تکبر باطنی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے اور افسوس کے
ساتھ یہ مرض ہم میں کثرت سے بڑھتا چلا جا رہا ہے کسی کو اپنے ہنر پر فخر و تکبر ہے
اور دوسرے کو حقیر سمجھا جاتا ہے تو کسی کو اپنے مال و دولت پر ناز ہے تو کسی اپنی
طاقت و قوت پر تکبر اور کوئی اپنے حسب و نسب پر اتراتا ہے تو کوئی اپنے منصب و
مرتبہ پر فخر و تکبر کرتا دکھائی دیتا ہے اور تو اور کسی کو اپنی عبادت و ریاضت
بڑا فخر و غرور ہے کسی کو اپنے علم پر ناز ہے اور دوسروں کو اپنے سے حقیر جانتا ہے
یاد رکھئے میرے محترم اسلامی بھائیو !!متکبر شخص اللہ پاک کو ناپسند ہے اللہ پاک قراٰن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23)
اور تکبر کی تعریف کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام
ہے(مسلم، حدیث: 174)
آئیے تکبر کی مذمت پر
پانچ روایات بیان کرتے ہیں:
(1) فرمان نبوی ہے: جس شخص کے دل میں
رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہیں ہوگا اور جس شخص کے دل میں
رائی کے دانہ کے برا بر ایمان ہوگا وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، حدیث: 148)
(2) حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک فرماتا ہے کہ عظمت اور کبریائی میری چادر
میں ہیں جوان میں سے کسی کا دعوی کرے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا ، مجھے کسی
کی پروانہیں ہے۔(ابو داؤد، حديث :4090)
(3) فرمان نبوی ہے کہ
آدمی اپنے نفس کی پیروی میں برابر بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے متکبرین میں
لکھا جاتا ہے اور اسے انہیں کے عذاب میں مبتلا کیا جائیگا۔(ترمذى،حديث :2007(
(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سرکش اور
متکبروں کو قیامت کے دن چیونٹیوں جیسی جسامت میں پیدا کیا جائے گا اللہ پاک کے
یہاں ان کی ناقدری کی وجہ سے لوگ انہیں روندتے ہوں گے۔(ترمذى، حديث: 2500)
5) ) فرمان نبوی ہے
کہ جہنم میں ایک محل ہے جس میں تمام متکبروں کو جمع کیا جائیگا اور پھر وہ محل ان
پر گرا دیا جائے گا۔(شعب الإيمان،حديث:8187)
میرے پیارے اسلامی بھائیو! صادق و مصدوق نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین سے واضح ہوتا ہے تکبر انسان کے لئے دنیا و
آخرت میں کس قدر ہلاکت و رسوائی کا سبب ہے مگر افسوس کہ آج ہم اپنے سے کم مرتبہ
شخص کو کس قدر حقارت سے دیکھتے ہیں اور ہمارے انداز اور طور طریقے کس قدر
تقسیم ہو چکے ہیں کہ ہمارا ایک امیر و مال و منصب و مرتبے والے سے ملنا کا
گفتگو کرنے کا انداز اور ہے اور کسی نادار اور کم مال و دولت والوں سے ملنے اور
گفتگو کرنے کا طور طریقہ مختلف ہے بڑے آدمی سے جھک کر سلام لیں گے، جبکہ عام شخص
سے ہاتھ ملانا گوارہ نہ کریں گیں اور بعض تو اپنے گھر کام کرنے والوں کو
اپنے برابر یا پاس بیٹھنا گوارہ نہیں کرتے۔ یاد رکھئے محترم اسلامی بھائیو ! کبریائی اور بڑائی اللہ پاک کی ذات کے لیے ہے
اور اللہ پاک متکبر شخص سے ناراض ہوتا ہے جس کا اعلان واضح طور پر اللہ پاک نے
فرمایا: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23)
جس کو اللہ پاک پسند نہیں فرماتا یقیناً ایسا شخص جہنم کا مستحق ہے اللہ پاک ہم سے
راضی ہو جائے اور اللہ پاک ہمیں عاجزی و انکساری نصیب فرمائے اور تکبر جیسی بری
بیماری سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم