے محروم ہونے والوں میں متکبر بھی شامل ہوگا، جیساکہ اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب من الخیلائی، الحدیث 5788، ج4، ص46)

تکبر اور اس جیسی دیگر باطنی بیماریوں سے بچنا نہایت ضروری، بلکہ فرض ہے۔ (فتاویٰ رضویہ مخرجہ، ج23، ص624)

اس لئے ہر اسلامی بھائی/بہن کو چاہئے کہ پہلے تکبر کی تعریف، تباہ کاریاں، اقسام، اسباب، علامات، علاج وغیرہ کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرکے دیانتداری کے ساتھ محاسبہ کرے، پھر اگر اس باطنی گناہ میں گرفتار ہونے کا احساس ہوتو ہاتھوں ہاتھ اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کرے اور علاج کے لئے بھرپور کوشش شروع کردے۔

اللہ پاک ہمیں تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین