تکبر بہت ہی بُری اور قبیح
چیز ہے، جو کوئی کسی سے تکبر کرتا ہے تو اس وجہ سے کرتا ہےکہ خود کو دوسرے سے بہتر
اور کمال کی صفت سے موصوف سمجھتا ہے، تکبر انسان کو ذلیل و رُسوا کردیتا ہے اور
دنیا والوں کی نظروں میں متکبر کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں رہتا۔
نفس کی
بلندی اور برتری کے خیال کو کِبْر کہتے ہیں اور اسی سے تکبر پیدا ہوتا ہے، یعنی
تکبر کے معنی یہ ہیں کہ انسان خود کو دوسروں سے بہتر اور فائق سمجھے اور اس خیال
سے اس کے دل میں غرور پیدا ہو، اسی غرور کا نام تکبر ہے۔
یہ غرور
آدمی میں پیدا ہوتا ہے تو دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھتا ہے اور ان کو چشمِ حقارت
سے دیکھتا ہے، بلکہ ان کو اپنی خدمت کے لائق بھی نہیں سمجھتا، رسول اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک سے
دعا فرماتے:اَعُوْذُبِک
من نفحۃ الکبر۔ الہی
میں تکبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں! اللہ پاک کے بندوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، ان کو
کم تر جاننا، تو بات کو نہ ماننا ہی تکبر ہے، اس ضمن میں 5 فرامین مصطفےٰ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم درج ذیل ہیں:
1۔حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:سرکش اور متکبروں کو قیامت کے دن چیونٹیوں جیسی جسامت میں پیدا کیا جائے گا، اللہ پاک کے یہاں ناقدری کی وجہ سے لوگ انہیں روند رہے ہوں گے۔
(مکاشفۃ القلوب، باب 42، ص(325
وضاحت: تکبر کرنے والے اپنے چہرے
اور قد قامت کے اعتبار سے چھوٹے اور حقیر ہونے میں چیونٹیوں کی طرح ہوں گے۔
2۔ حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ دوزخ میں ایک غار ہے اس غار کو ہب ہب کہتے ہیں ، اللہ پاک مغروروں اور متکبروں کو اس میں ڈالے گا۔ (کیمیائے سعادت، اول نہم، ص653)
3۔رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:عظمت میرا تہبند ہے اور کبریائی میری چادر ہے، تو جو ان دونوں کے بارے میں مجھ سے جھگڑے، میں اسے آگ میں ڈال دوں گا۔
(مسلم، کتاب البروالصلہ، باب تخریم الکبر، ص1412)
وضاحت: یہ اوصاف اللہ پاک کے ہیں، جیسا کہ بندوں کے لئے تہبند اور
چادر ہیں، پس جو کوئی ان دو وصفوں میں اللہ پاک سے جھگڑے، اس طرح کہ اپنی ذات میں تکبر کرے
یا اللہ پاک کے ساتھ اس کی ذات و صفات میں
کسی طرح شرکت کی کوشش کرے تو اللہ پاک اسے
آگ میں داخل فرمائے گا۔
4۔حضور نبی پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کے دل میں زرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم کتاب الایمان، باب تخریم الکبر، ص(60
5۔فرمان نبوی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:کہ جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اِترا کر چلتا ہے، وہ اللہ پاک سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ پاک اس پر ناراض ہوگا۔
(مکاشفۃ القلوب، باب 42، ص331)
ہمیں چاہئے کہ ہم خود پر غور
کریں، کیونکہ دنیا میں شاید ہی کوئی شخص ہو جو تکبر سے بچا ہوا ہو، کہیں نہ کہیں
سے تکبر دل میں آہی جاتا ہے، لیکن جب ان فرامینِ مصطفےٰ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر غور کریں تو ان میں متکبرین کی مذمت اور سزائیں بیان کی گئی ہیں، جب ان
پر غور کرتے ہوئے اپنا محاسبہ کریں تو تکبر سے بچا جاسکتا ہے جس میں تکبر کی عادت
ہو اسے چاہئے کہ اللہ پاک کو پہچانے، تاکہ
اس کو معلوم ہو کہ بزرگی و عظمت صرف اس کی صفات ہیں، پھر خود کو پہچانے، تاکہ ظاہر
ہو جائے کہ اس سے زیادہ ذلیل و خوار اور کمینہ کوئی دوسرا نہیں، ان شاءاللہ پاک یہ طریقہ اس بیماری کی جڑ کو باطن سے نکال
باہر کرے گا، ہم سب کو خود پر 1 بار غور ضرور کرنا چاہئے!